برصغیر میں سیرت نگاری کے جدیدرجحانات کے اسباب و عوامل اور اثرات

مقالہ # 6

1. تعارف

تاریخ سیرت کے مطالعہ میں ان محرکات و عوامل کا مطالعہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے ، جن کی وجہ سے سیرت نگاری کے مختلف رحجانات جنم لیتے ہیں یا کسی خاص دور میں مقبولیت حاصل کر کے اس فن کی روایت کو کوئی خاص سمت عطا کرتے ہیں۔برصغیر میں سیرت نگاری کی تاریخ کی بہتر تفہیم کے لیے یہ ضروری اور مفید معلوم ہوتا ہے کہ خاص دور جدید کے تناظر میں دیکھا جائے کہ مختلف جدید رحجانات کے اسباب و محرکات کیا ہیں۔ یہ مطالعہ اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ بر صغیر پاک و ہند میں پچھلی دو صدیوں میں سیرت طیبہ کا وقیع ادب وجود میں آیا جو کیفیت و کمیت میں اس عرصہ میں عربی سمیت تمام زبانوں کے ادب سیرت پر فائق ہے(1ازی ، محمود احمد ، محاضرات سیرت،الفیصل ناشران، لاہور،ط سوم ۲۰۰۹ء، ص 586۔) ۔ یہ بھی کہا گیا کہ علامہ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کی سیرت النبی جیسی معیاری اور تحقیقی کتاب عربی میں نہیں لکھی گئی(2 صدیقی، ڈاکٹر محمد يسين مظہر ، ہندوستان میں عربی سیرت نگاری : آغاز و ارتقاء مشمولہ مقالات سیرت (مرتب ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس)، مکتبہ اسلامیہ ،لاہور 2015، ج1 ص 283۔)۔ اسی عرصہ کے دوران سیرت نگاری کے بعض نئے رجحانات سامنے آئے، جن میں سے بعض رجحانات مختلف عوامل کی وجہ سے سامنے آئے۔ اس مقالہ میں بر صغیر کے لحاظ سے خصوصی اسباب و عوامل کا تجزیاتی مطالعہ کیا جانا مقصود ہے۔ سیرت نگاری یا دیگر علوم میں کوئی بھی رجحان عموما جن صورتوں میں ظاہر ہوتا ہےان میں مواد کا انتخاب، مواد کے مآخذ، مواد کی پیشکش کا منہج و اسلوب ، شخصی و قومی اعتقادات و تصورات کی تصویر گری اورعلم کے ابلاغ میں زمانے کی مخصوص تکنیکی سہولیات سے استفادہ کے طریقوں کو شامل کیا جا سکتا ہے ۔ ذیل میں برصغیر کی اردو سیرت نگاری کے تناظر میں اس مسئلہ کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ سیرت نگاری کے متنوع جدید رجحانات کن اسباب و عوامل کے تابع جنم لے کر مقبول ہوئے ۔

2. سیرت نگاری کا  بنیادی سبب ۔ محبت رسولﷺ

ایک مسلمان کیلئے محبت رسول ﷺ ہی سیرت نگاری کا سب سے بڑا محرک ہے ۔ اگرچہ سیرت کی اہمیت میں قرآن پاک کی آیت مبارکہ(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ)(3الاحزاب ۳۳:۲۱) بجا طور پر پیش کی جاتی ہے۔ تاہم تاریخی تجربہ کچھ مزیدحقائق کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر صرف اسوہ کا حصول ہی مطمع نظر ہوتا ،تواب تک سیرت کے جتنے دفاتر رقم ہو چکے ہیں اور احادیث کے جتنے ذخائر جمع ہو چکے اور ان پر مبنی فقہ کا جتنا مواد میسر آ گیا ہے، اس پر کسی خاص اضافہ کی گنجائش نہ تھی۔ اگرچہ چند تحقیقی کتب ایسی ضرور سامنے آئی ہیں ،جنہوں نے ذخیرہ سیرت میں کچھ پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے، مگر ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جبکہ تالیفات سیرت کی تعداد کا شمار ایک ناممکن امر ہے۔ روز بروز نئی تالیفات وجود میں آرہی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ایسا کن وجوہات کی بناء پر ہو رہا ہے؟۔ ایک حقیقت جس کی طرف ڈاکٹر علی الحرکا ن نے اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ ایسا اللہ اور اسکے رسول ﷺکی محبت میں ہو رہا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں :۔
’’ آپﷺ کی پیروی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی نشانی قرار دیا ہے۔ اس سبب سے لوگ گرویدہ و وارفتہ ہو کر آپﷺ کے محاسن کے اظہار اور سیرت طیبہ کی نشرو اشاعت کے لئے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘(4مبارکپوری، صفی الرحمان ، الرحیق المختوم، المکتبہ السلفیہ لاہور، س۔ن ، پیش لفظ از محمد علی الحرکان، ص۹) ۔
موصوف قرآن پاک کی آیت مبارکہ (قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ)(5آل عمران ۳: ۳۱) کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اس مظہر کو قرآن پاک کی ایک اور آیت کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے، جس کا ذکر اہل علم کرتے رہتے ہیں ۔ وہ یہ کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں آپ ﷺ کے علو مرتبت اور رفعت ذکر کا جو وعدہ فرمایا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے (وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ )(6 انشراح ۹۴:۴) یہ مظہر ، اسی وعدہ ربانی کاجا بجا اظہار ہے۔ سیرت کے پھیلاؤ کے پیچھے یہی ارادہ الہی بڑی حقیقت ہے ۔ آنحضورﷺ کی ذات گرامی سے اپنوں اور غیروں کی محبت انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ آنحضور ﷺ سے اپنی قلبی تعلق کا اظہار کریں اور آنحضرت ﷺ کی سیرت کو بیان کریں اگرچہ وہ کسی خاص مقصد یا ترتیب کے بغیر ہی کیوں نہ ہو۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کی’’ النبی الخاتم (7 گیلانی، سید مناظر احسن، النبی الخاتم، مکتبہ اخوت، لاہور، س۔ن) اور’’ چوہدری افضل حق کی کتاب سیرت ” محبوب خدا”(8افضل حق،چوہدری،محبوب خدا، قومی کتب خانہ لاہور ،ط: ششم، 1969۔) اسی شوق و محبت کی پیداوار ہونے کی مثالیں ہیں۔مسلمان تو مسلمان ،ایک مستشرق مارگولیس نے لکھا تھا کہ محمد(ﷺ) کے سوانح نگاروں میں جگہ پانا اعزاز کی بات ہے(9Margoliuth,D. S,Mohammed and the Rise of Islam,3rd. ed.(2003) G.P. Putnam’s Sons. Newyork) ۔ ابوالحسن ندوی اپنی کتاب سیرت کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی سعادت سمجھ کریہ کوشش کی کہ سیرت نبویﷺ پر ایک نئی کتاب لکھ کر اس محبوب و جلیل القدر موضوع کے مصنفین کی نوارنی فہرست میں شامل ہو جاؤں(10ندوی، ابوالحسن علی، نبی رحمت، دارالاشاعت کراچی 1983ء ، ص16) ۔

3.   بر صغیر میں سیرت نگاری کے جدید رجحانات کےخصوصی اسباب اور ان کے اثرات

سیرت نگاری کے بنیادی اسباب کے علاوہ مخصوص مکان و زمان سے پیدا شدہ حالات و واقعات سے کچھ ایسے اسباب بھی جنم لیتے ہیں ، جو اس اعلٰی علمی ، عقائدی اور جذباتی سرگرمی کے ازدھار اور تنوع کا باعث بنتے ہیں۔ ذیل میں ان عوامل کا تفصیلی مطالعہ کیا جا رہا ہے، جو برصغیر کے مخصوص سیاسی و سماجی حالات میں ، جدید رجحانات سیرت کا باعث بنے ہیں ۔

الف ۔ مستشرقین کے اثرات

جدید مستشرقین عالمی استعمار کا ہر اول دستہ بن کر مشرقی ممالک میں آئے(11ممتاز مصری عالم اے ایل طباوی کوڈاکٹر مصطفی السباعی نے استشراق کے سیاسی محرکات کے ضمن میں ایک بڑی اہم بات لکھی ہے کہ مستشرقین عام طور پر مشرق میں مغربی حکومتوں اور اقتدار کا ہراول دستہ رہے ہیں۔ مغربی حکومتوں کو علمی کمک اور رسد پہنچانا ان کا کام ہے۔ وہ ان مشرقی اقوام و ممالک کے رسم و رواج، طبیعت و مزاج، طریقِ بود و مانداور زبان و ادب بلکہ جذبات و نفسیات سے متعلق صحیح اور تفصیلی معلومات فراہم کرتے ہیں تاکہ ان پر اہلِ مغرب کو حکومت کرنا آسان ہو۔(تحسین فراقی ،ڈاکٹر ، مستشرقین کا اسلوبِ سیرت نگاری اور مولانا عبدالماجد دریا بادی،مشمولہ مقالات بین الاقوامی سیمینار: دور جدید میں سیرت نگاری کے رجحانات(۶۲ تا ۸۲ مارچ ۱۱۰۲ء) ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد(غیر مطبوعہ)ص۳۸۳) اور مشرقی زبانوں ،علوم اور مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا۔ علامہ شبلی نے اپنے مشہور مقدمہ سیرت میں یورپ کے اسلام کے بارے میں لکھنے والوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے، ایک عوام اور مذہبی شخصیات مثلاً پادری وغیرہ دوسرے محققین و غیر متعصب لکھاری ۔ جن کے بدولت نادرالوجود عربی کتب ترجمہ اور شائع ہوئیں۔ اخیر اٹھارہویں صدی میں جب یورپ کی سیاسی طاقت اسلامی ممالک میں پھیلنی شروع ہوئی تو اورنٹلسٹ کی ایک کثیر التعداد جماعت پیدا ہوئی ۔ ان محققین میں تین طرح کے لوگ تھے۔ اول وہ جو عربی اور اصلی ماخذ سے واقف نہیں اور تراجم اور اوروں کی تصانیف سے معلومات لے کر مشتبہ اور ناکامل مواد کو قیاس اور میلان طبع کے قالب میں ڈھالتے ہیں دوم وہ جو عربی زبان و ادب و فلسفہ اسلام کے تو بڑے ماہر ہیں مگر مذہبی لٹریچر اور فن سیرت سے نا آشنا ہیں۔ یہ اپنی عربی دانی کے زعم میں اسلام یاشارح اسلام کے بارے میں بڑی دیدہ دلیری سے جو چاہتے ہیں ،لکھ جاتے ہیں مثلاً ساخو ،جس نے طبقات ابن سعد شائع کی یا نولڈ یکی ،جس نے قرآن مجید کا خاص مطالعہ کیا۔ سوم وہ گروہ جس نے خاص اسلامی لٹریچر کا کافی مطالعہ کیا ہے مثلاً پامر صاحب یا مارگولیس یا ڈاکٹر اسپرنگر ۔لیکن ان سب کی مشترکہ خصوصیت ان کا مذہبی اور سیاسی تعصب ہے(12 شبلی نعمانی و سلیمان ندوی ،سیرۃالنبیﷺ،دار الاشاعت ، کراچی، 1985ء ، مقدمہ ،ج۱۔ص ۶۳ تا ۷۲) ۔
علامہ عبدالماجد دریابادی مستشرقین کے طریقہ کار کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ، لکھتے ہیں : ۔
’’جن علماء فرنگ کو کوئی خاص عناد اسلام سے نہیں ،وہ بھی کس کس طرح واقعات کو مسخ کر کے پیش کرتے ہیں اور خواہ ضمناً ہی سہی ،سیرت نبویﷺ کو کیسی کیسی تلبیسات اور تحریفات کا ہدف بناتے رہتے ہیں۔ ۔۔ایک خالی الذہن قاری جب کسی یورپی کی تصنیف پڑھتا ہے تو وہ آنحضورﷺ کے ذکر پر بظاہر بڑے پر عظمت انداز میں آنحضورﷺ کی نبوت کا اعتراف چھپا کر ایک با تدبیر لیڈر کا اقرار کرتا ہے، تو ایسے میں ایک سادہ دل مسلمان طالب علم جو مصنف کی بے تعصبی اور رواداری کا قائل ہے،خلوئے ذہن کے ساتھ مصنف سے ایسے متاثر ہو جاتا ہے جیسے وہ اس پر اثر ڈالنا چاہتا ہے‘‘(13دریا بادی، عبدالماجد ، مولانا، مردوں کی مسیحائی ، مکہ پبلیشنگ کمپنی ، لاہور ، س۔ ن، ص74-67) ۔
علامہ اسد مستشرقین کے بارے لکھتے ہیں:۔
’’یورپ بدہشٹ اور ہندو فلسفیوں کے تعلیمات کو قبول کر سکتا ہے اور اُن مذہبوں کے متعلق ہمیشہ متوازن اور مفکرانہ رویہ اختیار کر سکتا ہے ،مگر جیسے ہی اسلام اس کے سامنے آتا ہے اس کے توازن میں خلل پڑ جاتا ہے اور جذباتی تعصب آجاتا ہے۔ بڑے سے بڑے یوروپین مستشرقین بھی اسلام کے متعلق لکھتے ہو ئے غیر معقول جانب داری کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ اس طریقہ عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ کے مستشرقین کے ادب میں ہمیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کی بالکل مسخ شدہ تصویر ملتی ہے۔ ‘‘(14محمد اسد، اسلام دوارہے پر، دار الاندلس، جبرالٹر، ۱۹۶۸، ص۴۷) ۔
ہیکل نے مقدمہ طبع دوم میں ایک معترض کو جواب دیتے وقت مستشرقین کی فکری نقب زنی اور اثرات کا ذکر کیا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں۔
’’مستشرقین کی تحریروں میں اسلام اور بانی اسلام کے متعلق عیب جوئی کی بیماری اس حد تک دکھائی دیتی ہے کہ وہ اپنی دورغ گوئی اس شاطرانہ انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان پر حقیقت کا یقین ہونے لگتا ہے‘‘(15ہیکل ،محمد حسین، حیات محمدؐ،( مترجم محمد مسعود عبدہ)، الفیصل ناشران، لاہور، س ن۔ص۲۳) ۔
مستشرقین کی تصانیف اور کوششوں نے عالم اسلام میں علماء اور مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان میں سے کچھ اثرات مثبت تھے مثلاً ہمارے قدیم سیرتی ادب میں بہت ساری کتب پر معجزاتی اور اساطیری رنگ غالب آگیاتھا ، جس میں غیر مستند مواد کی کثیر مقدار موجود ہےاور یہ مظہر نمایا ں طور پر میلاد ناموں میں ظہور پذیر ہوا۔ مستشرقین کے مطالعات سے ہمیں اپنے طریقہ کار پر نظر ثانی کرنے اور اصول مرتب کرنے کی ترغیب ملی، چنانچہ اس سلسلہ میں متعدد سیرت نگاروں نے شعوری کوششیں کیں ۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ماخذوں اور راویوں کے چناؤ میں کچھ ایسی بے احتیاطیاں ہوئیں جو کہ خود طریقہ محدثین کے بھی خلاف تھیں۔ ان کی وجہ سے جدید مصنفین کو بعض واقعات کی توضیح و تشریح میں مشکلات پیش آئیں۔ لہذا ہمارے ارباب سیرت نے اپنے ماخذوں پر بھی نظر ثانی کی اور انہی ضروریات کے تحت شبلی کا وقیع مقدمہ سیرت منصہ شہود پر آیا۔ ڈاکٹر تنولی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’سیرت کے باب میں مستشرقین کا گہرا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ خود اہل اسلام کو فہم سیرت میں اپنی کاوشوں کو معیاری بنانے کی دعوت دیتا ہے‘‘(16طاہر القادری،ڈاکٹر محمد، مقدمہ سیرت الرسول ، منہاج القرآن پبلی کیشنرزلاہور، ط۱۵، ۲۰۱۱ ء ،پیش لفظ از طاہر حمید تنولی، ج ا ، ص۲۷) ۔ دوسری طرف مستشرقین کی تحریروں کے بہت سے منفی اثرات بھی مسلم زعماء، فکر اسلامی اور نوجوان نسل پر مرتب ہوئے۔ اول یہ کہ یورپ والوں کی تحریروں کو غیر معمولی اعتبار نصیب ہوا جو کہ ان کے منفی مقاصد کے پیش نظر مسلم فکر کے لیے نہایت نقصان دہ تھا۔ دوم یہ کہ مسلم اقدارخود مسلمانوں کے لیے فرسودہ اور محض چھٹی ساتویں صدی کی کفیل قرار پائیں سوم یہ کہ بنیادی اسلامی مآخذ قرآن ،حدیث اور سیرت پر شکوک و شبہات کے مصنوعی سائے لہرانے لگے اور مجموعی طور پر اسلامی ذہن میں تشکیک اور بے یقینی نے اپنے ڈیرے ڈال دیئے ۔ اسی حقیقت کی طرف ڈاکٹر طاہر القادری نے اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:۔
’’جب ملت اسلامیہ عالمگیر سطح پر زوال کا شکار ہو ئی ،تو اغیارنے نہ صرف اس کے سیاسی ، معاشرتی اور معاشی وجود کو مشق ستم کا نشانہ بنایا، بلکہ اسلام کے فکری نظام کو بھی کئی التباسات اور مغالطوں سے دوچار کر دیا۔ اسلام دشمن مفکرین اور مصنفین کی مسلسل کوششوں سے جہاں مسلم ذہن اپنے مستقبل کے مستقلاً مخدوش رہنے کا قائل ہو گیا۔ وہاں دین کی مبادیات خصوصاً حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ سے تعلق کے حوالے سے بھی کئی غلط فہمیوں کا شکار ہوگیا‘‘(17طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد ، مقدمہ سیرت ، محولہ بالا ، ج ا ، ص 3) ۔
مستشرقین کی انہی کوششوں کے اثرات کے طور پر یا ردعمل میں، بر صغیر کے مسلم زعما میں ایک معروف معذرتی میلان پیدا ہوا، جو ہمارے سیرتی ادب کا حصہ ہے۔ اس کے سرخیل سر سید ہیں۔ شاہ علی نے ان پر تنقید بھی کی ہے اور ان کی تعریف بھی کی ہے۔ تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں سر سید اور ان کو پورا حلقہ مغربی تہذیب و ترقی پر ایمان بالغیب لا چکا تھا اور اس سے اس قدر مرعوب تھا کہ بات بات پر اس کا کلمہ پڑھتا تھا (18شاہ علی ،ڈاکٹر،اردو میں سوانح نگاری۔گلڈ پبلشنگ ہاؤس، کراچی،1961 ء، ص209۔)۔ سر سید ، شبلی ، حالی، شرر،سبھی مغرب سے متاثر تھے کوئی کم کوئی زیادہ (19ایضاً، ص 239)۔ حالی مجموعی طور پر مغربی طریقوں سے، شبلی کارلائل ، مکالے وغیرہ سے اور شر راسکاٹ سے متاثر تھے(20ایضاً،236) ، جبکہ سرسید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’سیر سید نے مغرب کے حملوں کا مقابلہ مغرب ہی کے ہتھیارو ں سے کیا۔ مغرب ہی سے خیالات کے سانچے لیے، ان ہی سے مغرب کے دلائل کا منہ پھیرا ۔جس کی بہترین مثال ایڈیسن اور اسٹیل کے ٹیٹلر اور سپکٹیٹر کے انداز پر تہذیب الاخلاق کا اجراء تھا۔ خطبات احمدیہ بھی اسی طریقے کی مظہر ہے۔ ان کے حلقے نے بھی کم و بیش یہی طریقہ اختیار کیا(21 ایضاً) ۔
سید عبداللہ کی رائے میں خود علامہ شبلی اہل مغرب کے اس الزام سے ، کہ مسلمانو ں نے نبیﷺ پاک کی ذات پر اساطیری رنگ چڑھا دیا ہے، مرعوب نظر آتے ہیں اور انہیں ایک عام بشر ثابت کرنا چاہتے ہیں (22محمد عبداللہ، سید ، ڈاکٹر ، سیر سید اور اُن کے رفقاء، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،2001 ء ،ص289)۔ اور شبلی پر اخلاق کے مروجہ تصور کا جو اثر ہے اسی کی بناء پر ہی انہوں نے واقعہ قتل کعب بن اشرف کو اخلاق کے موافق تسلیم کرنے پر پس و پیش کیا(23ندوی، شاہ معین الدین احمد،حیات سلیمان،دار المسنفین ، اعظم گڑھ،س۔ن، مکتوب شبلی۷ دسمبر۱۹۱۳،ص233) ۔ ڈاکٹر انور محمود خالد لکھتے ہیں :اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی حملوں کے جواب میں سر سید اور ان کے رفقاء (مثلاً مولوی چراغ علی اور حالی) وغیرہ کا رویہ مدافعانہ اور معذرت خواہا نہ تھا (24خالد،انورمحمود، ڈاکٹر،اردو نثر میں سیرت رسول۔اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،1979 ء ، ص ۳۸۳
مستشرقین کے خلاف بہت سا ردعمل بھی پیدا ہوا۔بہت سارے لوگوں نے ان کے نقطہ نظر کی تردید کے لئے کتب تحریر کیں ۔ خود ہمارے یہاں ہندوستان میں بعض کتب خالصتاً مستشرقین کے جواب میں تحریر کی گئیں ۔جن میں نمایا ں طور پر سر سید احمد خاں کی ’خطبات احمدیہ‘ امیر علی کی ’دی سپرٹ آف اسلام‘ حیرت دہلوی کی’ سیرت محمدیہ ‘ شامل ہیں۔اسی طرح مستشرقین نے جس طرح علمی اسلوب کو متاثر کیا ہے اور جو الزامات یا نکات سیرت اور سیرت نگاری پر اٹھائے ہیں۔ ان کے جواب میں درجنوں کتب لکھی گئیں ۔انور خالد لکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھی اسلام اور بانی اسلام کے دفاع میں نہ صرف مغربی مصنفین کی کتابوں کے تراجم کیے، بلکہ ہندوستان میں لکھی ہوئی ہر کتاب کا جواب بھی لکھا ۔چنانچہ بسا اوقات ایک ایک کتاب کی تردید میں کئی کئی مصنفین نے قلم اٹھا یا (25خالد، اردو نثر میں سیرت رسول، محوله بالا ،ص 377)۔ کچھ نے اُن ہی کی طرح کا استدلالی انداز اپنا کر کچھ نے اپنے قدیم روایتی انداز میں، مگر پس منظر میں اُن کے اعتراضات ضرور پیش نظر رہے۔ ڈاکٹر یوسف علی نے سید نواب کی کتاب سیرت رسول اللہ ﷺ کے پیش لفظ میں لکھا ہے:۔
’’یورپی مستشرقین ،اسلامی تاریخ کے عربی ماخذوں سے واقف ہو کر اسلام اور بانی اسلام پر نئے ہتھیاروں سے حملہ آور ہوئے ،تو اس پس منظر میں بر صغیر کی دواہم شخصیتیں ابھریں جنہوں نے سیرت کی نمایاں خدمت کی اور ملت اسلامیہ ہند کی طرف سے فرض کفایہ ادا کردیا۔ ایک شخصیت شبلی کی ہے اور دوسری پروفیسر نواب علی کی‘‘ (26نواب علی،پروفیسر، سید، سیرت رسول اللہ ،مکتبہ افکار، کراچی،( ط دوم۔۱۹۶۶) ، پیش لفظ از ڈاکٹر یوسف علی، ص8
الغرض مستشرقین کے اثرات نے کسی ایک رحجان نہیں بلکہ بہت سارے رحجانات و اسالیب کو متا ثر بھی کیا اور بہت سے نئے رحجانات بھی متعارف کروائے۔ کسی نے اُن سے متاثر ہو کر اپنے طرزتحریر کو بدلا ، کسی نے یورپی طریقہ استدلال کو سیرت میں برتنا شروع کیا۔ مستشرقین نے جغرافیہ کو سیرت کی بنیاد بنایا تو ہمارے علماء نے بھی جغرافیہ کا استعمال سیرت میں کیا(27نجیبہ عارف، ڈاکٹر،نو آبادیاتی عہد میں اردو سیرت نگاری:رجحانات و اسالیب۔مشمولہ مقالات بین الاقوامی سیمینار: دور جدید میں سیرت نگاری کے رجحانات(۶۲ تا ۸۲ مارچ ۱۱۰۲ء) ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد(غیر مطبوعہ)،ص363) ۔ انہوں نے ماخذوں کے استناد کی بحث شروع کی تو ہمارے یہاں بھی اس کا شعور، جو پہلے ہی موجود تھا، زیادہ نمایا ں ہو گیا۔ انہوں نے عرب کے ماحول کوایک تحریک کے لئے سازگار ثابت کیا تو ہمارے لوگوں نے بھی ماحول کے تجزیے کیے اور عرب کے ماحول کو واقعی کسی تحریک کا منتظر بنا دیا۔

ب ۔  پادریوں اور مشنریوں کا ردعمل

مستشرقین کے علاوہ پادریوں اور عیسائی مبلغوں نے بر صغیر پر قبضہ کے بع اپنی اسلام دشمن سرگرمیوں کا آغاز کیا اور اس خطہ کے لوگوں کو عیسائی بنانے کے منصوبہ کے تحت ، یہاں کے مذاہب پر حملہ آور ہوئے، ان کی ان کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نجیبہ عارف لکھتی ہیں:۔
’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے بر عظیم میں قدم جماتے ہی عیسائی مشنریوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔عیسائیوں کی تبلیغی سرگرمیاں، خود اپنے مذہب کی نشر واشاعت کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کی تنقیص پر مشتمل تھیں۔ چنانچہ اسلام بھی اس کی زد میں آیا اور دینِ اسلام کے رد کے لیے جو ہتھیار سب سے زیادہ استعمال کیا گیا ،وہ پیغمبر اسلام کی ذات پر رکیک حملوں اور آپ کی کردار کشی پر مشتمل تھا۔۔۔ مستشرقین اور عیسائی مشنریوں کی ہرزہ سرائیوں سے واقف ہوتے ہی، برعظیم پاک وہند میں انہیں ردکرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں اور اردو میں متعدد کتب اور رسالے تصنیف ہوئے ،جن میں عیسائی مشنریوں کے اعتراضات کے جواب دیے گئے۔ مثلاً پادری عماد الدین کی کتاب ’’تحقیق الایمان‘‘کے رد میں حالی کی’’تریاق مسموم ‘‘ ، مولوی چراغ علی کی ’’تعلیقات‘‘ اور مولانا محمد قاسم ناناتوی کی ’’آبِ حیات‘‘ معروف ہیں۔ ان کتب کا انداز مناظرانہ اور روایتی ہے(28 ایضاً،) ۔
محمد حسین ہیکل نے لکھا ہے کہ جاہل عیسائی علماء نے اپنی سر توڑ کوششوں سے مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنے کی بہت کوشش کی(29ہیکل ، محمد حسین، محولہ بالا، ص 19) ۔ مستشرقین کی اسلام یا سیرت مخالف تحریروں کے جواب میں جو سیرتی لٹریچر تیار ہوا ،اورجن محققین نے دلائل کے ساتھ مستشرقین کی کتب کے جواب لکھے۔ انہوں نے عام عیسائی نقطہ نظر اور پادریوں کی اسلام مخالف تحریروں کو بھی پیش نظر رکھا اور ان کے جواب دیئے۔ اُس کے علاوہ سیرت کی بہت سے کتب صرف مشنریوں اور پادریوں کے حملوں کے جواب میں لکھی گئیں ۔اگر کسی مشنری نے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف ایک کتاب لکھی تو وہ اُس کی تردید میں کئی کئی مصنفین نے بیک وقت کتابیں لکھیں(30خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا، ص 377) ۔ ولیم میور نے جو کتاب لکھی تھی، وہ بھی ایک پادری کے کہنے پر لکھی تھی(31خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا ، 414) ۔سیر سید احمد نے خطبات احمدیہ اُس کے جواب میں لکھی۔ اور شاہ علی نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک مشنری جذبے کی پیداوار ہے (32شاہ علی ،ڈاکٹر، محولہ بالا،ص 149)۔ علامہ سلمان منصور پوری کا متعدد دیگر کتب اور رحمت للعالمین لکھنے کا مقصد بھی یہ تھا کہ عیسائی مبلغوں کی تحریروں کا رد کیا جائے، اسی لیے الطاف فاطمہ نے اُنہیں سیرت نگار کی بجائے مناظر کہا ہے(33الطاف فاطمہ، اردو میں فن سوانح نگاری کا رتقاء،، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، 1961 ء، ص 203) ۔
پادری عمادالدین نے دین عیسوی کی حمایت میں چالیس کے قریب کتب لکھیں۔تحقیق الایمان، ہدایت المسلمین اور تاریخ محمدی وغیرہ کتب میں آپﷺ کی ذات اقدس پر ناپاک الزامات لگائے۔ یہ دیکھ کر مسلمانوں کی غیرت دینی جوش میں آئی اور تردید میں کئی کتب و رسائل لکھے ۔ پادری عماد الدین کے علاوہ بھی بہت سارے عیسائیوں نے اسلام اور بانی اسلام کی مخالفت میں کتب لکھیں مثلاً پادری جان ولسن نے ’’مسلمانی دین کا رویہ‘‘پادری جے ونسن نے ’’اصل افزائش و زوال دین محمدی‘‘ پادری اسمتھ نے رسالہ’’دین حق‘‘پادری ایل جے ایچ نے ’’ابطال دین محمدی بمقابلہ دین عیسوی‘‘ پادری رجب علی نے ’’آئینہ اسلام‘‘ پادری صفدر علی نے ’’مواعظ عقبیٰ ‘‘ پادری سی جی فنڈرنے ’’میزان الحق‘‘ لکھی۔ ۱۸۵۷ ؁ء کے بعد تو اس موضوع پر کتب کا سیلاب آگیا۔ عمادالدین کی کتاب کے رد میں حالی، مولوی چراغ علی، فیروز الدین ڈسکوی، محمد علی کانپوری، اکرام اللہ اکبر آبادی اور سید محمد بھرت پوری نے کتب لکھیں۔ ان تمام کتب کا ذکر قاموس الکتب اردو جلد اول رد مناظرہ نصاری میں موجود ہے(34قاموس الکتب اردو ، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی ، 1961، ص 800) ۔ ہندوستان میں عیسائی پادریوں کے مقابلے میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی، ڈاکٹر وزیر خان ، مولوی آل حسن اکبر آبادی، مولوی سید ناصرالدین ، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولوی منصور علی دہلوی، مولانارحم علی منگلوری، مولانا عنایت رسول چڑیا کوئی اور مولانا محمد علی مونگیری وغیرہ میدان میں نکلے اور انہوں نے اسلام اور بانی اسلام کے دفاع کا حق ادا کر دیا(35ندوی،سید سلیمان، حیات شبلی، دار المصنفین، اعظم گڑھ، 1943، ص 15) ۔
الغرض سیرت کا خارجی کلامی یا مناظرانہ ادب بہت پھیلاؤ و سعت اور تنوع رکھتا ہے جس نے کئی ذیلی رحجانوں کو جنم دیا۔

ت۔  مقابلے کی فضا

مختلف مذاہب کے عوام و خواص کے دوسرے مسالک و مذاہب کے لوگوں سے برسر مقابلہ رہنے کی جبلت بھی سیرت نگاری کے فروغ کا باعث اور رحجان ساز رہی ہے۔مثلاًسید سلیمان ندوی ،دیباچہ خطبات مدراس میں لکھتے ہیں:۔
’’مدراس میں کچھ برسوں سے ایک امریکی عیسائی کی فیاضی سے مدراس یونیورسٹی کے سامنے کوئی نہ کوئی ممتاز عیسائی فاضل حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات و سوانح اور مسیحی مذہب کے متعلق چند عالمانہ خطبے دیتا ہے۔ یہ خطبے سال بسال ہوتے ہیں اور نہایت دلچسپی سے سنے جاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مدارس کے چند مخلص تعلیمی کارفرما مسلمانوں کے دلوں میں بھی خیال آیا کہ یہاں کے انگریز ی مدارس کے مسلمان طالب علموں کے لیے بھی مسلمانوں کی طرف سے اس قسم کی کوشش کی جائے ۔یعنی سال بسال کسی مسلمان فاضل کی خدمات حاصل کئے جائیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام پر طلبائے انگریزی کے ذوق اور موجودہ رنگ کے خطبات دے سکے(36سلیمان ندوی، سید ، خطبات مدارس،اسلامک بک فاؤنڈیشن، لاہور، 1984، ص 12) ۔
چنانچہ اس سلسلہ میں پہلے خطبات سید سلیمان ندوی نے دیئے ،پھر علامہ محمد اقبال نے وہ خطبات دئے جو تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کے نام سے طبع ہوئے اور پھر پکتھال نے Cultural Side of Islam کے نام سے خطبات دئے (37غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، ص 674)۔ اب یہ سلسلہ خطبات بہاولپور اول(38محمدحمید اللہ، ڈاکٹر، خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، 2005ء۔) و خطبات بہاولپوردوم(39غازی، محمود احمد، ڈاکٹر، خطبات بہاولپور (۲)، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد) اور خطبات اسلام آباد(40صدیقی ،ڈاکٹر یسین مظہر کے خطبات منعقدہ ۲۵ تا ۲۹ مارچ 2013، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد،غیر مطبوعہ) تک پہنچ کر فرقہ ورانہ مقابلہ کی فضا سے آزاد اور خالص علمی سرگرمی کے طور پر فروغ پذیر ہے۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں مقابلہ کی فضانے اس رحجان کو جنم دیا تھا۔ پاکستان میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر مقابلے کی فضا کے مابعد اثرات موجود ہونے کی وجہ سے کہیں میلاد کے نام سے تو کہیں سیرت کانفرنس یا کسی دوسرے نام سے سیرت طیبہ کے جلسے اور خطبات و تقاریر کا اہتمام ہوتا رہتا ہے۔

ث ۔  عقائد کے اظہار کا وسیلہ/مناظراتی ذوق

سیرت نگاری کو دوسرے اسلامی ماخذوں (قرآن اور حدیث) کی طرح اپنے مخصوص تصورات وعقائد کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کا ذوق اور انسانی عادت بھی سیرت نگاری کے رحجانات کے پیدا ہونے کا سبب ہے۔ مسلمانو ں کے آپس میں فرقہ ورانہ مباحث میں سیرت کا حوالہ کثرت سے دیا گیااور سیرت کے مختلف پہلوؤں کو مختلف مسلمان مسلکوں اور مکاتب فکر نے اپنی اپنی تائید اور مسلک کے نقطہ نظر کی حمایت میں پیش کیا۔ اس طرح سیرت کا ایک داخلی مناظراتی یا داخلی کلامی ادب بھی پیدا ہوا(41غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر ، ص 650) ۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں آنحضرتﷺ کی سوانح حیات پر کتابوں کی کہکشاں نظر آتی ہے۔ مختلف فقہی مسالک اور عقائد و نظریات کے مصنفین نے اپنے اپنے دینی خیالات کے اظہار کے لئے کتب سیرت رسول ﷺ کو زینہ بنایا۔ دیوبندی، بریلوی، سنی، شیعہ، اہل حدیث اور اہل قرآن حضرات نے خاصی تعداد میں کتابیں لکھیں۔ اور آنحضرت ﷺ کے سوانحی واقعات کے ضمن میں انہیں جہاں کہیں موقع ملا ،انہوں نے اپنے مخصوص مذہبی نقطہ نظر کا اظہار کرنے سے دریغ نہیں کیا (42خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا، ص 601)۔ مثال کے طور پر رسول کریم ﷺ فی قرآن عظم از پیر زادہ شمس الدین کے بارے میں خالد انور نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بین السطور ان کے احمدی عقائد جھلکتے ہیں(43ایضاً، ص 713) ۔ سوانح عمری حضرت رسول مقبول ﷺ از نور حسین صابر جھنگ کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ مصنف نے شیعہ نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ علامہ نوربخش توکلی کی سیرت میں بریلوی طبقہ فکر کے مخصوص تصورات چھائے ہوئے ہیں(44توکلی، نور بخش ، علامہ، سیرت رسول عربیؐ، تاج کمپنی لمیٹڈ، لاہور، س۔ن) ۔ الرحیق المختوم اگرچہ ایک متوازن کتاب سیرت ہے تاہم ادیان عرب کے بیان میں بار بار بدعات کا لفظ اور مسلسل بیانیہ مخصوص عقائد کے ابلاغ کی علامت ہے۔ تقابل مطالعہ سے درجنوں کتب میں مخصوص مسلکی اصولوں اور تصورات کی کارفرمائی کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

ج ۔  شخصی اثرات

بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی تحریریں ایک زمانے کو متاثر کرتی ہیں اور وہ جس رحجان کی بناء رکھیں،وہ رحجان مقبول ہو جاتا ہے۔ ان میں ایک شخصیت سر سید احمد خان کی ہے۔ سر سید نے علمی و ادبی دنیا میں مختلف رحجانات متعارف کروائے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے سیرت کے اصول و مبادی پر نظر کو سر سید کی اولیات میں شمار کیا ہے اور ان کے بقول خطبات احمدیہ لکھ کر سر سید نے جن رحجانات کی بناء رکھی یا ان کو ترقی دی وہ یہ ہیں۔ ۱۔ سیرت کے ماخذ کی تحقیق اور چھان بین۔۲۔ تحقیق علمی میں مغربی مصنفوں کی کتب سے فائدہ اٹھانا۔ ۳۔ انجیل وغیرہ سے قرآن کی صداقت کے ثبوت پیش کرنا۔ ۴۔ عرب کے جغرافیائی حالات اور نسلی معلومات کی تحقیق۔ ۵۔ اسلام کی تمدنی حیثیت کا مطالعہ(45عبداللہ، سید، ڈاکٹر، محولہ بالا ، 28) ۔
خود سر سید کا اپنا میلان مغرب سے مرعوبیت کا تھا۔ اور وہ ہر اس بات سے انکار کر دیتے یا تاویل سے کام لیتے، جو یورپ کے نظریہ عقلیت ، نظریہ فطرت، نظریہ تہذیب و تمدن اور نظریہ ارتقاء کے خلاف ہو(46خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص 140) ۔ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ شبلی نے کتاب سیرت میں آپﷺ کو ایک بشر نبی اور ایک عقل مند نبی تصور کیا ہے اور یہ بشریت و معقو لیت کا رحجان بھی شبلی سمیت دبستان سر سید کا مشترک رحجان ہے(47عبداللہ، سید، ڈاکٹر، محولہ بالا ، ص 28) ۔ صبرشاہ جہاں پوری کی ’’آفتاب نبوت ‘‘(48صبر شاہجہان پوری، آفتاب نبوت، رحمان برادرز تاجران کتب ، کراچی، بحوالہ اردو نثر میں سیرت رسول ، ص 453) پر تبصرہ کرتے ہوئے سید شمیم احمد نے لکھا ہے کہ قدیم اصطلاحوں کے لئے جدید الفاظ کا استعمال اور آنحضرتﷺ کی صداقت کے لیے غیر مسلموں کی شہادت پیش کرنا سر سید کے براہ راست اثرات کا نتیجہ ہے(49شمیم احمد، سید، ادب نبوی، سیرت پاک:’’ماہ نو کی خصوصی اشاعتوں کا انتخاب‘‘ ، ادارہ مطبوعات پاکستان،کراچی، 1966 ء،ص 90) ۔ڈاکٹر شاہ علی نے سرسید کے ہمہ گیر اثرات کے بارے میں درج ذیل نکات پیش کیے ہیں:
1. اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سر سید فن و تنقید و سیرت کے اماموں میں سے ہیں اور آج بھی ان کی بلند پروازی کے آگے مصلحت اندیشی پر جلتے ہیں(50شاہ علی ،ڈاکٹر، محولہ بالا، ص146) ۔
2. مسلم سیاست کی طرح اردو ادب کی نشاۃ ثانیہ بھی سر سید کی مرہون منت ہے اور بہت سی اصناف میں حقیقی معنی میں اولیت کا سہرا ان کے سر ہے۔ ان کے بغیر حالی، شبلی ، اقبال ، ابو الکلام وغیرہ وہ نہ ہو تے جو ہوئے(51 ایضاً) ۔
3. یوں تو اردوکی ہرصنف ادب سر سید کی زیر قیادت مغربی ادب سے متاثر ہوئی ہے۔ لیکن بعض اصناف مثلاً مضمون نگاری ، سوانح نگاری ، تاریخ وغیرہ کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ یہ خاص طور پر اس کے مرہون منت ہے(52ایضاً، ص 209) ۔
4. عبد الحلیم شرر اپنے فکر میں سر سید اور علامہ شبلی دونوں سے متاثر تھے ، لیکن سر سید سے زیادہ ،شبلی سے کم (53ایضاً ،ص 239
سرسید نے جس طرح اپنے وقت کے علماء کو متاثر کیا ، اس پر تبصره كرتے انور محمود خالد لکھتے ہیں کہ پرو فیسر سید نواب(54پروفیسر سید نواب علی 1877 ميں لکھنو میں پیدا ہوئے ، بڑودہ کالج گجرات میں پروفیسر رہے اور مولانا محمد علی جوہر کے ساتھی تھے۔ اسلامیات اور اسرائیلیات کے ماہر عالم تھے، ہجرت کے بعد کراچی یونیورسٹی سے وابستہ رہے، 1961ء میں وفات پائی، متعدد تحقیقی کتب کے مؤلف تھے۔ مستشرقين كے اعتراضات كے جواب ميں تحقيقي كتاب سيرت رسول االله ﷺ ،اور سیرت پر دو اور کتب “تذکرۃ المصطفی” اور “ہمارے نبی ” بھی تالیف کیں۔) پر (شبلی کے برعکس) سر سید کے مذہبی افکار کا گہرا اثر ہے، ان کا غالب رویہ عقلیت پسندی کا ہے، اس لیے کسی معجزے کا ذکر نہیں کیا (55خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا، ص 625)۔ ابو الکلام آزاد کے بارے میں عزیز احمد نے لکھا ہے کہ انہوں نے روایت پسندی اور جدیدیت کا امتزاج پیش کیا اور یہ عنصر بلاشبہ سرسید احمد خاں ہی کے اثر کا مظہر تھا ،جس سے انہوں نے شدت سے اختلاف کیا تھا(56عزیز احمد ،پروفیسر،بر صغیر میں اسلامی جدیدیت،(ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی) ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 2006 ، ص 255 ، بحوالہ ٓAbul Kalam Azad, India Wins Freedom, Orient Longman, New Dehli, 1988.P 75) ۔ عزیز احمد نے سید امیر علی اور ان کے کلکتوی مسلک کی اٹھان کو علی گڑھ سے آزاد لکھاہے۔ لیکن ان کے خیال میں یہ ۱۹۷۰ء کے عشرہ میں بلاشبہ سر سید سے متاثر ہو چکا تھااور خود امیر علی مغربی اہل الرائے سے اسلام کی عذر خواہیوں اور توضیحات میں اور اسلامی معاشرتی اور مذہبی خیالات کی ڈھانچہ کی از سر نو تعمیر اور جدید خیالات کی ترویج میں سر سید احمد خاں کے پیرو تھے(57ایضاً، ص 132 ، بحوالہ حیات جاوید از حالی ، ص 143) ۔عہد نامہ قدیم و جدید کے متعلق پرویز کا انداز سید احمد خاں کی روایت کے مطابق ہے(58ایضاً، ص 133) ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے مستشرقین کے اعتراضات کے پیش نظر مغربی طرز استدلال اور اسلوب تحقیق سے کام لے کر ان کا جواب دینے کو سر سید کی طرف منسوب کر کے دبستان سر سید کہاہے (59غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، ص 664)۔ اس سے سر سید کے سیرت نگاری پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
مغربی اعتراضات کے سلسلہ میں معذرت کا انداز اختیار کرنا اور معجزات، جہاد، کثرت ازدواج، واقعہ بنو قریظہ، حضرت ز ینبؓ سے شادی، غلامی کو یکسر ختم نہ کرنا، جنوں اور فرشتوں کی حقیقت ، اور معراج کے سفر جیسے واقعات پر مستشرقین کے اعتراضات اور اتہامات سے مرعوب ہو کر ان کا سرے سے انکاری ہو جانا یا دوراز کار تاویلات کا شکار ہو جانا ایک ایسا رحجان ہے جسے ’اعتذار‘کا نام دیا جاتا ہے اور سید ابوالخیر کشفی لکھتے ہیں کہ ’’سر سید کی نیک نیتی اور عشق رسولﷺ میں ہمیں مطلق شبہ نہیں لیکن خطبات احمدیہ سے اس سلسلہ کا آغاز ہوتا ہے جسے ہم ’اعتزاری ادب‘ کہتے ہیں‘‘(60کشفی ، ابو الخیر ،اردو میں سیرت نگاری ، مشمولہ نقش سیرت ، مرتبہ نثار احمد ، ادارہ نقش تحریر کراچی، 1968ء ، ص 68) ۔
سطور بالا میں مختلف اقتباسات پر ثابت کرتے ہیں کہ سر سید کے اثرات ہمارے ادب پر سیرت کے باب میں ہمہ جہت اور کافی گہرے ہیں۔ انہوں نے بلا شبہ بہت سارے افراد ، جماعتوں ، رحجانات اور تصورات کو مثبت یا منفی انداز میں متاثر کیا ہے۔ سر سید کے علاوہ دیگر شخصیات نے بھی بر صغیر کے لوگوں کو متاثر کیا جن میں جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی موددی بھی شامل ہیں ، جنہوں نے تعلیم یافتہ طبقہ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور انہیں کے زیر اثر ،بہت سارے مصنفین نے سیرت کو ایک خاص تحریکی انداز میں پیش کیا ۔دوسری طرف عالم عرب میں مفتی محمد عبدہ ، سید قطب شہید اور امام حسن البناء نے مغربی استعمار کے خلاف، علماء کی کثیر تعداد اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی جمعیتوں کو مغربی استعمار کے خلاف تیار کیا اور تقریباً ہندوستان کی تحریکی سیرت نگاری کے مماثل ،سیرت کا لٹریچر عالم عرب میں بھی وجود میں آیا۔ مصری ہی کے ایک اور ادیب طہ حسین جو مغرب اور اسکی تہذیب سے شدید متاثر تھے، نے بھی سیرت پر کتب لکھیں(61ایضاً، ص 107) ۔ اور پھر اُن کی تحریروں نے عرب کے نوجوان نسل پر گہرے اثر مرتسم کیے(62علی ندوی ،ابو الحسن ، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش ، مجلس نشریات اسلام، کراچی 1982ء، ص 153) اور طہ حسین کے جاری کردہ سیرتی رحجان کو بھی مقبولیت ملی۔

ح ۔  عقلیت کا پرچار

سیرت نگاری کے روایتی انداز میں نبی پاکﷺ کے شمائل، معجزات، اور عام واقعات سیرت کا ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن دور جدید میں مغربی علوم و افکار سے واقفیت کی بناء پر اور کچھ مستشرقین اور معاندین کے حملوں سے مرعوب ہو کر اور قدرے اپنی کوتاہی سے واقف ہو کر، سیرت نگاری میں عقلیت کو داخل کیا گیا اور سیرت کے واقعات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا جانے لگا ،یہاں تک کہ بعض حضرات ہر اُس واقعہ کا انکار کر دیتے جو ان کے خیال میں عقل کے مطابق نہیں ہوتاتھا ۔ان کے سر خیل سر سید احمد خان ہیں(63ایضاً، ص 528) ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نجیبہ عارف رقمطراز ہیں: ۔
’’سب سے نمایاں رجحان جس کا تعلق اسلوب یا پیرایۂ بیان سے نہیں بلکہ طرزِ فکر و استدلال سے ہے اور جو نو آبادیاتی دور میں جدت پسندی کی سب سے بڑی پہچان قرار دیا جاتا ہے، حیات نبیﷺ کے مختلف پہلوؤں کوعام انسانوں کے عقلی معیار پر جانچنے اور پیغمبر ؐ کے ہر قول و فعل کا عقلی جواز پیش کرنے کا رویہ ہے۔۔یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے تحت اس طرزِ فکر کو خوب فروغ حاصل ہوا ،جس کے نتیجے میں مذہب کو مغربی نظامِ معاشرت سے منہا کر دیا گیا اور اس کی جگہ ایک ایسا مدنی نظام تشکیل دیا گیا ،جو دنیاوی اخلاق اور مفادات کا قائل اور محافظ تھا۔ خیر و شر کا تصور خدا کے احکامات اور منشا کی بجائے عقلی و دنیاوی مصلحتوں پر قائم ہوا ۔۔۔ بر عظیم پاک و ہند میں اس طرز فکر کے اثرات ۱۸۵۷ ؁ء کے بعد نو آبادیاتی عہد کی ابتدا ہی میں نمایاں ہونے لگے تھے(64نجیبہ عارف، ڈاکٹر، محولہ بالا،ص 364۔ 368) ۔
سید نواب بھی اسی گروہ سے ہیں ،جو عقلیت پسندی میں معجزات کا ذکر نہیں کرتے اور بعض مسلمات سے بھی منکر ہیں(65خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص 622) ۔ شبلی بھی عقلیت کے حامی ہیں تاہم شبلی کی عقلیت ،دور متوسط کی عقلیت ہے،جو رازی، غزالی اور ابن رشد کی عقلیت ہے(66عزیز احمد ،پروفیسر، محولہ بالا، ۱۶۵، بحوالہ شبلی نعمانی خطبہ لکھنو اپریل 1892ء) ۔ محسن الملک نے ندوۃالعلماء والوں کو نئی عقلیات کی روشنی میں مذہب کی نئی توضیح و تفسیر کی دعوت بھی دی تھی (67ایضاً،167، بحوالہ تہذیب الاخلاق (1)318-304)۔ ڈاکٹرشاہ علی بھی عقلیت کے طرفدار ہیں اور انہوں نے مذہب کے زمانہ کو سوانح نگاری کے لیے ناموزوں اور عقلیت یا تشکیک کے زمانہ کو سوانح نگاری کے لیے موزوں قرار دیا ہے(68شاہ علی ، ڈاکٹر، محولہ بالا،ص213) ۔ جبکہ طہ حسین عقلیت کا پرچار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’اس صدی کے شروع میں ہی مصری لوگوں کی حیات عقلیہ کافی آگے بڑھتی جا رہی تھی ،کیونکہ مصر کی حیات عقلیہ کا یورپ کی حیات عقلیہ کے ساتھ لگاؤ دن بدن اور مستحکم ہوتا جارہا تھا۔ ان حالات میں اساتذہ ادب نے کوشش کی کہ لوگوں کی عقول اور اپنے ادب میں ہم آہنگی پیدا کریں اور تجدید و اصلاح کی کوشش کی‘‘(69احمد امین ، فجرالاسلام ، (مترجم عمر احمد عثمان) ،دوست ایسوسی ایٹس ناشران کتب،لاہور،2003، مقدمہ ازطہ حسین ،ص 12) ۔

خ ۔  عقلیت کے خلاف ردعمل

جہاں عقلیت کا پرچار کرنے والے اور اس کی رو سے قرآن و حدیث اور سیرت کی تعبیر و تشریح کرنے والے لوگ پیدا ہوئے ،وہاں ایک طرف روایت پسند میدان میں آئے تو دوسری طرف کچھ عقل پسند بھی ایسے پیدا ہوئے ،جو حد سے زیادہ بڑھی عقلیت کے خلاف تھے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی سيرت نگاري ميں عقل اور جذبات میں توازن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’ ’’سیرت میں عقل و جذبات کی بیک وقت اور شانہ بشانہ جلوہ گری اور کارفرمائی ہونی چاہیے ۔ جذباتی و ایمانی عنصر عقل سلیم کے تقاضوں پر غالب نہ آجائے جن کی اہمیت عصر حاضر نے خاص طور پر بڑھا دی ہے۔۔۔۔۔ایسا نہ ہو کہ عالمانہ بحث اور معروضی نقدو جائز ہ ،جذبہ محبت اور ذوق و شوق کی کیفیت کو سرد و افسردہ کر دے ۔جو سیرت کے جمال جہاں آراء سے لطف اندوز ہونے اور اپنے دیدہ و دل کو اس سے روشن اور منور کرنے کی ایک ناگزیر ضرورت اور اس سے صحیح و کامل استفادہ اور اس کے مسائل اوراحکام و واقعات کو صحیح طور پر سمجھنے اور صحیح نتائج تک پہنچنے کی لازمی شرط ہے۔ اگرسیرت کی کوئی کتاب اس جذباتی اورا یمانی عنصر سے خالی ہے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ چوب خشک کا مصنوعی ڈھانچہ ہے (70علی ندوی ،ابوالحسن ، نبی رحمت، محولہ بالا، ج1ص12
در اصل عقلیت کے خلاف دو طرح کا رد عمل آیا ایک تو اُس جماعت کی طرف سے جو اپنے آپ کو علوم اسلامیہ کی پاسبان سمجھتی ہے۔ ان میں وہ اہل حدیث شامل ہیں، جو کلاسیکی مجموعوں میں موجود احادیث کہ ہی تسلیم کرتے ہیں اور علی گڑھ کی تشکیک پسندی کو مسترد کرتے ہیں ۔انہیں عزیز احمد نو روایت پسندکہتے ہیں (71عزیز احمد ،پروفیسر، محولہ بالا، ص 170)۔ سر سید کی تحریک علی گڑھ کے خلاف مضبوط ردعمل علماء دیوبند نے پیش کیا، جنہوں نے کھل کر سیر سید اور ان کے ہم خیالوں کی عذر خواہیوں اور تاویلات پر تنقید کی اور علی گڑھ کے برعکس ہر میدان زندگی میں انگریزی مہارت کو ماننے سے انکاری ہوئے ۔ بقول شاہ علی یہ علماء کا گروہ تھا ،جو سر سید کے برعکس مغربی تہذیب و ترقی کی عظمت کو ماننے کو تیار نہ تھا(72شاہ علی ،ڈاکٹر، محولہ بالا، ، ص 236) ۔ ان کے خیال میں علی گڑھ اپنے طلبہ میں عیسائی ثقافت کی ترویج اور ملحدانہ تشکیک پھیلانے کا ذمہ دار تھی اور جہاد کے سلسلہ میں بھی مولانا محمود الحسن کا رویہ علی گڑھ کے برعکس کلاسیکی اور غیر معذرتی تھا(73عزیز احمد ،پروفیسر، محولہ بالا، ص 163 ، بحوالہ نقش حیات از مدنی ، ص 221۔ 257) ۔ مولانا آزاد نے بھی علی گڑھ سے شدید اختلاف کیا (74ایضاً، ص ۲۵۵ بحوالہ انڈیا ونز فریڈم ، ص 71)۔ سر سید تحریک کے اہم رہ نما علامہ شبلی کو بھی مولانا ادریس کاندہلوی اور مولانا دانا پوری کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا اور شبلی نے اپنے مقدمہ سیرت میں جو عقلیت پر پرچار کیااور درایت کو عقل کے ہم معنی کہا تو داناپوری نے اس کی تردید کی اور درایت کو علم اور تجربہ کے بعد حاصل شدہ ملکہ قرار دیا (75داناپوری، عبد الرؤف،مولانا، مقدمہ اصح السیر فی ہدی خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم،ص 20)۔ دوسرا ردعمل ان لوگوں کی طرف سے آیا جو عقل کے سیرت میں استعمال کے بنیادی طور پر خلاف نہ تھے، تاہم حد سے بڑھتی ہوئی عقلیت اُنہیں کھٹکتی تھی۔ وہ عقل کی تحدید کرنا اور عقل و عشق کے درمیان توازن لانا چاہتے تھے۔ خود شبلی نے بھی علی گڑھ تحریک کی اطاعت شعاری (لائلزم) اور انتہاء پسند جدید یت سے برگشتہ ہو کر بغاوت کردی(76عزیز احمد ،پروفیسر، محولہ بالا، ، ص 254) ۔ اور ندوۃالعلماء کی بناء رکھ کر رازی و غزالی کی طرز پر مابعد الطبیعاتی استدلال اور نئے علم کلام سے دین کے دفاع کی ٹھانی(77 ایضاً، 165 بحوالہ شبلی نعمانی، خطبہ لکھنؤ،۱۲ اپریل ۔ 1895)۔۱۹۲۰ ؁ء میں ندوہ کے علماء نے سید احمد خان کی تاویلی عقلیت پسندی اور علی گڑھ کے جدید پسندوں کے خلاف براہ راست تردیدی انداز اختیار کر لیا(78ایضاً، ص 167) ۔ اسکے علاوہ سیر سید کے اہم ساتھی ،نواب محسن الملک کو بھی زیادہ عقلیت کی تحدید منظور تھی اور وہ نبوت، ملائکہ اور شیاطین وغیرہ کو عقلیت کے پیمانوں سے مستثنیٰ قرار دینے کے حق میں تھے(79ایضاً، ص 107) ۔
الغرض عقلیت کے خلاف ردعمل نے سیرت نگاری میں نئی جہتوں کو اضافہ کیا ور علم سیرت کو توازن عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

د ۔  روایتی سیرت نگاری کے خلاف رد عمل

سیر ت کی ایک مقبول عام صنف میلاد نامہ بارہویں عیسوی کے بعد مقبول تر ہوتی گئی (80این مری شمل۔جبریل ونگ، ای۔جے برل ، لیڈن، ص 150)۔ مجالس مولود اور ان میں پڑھے جانے والے میلاد نامے، تقریباً ہر ملک میں متد اول تھے۔ اردو میں بھی اس صنف نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور عوام الناس کا تعلق ذات نبویﷺ سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔نیم خواندہ عوام میں حضوراکرمﷺ کی ولادت ، حسب نسب، خاندان، بعثت ، ہجرت، معجزات، مبشرات اور اخلاق و کردار کے متعلق معلومات عام کیں (81خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص 287)۔ لیکن ان کی خامی یہ ہے کہ ان میں وضعی روایات کی بھر مار ہے۔ اس خامی کو دور کرنے کیلئے سر سید احمد خاں اور حالی نے وقت کی ضرورت سمجھا کہ ایسی مختصر کتابیں جو ثابت شدہ روایات پر مبنی ہوں، ان میلاد ناموں کی جگہ متعارف کروائی جائیں۔ سر سید نے ’’جلاء القلوب بذکر المحبوب‘‘ اور حالی نے’’ میلاد شریف ‘‘اور بعد ازاں راشد الخیری نے ’آمنہ کا لال‘‘ اور سیماب اکبر آبادی نے ’زنانہ میلاد‘ لکھا(82کشفی ، ابوالخیر، محولہ بالا، ص 72) ۔ خود سر سید کا میلاد نامہ بھی روایتی میلاد ناموں کے منہج و اسلوب اور وضعی روایات کے خلاف ایک ردعمل کے طور پر لکھا گیا تھا، جیسا کہ سر سید نے جلاء القلوب پر اپنے ایک ریویو میں اس کا ذکر کیا ہے (83سر سید، مقالات سر سید (مرتب: مولانا محمد اسمعیل پانی پتی) ، مقاله :جلاء القلوب پر ریویو، مجلس ترقي ادب ، لاهور، ط: دوم، 1991، ص 31)۔ بعد ازاں سر سید احمد اور ان کے مکتبہ فکر کے تمام علماء نے اس صنف کو ترک کر دیا اور تحقیقی کتب لکھنے کی طرح ڈالی جو اس صنف کے خلاف ایک رد عمل کا درجہ رکھتی ہیں۔اس حقیقت کی طرف اشارہ حیرت دہلوی نے یوں کیا ہے:۔
’’میں نے اپنے دور کے دوسرے لکھنے والوں کی تقلید میں مناقب سے صداقت کی طرف قدم بڑھایا ہے ۔۔۔ اب زمانہ آگیا ہے کہ ہم اپنے سچے نجات دہندہ کی آنکھ، بھنوؤں، کی تعریف کو بالائے طاق رکھیں اور اُس کی سچی تاریخی صفات سے بحث کر کے جبراً اس کی حقیقت عالم پر ثابت کریں‘(84دہلوی، مرزاحیرت، سیرت محمدیہ ، کرزن پریس، دہلی، 1895ء ، ص 10) ۔

ذ ۔  فوق البشر تصور کا ردعمل:

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیرت کے عنوان میں ایسی روایات جمع ہوتی گئیں،جن میں مبالغہ کی حد تک شان نبوت بیان ہوئی تھی۔ یہ نبوت کے تصور کو مقام الوہیت کی طرف لے جانے کی جاہلانہ کی روش تھی(85خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا، ص 583)، جس کے خلاف ردعمل آنا ضروری تھا۔ یہ رد عمل سیرت کے میدان میں پچھلی صدی کا غالب رحجان رہا ہے کہ آنحضور ﷺ کو بشر کے طور پر پیش کیا جائے، معقولیت کے ساتھ ساتھ بشریت کو بھی دبستان سر سید کا مشترک رحجان قرار دیا گیا ہے(86سید عبداللہ، ڈاکٹر ، سر سید اور ان کے نامور رفقاء ، ص 140) ۔
ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں:۔
’’قابل عمل اور عام بشری فکرو عمل کی گرفت میں آنے والے پہلوؤں کو چھوڑ کر جب معجزاتی اور کراماتی پہلوؤں پر زور دیا جاتا ہے ،تو فطرت انسانی پر اساطیری رنگ اور دیو مالائی تصورات مسلط ہو جاتے ہیں‘‘ (87صدیقی،یسین مظہر، ڈاکٹر،سیرت نگاری کا صحیح منھج،مشمولہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ، اکتوبر۔دسمبر2001ء ، ص 21
نعیم صدیقی لکھتے ہیں:۔
’’سیرت نبویﷺ کو اگر تم معجزہ بنادوگے اور اگر اسے فوق الانسانی کارنامے کا رنگ دے دوگے ،تو پھر مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کے لئے اس میں نمونہ کیا رہے گا۔۔۔ وقت ہے کہ آپ لوگ محمدﷺ کو ایک تاریخ ساز، ایک محسن انسانیت، ایک قائد تمدن اور ایک انسان اعظم کی حیثیت سے جانیں‘‘(88نعیم صدیقی ،محسن انسانیتﷺ،الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور(بیالیسواں ایڈیشن 2010)، ص 181۔) ۔
محمود شیث خطاب لکھتے ہیں۔
’’یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہمارے بعض مورخین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی فتوحات اگر تمام نہیں تو بڑی حد تک خوارق و معجزات کا نتیجہ تھیں۔ انہوں نے ’پورا زور آپ ﷺ کے’ خوارق و معجزات‘ پر لگایا ہے حیرت انگیزبات ہے کہ ان چیزوں کو رسول اللہ ﷺ پر ایمان کے مظاہر میں شمار کرتے ہیں۔ اگر امر واقعہ یہ ہے تو سالار عسکر کی حیثیت سے آپﷺ کی قدرو قیمت میں فرق آجاتا ہے‘‘(89خطاب، محمود شیث، الرسول القائدﷺ،مکتبۃ النہضۃ، بغداد، 1960، ص 6) ۔
خالد علوی لکھتے ہیں:۔
’’آپﷺ کی ذات انسانی زندگی کے لیے ایک مکمل نمونہ ہے ،لیکن اسے موثر طور پر پیش کرنے کے لیے ہماری کوششیں ہمہ پہلو ثابت نہیں ہوئیں۔ بلا شبہ آپﷺ کی سیرت پر بیش بہا کام ہوا ہے۔ لیکن اس نقطہ نظر سے سیرت نگاری کی طرف کم توجہ دی جار ہی ہے‘‘(90علوی،ڈاکٹر خالد،انسان کاملﷺ ۔الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور( ساتواں ایڈیشن، 2011)، ص24) ۔
غرض فوق البشر تصور کے رد عمل نے آنحضورﷺ کو مختلف حیثیتوں میں دیکھنے اور پیش کرنے کا چلن پیدا کیا۔ اس سلسلہ میں عبدالکریم الجیلی کی کتاب’’ الانسان الکامل‘‘ ، خالد علوی کی’’ انسان کامل‘‘ اور حکم سعید کے مجموعہ سیرت ’’تذکار محمدؐ‘‘ کا نام شامل ہے ،جس میں آنحضور ﷺکو ہر حیثیت ميں یعنی بطور معلم، حاکم، ، قاضی وغیرہ میں پیش کیاگیا ہے۔

ر ۔  مستند ماخذوں پر انحصار

ماخذ اور روایت کے استناد پر محدثین کا روز اول سے ہی اصرار رہا ہے اور چونکہ اکثر سیرت نگارمحدثین ہی ہیں(91شبلی نعماني و سليمان ندوي، سيرت النبیﷺ، ص 20) جس کی وجہ سے روایتوں کی تنقیح کا فرض قرون اولی میں ادا کیا جاتا رہا ۔مگربعد میں علم سیرت کے الگ طور پر مدون ہونے کے بعد ، دونوں علوم کے جوہری فرق،زیادہ مواد اکٹھا کرنے کی خواہش اور قدرے متنوع بیرونی عوامل و رجحانات کی وجہ سے کمزور روایات کی کافی تعداد سیرت میں داخل ہو گئی۔ سر سید اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ فن سیرت کی تمام کتابیں، کیا قدیم، کیا جدیدمثل ایک غلہ کے انبار کے ہیں ،جس میں سے کنکر پتھر کوڑا کرکٹ کچھ چنا نہیں گیا اور ان میں تمام صحیح و موضوع ، جھوٹی اور سچی، ضعیف ، قوی، مشکوک و مشتبہ روایتیں ، مخلوط اور گڈ مڈ ہیں‘‘(92سرسید‘ احمد خان‘ الخطبات الاحمدیۃ فی العرب والسیرۃ المحمدیۃ‘ نفیس اکیڈمی کراچی‘ ط اول 1964، ص 25۔ 26۔) ۔ عصر حاضر میں ماخذ کے استناد کی ضرورت و اہمیت کو بحیثیت مجموعی سبھی علماء نے تسلیم کیا۔ اس سلسلے میں مبشر حسین لکھتے ہیں:۔
’’دور جدید میں جب مستشرقین نے اسلام اور پیغمبر اسلام کو ہدف بنا کر اپنی علمی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور مسلمانوں کے مآخذ و مصادر ہی سے ایسا لٹریچر تیار کرنا شروع کیا ،جس سے خود بعض مسلمان بھی شکوک و شبہات کا شکار ہونے لگے تو سیرت نگاروں کے اس احساس میں اضافہ ہوا کہ سیرت پر جو کچھ لکھا جائے وہ انتہائی مستند ہونا چاہیے، تاکہ سیرت کے مآخذ میں موجود غیر مستند مواد کی بنیاد پر جو اعتراضات قائم ہوتے ہیں، ان کی بنیاد خود ہی ختم ہو جائے۔ اس احساس کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں نے صرف قرآن کی روشنی میں سیرت مرتب کرنے کی کوشش کی۔ بعض اہل علم نے قرآن کے ساتھ صرف صحیح احادیث کے دائرہ میں رہتے ہوئے سیرت پر کتابیں لکھیں۔ بعض اہل علم نے سیرت پر موجود تمام دستیاب مواد میں سے اخذ و انتخاب کا بیڑہ اٹھایا۔ گویا یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس حد تک تو علمی حلقوں میں خاصا اتفاق رائے دکھائی دیتا ہے کہ سیرت سے متعلقہ مواد نہایت مستند ہو مگر اس مستند مواد کے مآخذ و مصادر کیا ہوں اور ان مصادر سے اس کا اخذ و انتخاب کن اصولوں کی بنیاد پر ہو‘ اس سلسلہ میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے‘‘ (93مبشر حسین ،سیرت نگاری میں صحت و اِستناد کی بحث:دور جدید کی چند نمائندہ کتب کی روشنی میں ایک تنقیدی مطالعہ ۔ مشمولہ مقالات بین الاقوامی سیمینار: دور جدید میں سیرت نگاری کے رجحانات(26 تا 28 مارچ 2011) ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد(غیر مطبوعہ)ِ ص 42
مبشر حسین مزید لکھتے ہیں:۔
’’سیرتی مواد (ادب) میں بہت کچھ رطب و یابس بھی ہمیشہ موجود رہا۔ اس رطب و یابس اور صحیح و ضعیف مواد میں سے محض صحیح مواد کو الگ کر کے سیرت مرتب کرنے کا رجحان پھر بھی برابر اہل علم کے ہاں کسی نہ کسی درجہ میں جاری رہا‘ خاص کرامام ابن کثیر‘ حافظ ابن حجر‘ حافظ ابن قیم وغیرہ کی کاوشیں اس سلسلہ میں بطور مثال پیش کی جا سکتی ہیں‘‘(94مبشر حسین، محولہ بالا، ص 43) ۔
اس سلسلے میں و اقدی کے خلاف امام ابن حنبل ، ابن اسحق کے خلاف امام مالک اور بعد کے سیرت نگاروں پر علامہ ابن تیمیہ اور دور جدید میں نجد سے علامہ عبدالوہاب اور ہمارے یہاں شاہ ولی اللہ کی تنقید یں بھی بطور مثال پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن مستشرقین کے اعتراضات کے بعد یہ بات بہت شدت سے بیسوں علما نے محسوس کی اور نہ صرف برصغیربلکہ عالم عرب میں بھی محسوس کی گئی کہ سیرت کے ماخذ کو ایک بار پھر کھنگالا جائے اور سیرت کے باب سے رطب ویابس روایات کو ختم کیا جائے ۔ ثبوت کے طور پر محمد حسین ہیکل(95ہیکل ،محمد حسین، حیات محمدؐ،( مترجم محمد مسعود عبدہ)، الفیصل ناشران، لاہور، س ن) اور شبلی کے مقدمے، اصح السیر اور سیرۃ المصطفیٰ ﷺ (96کاندھلوی، مولانا ادریس، سیرۃ المصطفیٰﷺ،مکتبہ عثمانیہ۔ جامعہ اشرفیہ، لاہور، 1979ء۔) کے دیباچہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ مستند ماخذ کی تلاش میں اور کچھ دیگر وجوہ کی بناء پر سیرت قرآنی کا رحجان شروع ہوا اور اسی استناد کی تلاش میں صحیح احادیث کی مدد سے کتب لکھنے کے دعوے بھی کیے گئے ۔ سیرۃ النبی ﷺ، اصح السیر، سیرۃ المصطفیٰ ﷺ ڈاکٹر محمد ابو شہبہ (97ابوشہبہ‘ محمد بن محمد‘ السیرۃ النبویۃ فی ضوء القرآن و السنۃ‘ دار القلم‘ دمشق‘ ط اول‘ 1409؍ 1988)اور اکرم ضیاء العمری (98ضیاء العمری،ڈاکٹر اکرم، السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ‘ مدینہ منورہ‘ مکتبۃ العلوم و الحکم‘ طبع 1993ء) کی کتب اس کی چند مثالیں ہیں۔

ز ۔  بنیادی مآخذکی دستیابی

یورپی علماء اور مستشرقین نے، مختلف مقاصد کے تحت عربی کی قدیم کتب کی تدوین کر کے شائع کرنا شروع کیا، تو سیرت پر لکھنے والوں کو بہت سا مواد میسر آیا اور ان کی معلومات اور خیالات میں وسعت پیدا ہونی شروع ہوئی اور نئے نئے رجحانات وجود میں آئے۔متعدد علما نے اس امر کی جانب اشارہ کیا ہے کہ نئے مآخذ کی دستیابی نے سیرت نگاروں کو سہولت بہم پہنچائی ، جس سے سیرت نگاری اپنی وسعت کے نئے دور میں داخل ہو گئی ۔ اس سلسلہ میں سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ۔چنانچہ علامہ سید سلیمان ندوی سیرۃ النبی ﷺ کے دیباچہ چہارم میں لکھتے ہیں۔
’’مولانا(شبلی) کی زندگی میں ان کی تصنیف کے وقت ان کو بعض کتابیں قلمی ملی تھیں۔ جیسے ’’الروض الانف ‘‘جس سے پورا استفادہ دقت طلب تھا۔ اب وہ چھپ گئی ہے۔ بعض کتابوں کی ان کو تلاش ہی رہی، جیسے البدایہ والنہایہ ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے وہ اب چھپ کر عام ہو گئی ہے۔ مستدرک حاکم اس وقت ناپید تھی ،اب طبع ہو کر گھر گھر پھیل گئی ہے۔ غرض ان کتابوں کے ہاتھ آجانے سے بہت سے نئے معلومات بڑھ گئے ہیں(99شبلی نعمانی، سیرۃالنبی،دیباچہ از سلمان ندوی، ج 1 ص 14) ۔
ڈاکٹر غازی رقمطراز ہیں:۔
’’جب طباعت کا زمانہ آیا تو بڑے پیمانے پر مخطوطات ایک ایک کر کے چھپنے شروع ہوئے اور دنیا کے تمام سیرت نگاروں کو وہ تمام ماخذ دستیاب ہو گئے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھے۔ اس سے قبل علامہ شبلی نے کئی مرتبہ دکھ کا اظہار کیا تھا کہ تاریخ ابن کثیر نہیں ملتی ،اگر مل جاتی تو بہت سے عقدے حل ہو جاتے ۔ تاریخ ابن کثیر یعنی البدایہ والنہایہ اب دنیا کے ہر بڑے اسلامی کتب خانے میں اور لوگوں کے ذاتی کتب خانوں میں محفوظ ہے‘‘(100غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، ص648) ۔
ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں کہ ’’بیسویں صدی کا آغاز سیرت نگاری کے ایک اہم دور سے ہوا جس کو اگر علمی دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بہت سے نئے ماخذ دریافت ہوئے ،جو پہلے سیر ت نگاروں کو دستیاب نہ تھے‘‘ (101صدیقی، یٰسین مظہر ، ڈاکٹر،سیرت نبوی پر مغربی مصنفین کی انگریزی نگارشات، سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڑھ،( جولائی۔ ستمبر 1984)ص 260
درج بالا اقتباسات اور علماء کی آراء سے سیرت نگاری پر بنیادی ماخذوں کی جدید دستیابی کے اثرات کا بخوبی ا ندازہ ہو جاتا ہے۔

س ۔ زبانوں سے واقفیت

بیسویں صدی میں بہت سے لوگو ں نے نئی زبانیں سیکھیں یا دوسری زبانوں کی کتب کا مقامی زبانوں میں ترجمہ دستیاب ہوا،جس سے سیرت کے لٹریچر میں معتدبہ اضافہ ہوا اور نئے رحجانات متعارف ہوئے۔ اس کی ابتداء مستشرقین نے کی، جس کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں :۔
’’انیسویں صدی کے وسط میں مستشرقین نے باقاعدہ سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ سیرت کا مطالعہ شروع کیا۔ بہت سے مستشرقین نے عربی زبان سیکھی۔ بہت سی کتابوں کا عربی سے انگریزی ، فرانسیسی، اور جرمن زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ انہوں نے اسلامی ماخذ سے کام لے کر اور اسلامی مصادر کی بنیاد پر وہ بات کہنی شروع کر دی جو وہ پہلے سے کہنا چاہتے تھے۔۔۔مغربی لوگوں نے یہاں کی مقامی زبانیں بھی سیکھیں‘‘ (102غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، 658
سر ولیم میور کے جواب میں سر سید نے سب سے ٹھوس کام کیا۔ انگریزی نہ جاننے کے باوجود مترجموں کی مدد سے ولیم میور کی پہلی جلد کا جواب بارہ خطبات کی صورت میں انگریزی میں شائع کیا۔ وسائل کی کمی وجہ سے اور خود انگریزی خواں نہ ہونے کی بناء پر باقی جلدوں کا جواب نہ دے سکے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زبانوں سے عدم واقفیت کام کی کیفیت و کمیت پر اثر انداز ہوتی ہے اور نئی زبانوں سے واقفیت کام کی معیار و مقدار بڑھا دیتی ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نےغیر ملکی زبانوں سے علما کی واقفیت کے فوائد اور کتب کے تراجم کی دستیابی کے سیرت نغاری پر مثبت اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:۔
’’ بیسویں صدی سے قبل ایک آدھ کے استثناء کے علاوہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے تمام سیرت نگار، مغربی زبانوں سے واقف نہیں تھے۔ اس کے برعکس آج سینکڑوں بلکہ ہزاروں سیرت نگار ہیں، جو انگریزی ، جرمن، روسی اور تقریباًتمام مغربی زبانوں سے واقف ہیں اور سیرت پر اٹھنے والے ہر مغربی اعتراض سے واقف ہو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ قدیم عربی کتابیں جو سیرت کے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں وہ نہ صرف اردو اور فارسی بلکہ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوئیں اور عام انسانوں کو براہ راست سیرت کے ماخذ تک رسائی کا موقع ملا (103ایضاً ، ص 648۔ 652
یعنی نئی زبانوں سے واقفیت پہلے مستشرقین نے پیدا کی اور ساتھ ہی عربی میں دسترس حاصل کی تو انہوں نے مختلف مقامی زبانوں میں سیرت پر کتب لکھیں۔ جن کے جواب میں ہمارے علماء نے بھی عربی کے ساتھ ساتھ یورپی زبانوں میں مہارت حاصل کر کے مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دیا۔ یوں عمل اور ردعمل کا سلسلہ چل نکلا ،جس میں سیرت پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ دوسرے یہ کہ عربی کتب کے مختلف یورپی زبانوں اور مقامی زبانوں میں تراجم ہوئے اور مستشرقین کی کتب کے بھی مختلف مقامی زبانوں میں تراجم نے سیرت کے علم میں معتدبہ اضافہ کیا۔

ش ۔ ادب نوازی:

زبان اور ادب اپنے ارتقاء کے زمانے میں ہر قسم کے موضوعات زیر بحث لاتے ہیں۔ ادیب مختلف موضوعات تلاش کرتے ہیں۔ اور ان پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ایک مسلمان ادب نبویﷺ کی وجہ سے بالعموم سیرت نگاری میں محتاط الفاظ کے چناؤ پر مجبور ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ادبی رنگ میں کم سیرت نگاری ہوتی ہے۔تاہم دور جدید میں یہ رحجان پیدا ہوا ہے جس کا محرک زورقلم کے اظہار کا جذبہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مرزا حیرت دہلوی بہت غیر معمولی ادیب تھے اور بہت سے موضوعات پر قلم آزمائی کے بعد سیرت کو بھی موضوع بحث بنایا۔ان کی کتاب ’’سیرت محمدیہ ‘‘جس کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ اس میں ادبیت پر تاریخیت کو قربان کیا گیا ہے۔ اسی طرح عبدالحلیم شرر کی’’ جویائے حق‘‘ بھی ادبی ذوق کی حامل ہے ۔طہ حسین نے بھی ’’علی ھامش السیرۃ‘‘(104طہ حسین ،علی ھامش السیرۃ، دار المعارف، قاہرہ، س۔ن) اسی انداز میں لکھی ۔’’محمد عربی از عنایت سبحانی‘‘ اور “ننھے حضور ﷺاز احسان بی اے”بھی اسی ذوق کی حامل ہے۔الغرض ادب و زبان کی نشاۃ ثانیہ کبھی زبان و بیان کے سانچے بدل کر سیرت کے لئے راہ ہم وار کرتی ہے(105خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا،، ص 229) تو کبھی اس طرح کی ادبی کتب منصہ شہود پر آتی ہیں۔

ص ۔ تاریخی نقطہ نظر کا فروغ

صدیوں تک سیرت نگاری کاوہ منہج متداول رہا ،جسے امام سیرت ابن اسحق اور ابن ہشام متعین کر گئے تھے(106صدیقی، یسین مظہر، سیرت نگاری کا صحیح منہج ،مشمولہ تحقیقات اسلامی، علی گڑھ، اکتوبر۔دسمبر2001، ص19) ۔ یہ منہج، طرز محدثین پر استوار، سادہ واقعات کے اندارج کا تھا ۔جبکہ تاریخ نویسی کا طریقہ قدرے تحلیل و تجزیہ اور تنقید و تبصرہ سے مزین ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں جب سیرت پر مستشرقین کی طرف سے اعتراضات کیے گئے، تو ان کا جواب دینے کے لیے مؤرخین کے منہج و اسلوب کی ضرورت شدت سے پیش آئی، کیونکہ طرز محد ثین میں اس طرح کے تحلیل و تجزیہ کی گنجائش موجود نہ تھی۔ ایک تو اس سبب سے اور دوسرے یہ کہ اس دور میں جن لوگوں نے سیرت نگاری میں شہرت پائی یا جن کی لکھی ہوئی سیرتوں کو قبولیت کی سند ملی اُن کا زیادہ تر تعلق سوانح نگاری کے فن سے تھا یا وہ فن تاریخ نویسی کے استاد تھے۔ یہ دو اسباب ہیں جو موجودہ دور میں سیرت نگاری کوفن تاریخ کے قریب لے آئے۔ تاریخی نقطہ نظر کے اس فروغ کا اثر فن سیرت کے مختلف رحجانات پر پڑا۔
علامہ شبلی نے مستشرقین کے متعلق لکھا ہے کہ ان کا سرمایہ استناد تاریخ و سیرت کی کتب ہیں(107شبلی نعمانی، محولہ بالا ،مقدمہ ص 69) ۔ سیرتی ادب پر مستشرقین کے اثرات کے حوالے سے تفصیلی بات اس سے قبل گزر چکی ہے۔ان کے ماخذوں اورطرز ادا کے اثرات کے نتیجہ سے لامحالہ تاریخی نقطہ نظر کو فروغ ملنا تھا اور ردعمل میں بھی جو کتب لکھی گئیں،ان پر بھی بوجوہ تاریخی طریقہ کار کے اثرات نمایاں رہے۔علامہ شبلی اور ان کے جانشین سید سلیمان ندوی بنیادی طور پر مورخ و متکلم تھے ،جن کے تاریخ لکھنے کا مقصد منکرین اسلام کی تردید ، غلط فہموں کا جواب اور مسلمانوں کے اندر ایک اعتماد پیدا کرنا تھا (108غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، 668)۔ ڈاکٹر شاہ علی نے’’ المامون‘‘ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ شبلی کا سوانحی طریقہ تاریخی طریقہ سے بہت متاثر ہے ،علاوہ ازیں شبلی کے ذہن میں سوانح عمری اور تاریخ کا فرق بھی واضح معلوم نہیں ہوتا(109شاہ علی ،ڈاکٹر، محولہ بالا، ص 200) ۔ شبلی نے اپنے مقدمہ سیرت میں تاریخ کا نام باربار استعمال کیا ہے ۔اور آخر پر استناد اور حوالے کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’’تاریخ اور روایت میں حوالہ اور استناد سب سے مقدم چیز ہے‘‘۔ وہ اسی سلسلہ میں اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں’’اسلامی مورخین اور ارباب روایت مصنفین نے سینکڑوں غلطیاں کی ہیں مجھ کو تاریخ نہیں ، بلکہ عدالت کا فیصلہ لکھنا پڑتا ہے(110انور، خالدمحمود،محولي بالا، ص 564، بحوالہ مکاتب شبلی 313/1) ۔ اسکے علاوہ چراغ علی تاریخی تاویل کی گرم جوشی میں مبتلا تھے(111 عزیز احمد ،پروفیسر، محولہ بالا، ص 98بحوالہ پروپوزد پولیٹکل ، لیگل سوشل ریفارمز ان آٹوئن ایمپائر 1883، ص 128) ۔ اور امیر علی کے بارے عزیز احمد نے لکھا ہے کہ وہ قرآن ، حدیث اور سیرت جیسے علوم کی روشنی میں مسلم تاریخ کو از سر نو مدون کرنا چاہتے تھے(112ایضاً، ص 137 ، بحوالہ امیر علی سپرٹ آف اسلام،ص 49) ۔ مزید برآں یہ کہ امیر علی تاریخی استدلال سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت محمدﷺ کی تاریخی فوقیت ثابت کرنے کی تکنیک استعمال کرتے تھے (113ایضاً، 138، بحوالہ امیر علی سپرٹ آف اسلام،ص 51)۔ قاضی سلمان منصور پوری کے بارے میں الطاف فاطمہ کہتی ہیں’’قاضی صاحب بحیثیت سوانح نگار اتنے اہم اور بلند نہیں ،جتنا ایک مورخ اور مناظر کی حیثیت سے، کوشش کے باوجود انہوں نے سیرت کے ان محبوب پہلوؤں پر اتنا زیادہ زور نہیں دیا،جو لوگوں کو رسول ہاشمیﷺکا گرویدہ بنا دیتے ہیں، بلکہ تاریخی حقائق پر زیادہ زور دیا ہے(114الطاف فاطمہ، محولہ بالا، ص 171) ۔ حیرت دہلوی نے خود لکھا ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کی سیرت و سوانح کو تاریخ کی روشنی میں جانچا پرکھا ہے (115خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص 526)۔ الطاف فاطمہ نے اسی بات پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے’’اس میں مصنف نے آنحضرتﷺ کی سوانح عمری پر تاریخی شواہد سے اعتراضات کا جواب دیا ہے ۔بلکہ تمام عالم اسلام کے تاریخی حالات کا جائزہ ،اعتراضات کی روشنی میں ،لے کر ترتیب وار جوابات دیئے ہیں۔ اس طرح خالصتاً سوانح نگاری کے نقطہ نظر سے یہ سوانح کس قدرہٹی ہوئی ہے (116الطاف فاطمہ، محولہ بالا، ص 167
درج بالا اقتباسات اور دلائل یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ دورجدید میں سیرت نگاری نے اپنی وسعت اور جامعیت کے نام پر تاریخی نقطہ نظر کو اپنایا ہے اور یہ طریقہ کار انہی مصنفین نے اپنا یا ہے، جنہوں نے فی زمانہ سیرت کے تصور میں وسعت پیدا کر کے پیغام سیرت کو سیرت کا حصہ بنا یا ہے ۔ان میں سید امیر علی ، علامہ شبلی، قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحجان سازی کے نقطہ نظر سے انتہائی اہم ہیں۔

ض ۔ ذوق علت و معلول

دور جدید میں سیرت نگاری میں جس چیز کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی ہے وہ یہ کہ سیرت نگاری کے قدیم موسوعی طرز ،جس میں ہر طرح کی روایات کو جمع کر دیا جاتا ہے اور ان اسباب و حالات اور وجوہات پر نظر نہیں ڈالی جاتی جو اس واقعہ کا سبب بنے، کو ترک کر کے سلسلہ علت و معلول قائم کیا جائے۔ اس سے ایک نیا رحجان ، تجزیاتی مطالعہ کا شروع ہوا جو ماضی میں کم تھا (117غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، محاضرارت، ص 649)۔ ڈاکٹر یٰسین مظہر لکھتے ہیں کہ سیرت نبویﷺ کا مطالعہ ولادت و بعثت سے لے کر وفات و خلافت تک ایک مسلسل و مربوط ارتقاء اسلامی کی حیثیت سے کرنے کی ضرورت ہے۔ تہذیبی و تمدنی عناصر و ارکان عہد نبوی ﷺ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اب بیانیہ کو بھی تحلیل و تجزیہ کی کٹھائی سے گزارنے کا زمانہ ہے اور یہی تقاضا ئے فن بھی ہے(118صدیقی ،یٰسین مظہر،سیرت نگاری کا صحیح منہج،ص 25) ۔ شبلی نے بھی اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے اسلامی مورخ کی ایک خامی بیان کی اور لکھا ہے:۔
’’اسلامی مورخ کامطمع نظر واقعیت نگاری ہوتا ہے ،چاہے اُس کے اثرات اُس کے اپنے معتقدات پر ہی کیوں نہ پڑیں۔ لیکن اس میں بھی تفریط ہو گئی ہے۔ اس سے بچنے کے لئے کہ واقعات رائے سے مخلوط نہ ہو جائیں وہ پاس پاس کے ظاہری اسباب پر بھی نظر نہیں ڈالتا اور ہر واقعہ کو خشک اور ادھورا چھوڑ دیتا ہے‘‘(119شبلی ، مقدمہ سیرۃالنبیﷺ ، ص 48) ۔
اسی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:۔
’’بہت سے واقعات اس وقت تک پوری طرح یا تو سمجھے ہی نہیں یا ان کی صحیح قدرو قیمت نہیں معلوم ہو سکتی ،جب تک ان واقعات کے پیش آنے کے مقام کا جغرافیہ ، معاشی و سیاسی حالت ، وہاں والوں اور اس واقعے میں حصہ لینے والوں کی نفسیاتی کیفیت ، اس مقام کے ماحول اور ہمسائے کی داخلی اور اثر انداز حالتیں اور دیگر بہت سے امور کا مطالعہ نہ کیا جائے‘‘(120محمد حمید اللہ ، ڈاکٹر، رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی، دارالاشاعت، کراچی، ط ششم1984، ص22) ۔
علامہ ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:۔
’’بہت سے واقعات اور فیصلے جو حدیث و سیرت کے مطالعہ میں آدمی کی نظر سے گزرتے ہیں ۔اس وقت تک سمجھے ہی نہیں جا سکتے جب تک مدینہ کی اجتماعی اقتصادی و سیاسی صورت حال ، جغرافیہ ، ملکی و قومی دستور اور رسم و رواج کا قاری کو علم نہ ہو۔ یا اُس زمانے کے عقل و شعور اور تہذیب و تمدن کی جو سطح تھی ،اس سے بے خبری ہو۔ بعثت محمدی ﷺ کی عظمت و وسعت اور منصب نبوت کی نزاکت کے ساتھ ساتھ اُس دور کے ماحول اور عہد کا علم قاری کے لیے ضروری ہے‘‘(121علی ندوی، ابوالحسن ،نبی رحمت، ص15-14) ۔
مختصراً یہ کہاجا سکتا ہے کہ تحلیل و تجزیہ کے ذوق نے علم سیرت کے رحجانات کووسعت ، تنوع اور ہمہ گیری دینے میں خاص کردار ادا کیا ہے۔

ط ۔ غیر قوموں کی سیاسی برتری کا رد عمل

مقابلے کی فضا میں ردعمل کا مظہر دور صحابہؓ سے موجود ہے کہ جب معاندین : عیسائی یا یہودی اپنے انبیاء کی برتری کا اظہار کریں یا مشرکین اپنے اسلاف کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں یا اپنے ماضی اور مذہب کی عظمت کے گن گائیں، تو نتیجہً مسلمانوں میں بھی آنحضور ﷺ کی سیرت کی برتری کو ثابت کرنا ، اپنے اسلاف کے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اپنی عظمت رفتہ کے گن گانا لازم آتا ہے۔ اسی نتیجے کا اظہار یہاں بھی ہوا۔ اور سیرت و سوانح کی کتب تیار کی گئیں۔ شاہ علی کہتے ہیں کہ انگریز کی برتری کے اعتراف کا جواب اپنے اسلاف کی برتری کا اظہار تھاتو انگریزوں سے موافقت کا جواب پان اسلام تحریک اور کانگریس سے تعاون تھا(122شاہ علی ،ڈاکٹر، محولہ بالا،ص261) ۔ انگریزی برتری کے خلاف مسلم معاشروں میں ردعمل پیدا ہوا اور مسلم دانشور بتدریج غیر قوموں کے اثر سے آزاد ہوتے چلے گئے۔ ڈاکٹر شاہ علی آگے جا کر لکھتے ہیں’’مغرب سے وسیع پیمانے پر اثر پذیری سر سید ، حالی، شبلی اور آزاد کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ اس کے علاوہ مغربی تہذیب و ترقی کی عام مذمت کے رجحان نے بھی متاخریں کو اس کی طرف کم متوجہ ہونے دیا‘‘(123ایضاً، س 271) ۔ ڈاکٹر صاحب کے اس بیان کی تصدیق سرسید، شبلی ،سید سلیمان ندوی،محمد حسین ہیکل اور آج کے سیرت نگاروں کی سیرت پرتحریروں کے بالاستیعاب مطالعہ سے ہو سکتی ہے۔ اس دور پر آشوب میں دفاع سیرت کے طریقہ کار کے بارے میں ڈاکٹر طاہر القادری لکھتے ہیں:۔
جب غیر مسلم مفکرین نے حضور ﷺ کی شخصیت کے محض ظاہری پہلوؤں کو منفی انداز میں پیش کیا، تو مسلم مفکرین نے بھی انہی ظاہری پہلوؤں کو جواباً مثبت انداز میں پیش کر دیا (124طاہر القادری ، ڈاکٹر، محولہ بالا، ص 41

ظ ۔ سیرت کی جامعیت کا تصور

ڈاکٹر محمود احمد غازی نے لکھا ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے مصنفین نے سیرت اور پیغام سیرت کو یکجا کر کے سیرت کے دائرہ کو بہت وسیع کر دیا اور یہ کوشش ہوئی کہ پیغام سیرت کی روشنی میں سیرت کو سمجھا جائے اور سیرت کی روشنی میں پیغام سیرت کی تعبیر و تشریح کی جائے۔ چنانچہ سیرت کے تصور میں دور جدید میں جو وسعت پیدا ہوئی ہے اُس نے بہت سارے نئے عنوانات رحجانات اور تصورات کو سیرت کا حصہ بنا دیا ۔جس کی وجہ سے سیرتی ادب میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جدید علما میں سے سید امیر علی نے سیرت ، صاحب سیرت اور پیغام سیرت کو ایک دوسرے کی تکمیل قرار دیا(125غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، محاضرات 665۔ مکاتب شبلی بحوالہ خالد،انورمحمود ، ص573)۔علامہ شبلی کے پیش نظربھی سیرت کے متعلق’’ دائرہ المعارف‘‘ کا تصور تھا (126مکاتب شبلی بحوالہ خالد،انورمحمود ، ص573)۔ سید سلیمان ندوی نے’’ پیغام اور پیغام لانے والا ﷺ‘‘ دونوں کو سیرت کا موضوع قرار دیا(127سلمان ندوی،سید ، سیرۃ النبیﷺ، دار الاشاعت ، کراچی ،۱۹۸۶ء،دیباچہ، جلد 5، ص9) ۔ سلمان منصور پوری نے قرآنی مباحث کو سیرت کے ساتھ پیش کرنے عندیہ دیا (128منصور پوری، سلیمان ، رحمتہ للعالمین ، مکتبہ الحرمین فیصل آباد، 2007 ء،جلد سوم ، ص24)۔ چوہدری افضل حق نے بھی سوانح اور پیغام کو سیرت میں سمو دیا(129افضل حق،چوہدری،محبوب خدا، قومی کتب خانہ لاہور ، ششم 1969) ۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے بھی سیرت کے واقعات ، غزوات ،اسلام کے بین الاقوامی قوانین اور دور نبوی کی ساری سیاسی زندگی کو سیرت کا حصہ قرار دیا (130غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر،محاضرات،ص 675
جدید سیرت نگاروں نے سیرت کے دائرہ کار کے بارے میں اپنے جامع تصور کی روشنی میں اپنی اپنی کتب سیرت مرتب کیں ، جو نئے رجحانات کی علامت ہیں۔

4.      خلاصہ کلام

دور جدید میں دوسرے علوم کی طرح سیرت نگاری نے بھی تیزی سے اپنی ارتقائی منازل طے کیں ، جس کے متنوع سیاسی و سماجی اور فکری و علمی عوامل تھے ، ان عوامل کا تفصیلی جائزہ سطور بالا میں لیا گیا ہے ۔ان بہت سارے عوامل نے برصغیر کی سیرت نگاری کو مثبت و منفی طور پر متاثر کیا ، جن میں انگریزی استعمار کے برصغیر پر قبضہ سے پیدا شدہ سیاسی، سماجی اور علمی اثرات کا بڑا حصہ ہے۔ اس سے خارجی و داخلی کلامی محاذوں پر سیرت کے واقعات کی تعبیر و تشریح میں متعدد نئے رجحانات ابھر کر سامنے آئے۔ انہی عوامل نے سیرت نگاری کے نئے اصولوں کی ضرورت کو اجاگر کر دیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کبھی مصنف یا قاری کسی رحجان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور کبھی ایک رحجان مصنفوں اور قارئین پر اثرانداز ہوتا ہے ۔ اثر ڈالنے اور متاثر ہونے کا یہ دوہرا عمل دراصل ارتقاء علم کا ذریعہ ہے ۔سیرت نگاری میں غیر متوازن عقلیت کے استعمال اور اسکے ردعمل نے یہ سبق فراہم کیا کہ نیا علم پر انے علم پر استوار ہونا چاہیے نہ کہ پرانے علم کے انہدام پر کیونکہ ہر علم کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، جن سے انحراف علم کی بنیادوں کے انہدام کا کا باعث بنتا ہے۔ علم سیرت میں سچی واقعیت نگاری کا تطابق قرآن اور احادیث معتبرہ کے ساتھ اور تجزیہ و اسلوب کا تطابق مقام نبوت، عقل سلیم اور مقصد شریعت کے ساتھ ہو نا ضروری ہے۔ ایک اہم نتیجہ یہ بھی اخذ ہوا کہ معاندین کے حملوں اور مستشرقین کے اعتراضات نے مسلمان سیرت نگاروں کو زیادہ ذمہ دار اور محتاط کر دیا ہے، اور وہ روایات سیرت کی جانچ پرکھ اور واقعات میں علت و معلول کے رشتے کو تلاش کرنے میں ماضی قدیم کی نسبت زیادہ مستعد ہو گئے ہیں۔ سطور بالا میں مختلف عنوانات کے تحت نہ صرف ان اسبا ب کا تذکرہ کیا گیا ہے، جو برصغیر میں سیرت نگاری کے نئے رجحانات کی ابتداء کا باعث بنے ہیں، بلکہ ان اسباب کے نتائج کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے اور سیرت نگاری کے جدید رجحانات کی اہم خصوصیات کو نمایاں کیا گیا ہے۔

5.      سفارشات

بر صغیر کی سیرت نگاری پر اندرونی و بیرونی عوامل کی 1857 سے مابعد تاریخ پر ایم فل/ پی ایچ ڈی کے درجہ کی تحقیق کی سفارش کی جاتی ہے۔

  • 1
    ازی ، محمود احمد ، محاضرات سیرت،الفیصل ناشران، لاہور،ط سوم ۲۰۰۹ء، ص 586۔
  • 2
    صدیقی، ڈاکٹر محمد يسين مظہر ، ہندوستان میں عربی سیرت نگاری : آغاز و ارتقاء مشمولہ مقالات سیرت (مرتب ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس)، مکتبہ اسلامیہ ،لاہور 2015، ج1 ص 283۔
  • 3
    الاحزاب ۳۳:۲۱
  • 4
    مبارکپوری، صفی الرحمان ، الرحیق المختوم، المکتبہ السلفیہ لاہور، س۔ن ، پیش لفظ از محمد علی الحرکان، ص۹
  • 5
    آل عمران ۳: ۳۱
  • 6
    انشراح ۹۴:۴
  • 7
    گیلانی، سید مناظر احسن، النبی الخاتم، مکتبہ اخوت، لاہور، س۔ن
  • 8
    افضل حق،چوہدری،محبوب خدا، قومی کتب خانہ لاہور ،ط: ششم، 1969۔
  • 9
    Margoliuth,D. S,Mohammed and the Rise of Islam,3rd. ed.(2003) G.P. Putnam’s Sons. Newyork
  • 10
    ندوی، ابوالحسن علی، نبی رحمت، دارالاشاعت کراچی 1983ء ، ص16
  • 11
    ممتاز مصری عالم اے ایل طباوی کوڈاکٹر مصطفی السباعی نے استشراق کے سیاسی محرکات کے ضمن میں ایک بڑی اہم بات لکھی ہے کہ مستشرقین عام طور پر مشرق میں مغربی حکومتوں اور اقتدار کا ہراول دستہ رہے ہیں۔ مغربی حکومتوں کو علمی کمک اور رسد پہنچانا ان کا کام ہے۔ وہ ان مشرقی اقوام و ممالک کے رسم و رواج، طبیعت و مزاج، طریقِ بود و مانداور زبان و ادب بلکہ جذبات و نفسیات سے متعلق صحیح اور تفصیلی معلومات فراہم کرتے ہیں تاکہ ان پر اہلِ مغرب کو حکومت کرنا آسان ہو۔(تحسین فراقی ،ڈاکٹر ، مستشرقین کا اسلوبِ سیرت نگاری اور مولانا عبدالماجد دریا بادی،مشمولہ مقالات بین الاقوامی سیمینار: دور جدید میں سیرت نگاری کے رجحانات(۶۲ تا ۸۲ مارچ ۱۱۰۲ء) ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد(غیر مطبوعہ)ص۳۸۳
  • 12
    شبلی نعمانی و سلیمان ندوی ،سیرۃالنبیﷺ،دار الاشاعت ، کراچی، 1985ء ، مقدمہ ،ج۱۔ص ۶۳ تا ۷۲
  • 13
    دریا بادی، عبدالماجد ، مولانا، مردوں کی مسیحائی ، مکہ پبلیشنگ کمپنی ، لاہور ، س۔ ن، ص74-67
  • 14
    محمد اسد، اسلام دوارہے پر، دار الاندلس، جبرالٹر، ۱۹۶۸، ص۴۷
  • 15
    ہیکل ،محمد حسین، حیات محمدؐ،( مترجم محمد مسعود عبدہ)، الفیصل ناشران، لاہور، س ن۔ص۲۳
  • 16
    طاہر القادری،ڈاکٹر محمد، مقدمہ سیرت الرسول ، منہاج القرآن پبلی کیشنرزلاہور، ط۱۵، ۲۰۱۱ ء ،پیش لفظ از طاہر حمید تنولی، ج ا ، ص۲۷
  • 17
    طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد ، مقدمہ سیرت ، محولہ بالا ، ج ا ، ص 3
  • 18
    شاہ علی ،ڈاکٹر،اردو میں سوانح نگاری۔گلڈ پبلشنگ ہاؤس، کراچی،1961 ء، ص209۔
  • 19
    ایضاً، ص 239
  • 20
    ایضاً،236
  • 21
    ایضاً
  • 22
    محمد عبداللہ، سید ، ڈاکٹر ، سیر سید اور اُن کے رفقاء، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،2001 ء ،ص289
  • 23
    ندوی، شاہ معین الدین احمد،حیات سلیمان،دار المسنفین ، اعظم گڑھ،س۔ن، مکتوب شبلی۷ دسمبر۱۹۱۳،ص233
  • 24
    خالد،انورمحمود، ڈاکٹر،اردو نثر میں سیرت رسول۔اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،1979 ء ، ص ۳۸۳
  • 25
    خالد، اردو نثر میں سیرت رسول، محوله بالا ،ص 377
  • 26
    نواب علی،پروفیسر، سید، سیرت رسول اللہ ،مکتبہ افکار، کراچی،( ط دوم۔۱۹۶۶) ، پیش لفظ از ڈاکٹر یوسف علی، ص8
  • 27
    نجیبہ عارف، ڈاکٹر،نو آبادیاتی عہد میں اردو سیرت نگاری:رجحانات و اسالیب۔مشمولہ مقالات بین الاقوامی سیمینار: دور جدید میں سیرت نگاری کے رجحانات(۶۲ تا ۸۲ مارچ ۱۱۰۲ء) ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد(غیر مطبوعہ)،ص363
  • 28
    ایضاً،
  • 29
    ہیکل ، محمد حسین، محولہ بالا، ص 19
  • 30
    خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا، ص 377
  • 31
    خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا ، 414
  • 32
    شاہ علی ،ڈاکٹر، محولہ بالا،ص 149
  • 33
    الطاف فاطمہ، اردو میں فن سوانح نگاری کا رتقاء،، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، 1961 ء، ص 203
  • 34
    قاموس الکتب اردو ، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی ، 1961، ص 800
  • 35
    ندوی،سید سلیمان، حیات شبلی، دار المصنفین، اعظم گڑھ، 1943، ص 15
  • 36
    سلیمان ندوی، سید ، خطبات مدارس،اسلامک بک فاؤنڈیشن، لاہور، 1984، ص 12
  • 37
    غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، ص 674
  • 38
    محمدحمید اللہ، ڈاکٹر، خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، 2005ء۔
  • 39
    غازی، محمود احمد، ڈاکٹر، خطبات بہاولپور (۲)، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد
  • 40
    صدیقی ،ڈاکٹر یسین مظہر کے خطبات منعقدہ ۲۵ تا ۲۹ مارچ 2013، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد،غیر مطبوعہ
  • 41
    غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر ، ص 650
  • 42
    خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا، ص 601
  • 43
    ایضاً، ص 713
  • 44
    توکلی، نور بخش ، علامہ، سیرت رسول عربیؐ، تاج کمپنی لمیٹڈ، لاہور، س۔ن
  • 45
    عبداللہ، سید، ڈاکٹر، محولہ بالا ، 28
  • 46
    خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص 140
  • 47
    عبداللہ، سید، ڈاکٹر، محولہ بالا ، ص 28
  • 48
    صبر شاہجہان پوری، آفتاب نبوت، رحمان برادرز تاجران کتب ، کراچی، بحوالہ اردو نثر میں سیرت رسول ، ص 453
  • 49
    شمیم احمد، سید، ادب نبوی، سیرت پاک:’’ماہ نو کی خصوصی اشاعتوں کا انتخاب‘‘ ، ادارہ مطبوعات پاکستان،کراچی، 1966 ء،ص 90
  • 50
    شاہ علی ،ڈاکٹر، محولہ بالا، ص146
  • 51
    ایضاً
  • 52
    ایضاً، ص 209
  • 53
    ایضاً ،ص 239
  • 54
    پروفیسر سید نواب علی 1877 ميں لکھنو میں پیدا ہوئے ، بڑودہ کالج گجرات میں پروفیسر رہے اور مولانا محمد علی جوہر کے ساتھی تھے۔ اسلامیات اور اسرائیلیات کے ماہر عالم تھے، ہجرت کے بعد کراچی یونیورسٹی سے وابستہ رہے، 1961ء میں وفات پائی، متعدد تحقیقی کتب کے مؤلف تھے۔ مستشرقين كے اعتراضات كے جواب ميں تحقيقي كتاب سيرت رسول االله ﷺ ،اور سیرت پر دو اور کتب “تذکرۃ المصطفی” اور “ہمارے نبی ” بھی تالیف کیں۔
  • 55
    خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا، ص 625
  • 56
    عزیز احمد ،پروفیسر،بر صغیر میں اسلامی جدیدیت،(ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی) ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 2006 ، ص 255 ، بحوالہ ٓAbul Kalam Azad, India Wins Freedom, Orient Longman, New Dehli, 1988.P 75
  • 57
    ایضاً، ص 132 ، بحوالہ حیات جاوید از حالی ، ص 143
  • 58
    ایضاً، ص 133
  • 59
    غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، ص 664
  • 60
    کشفی ، ابو الخیر ،اردو میں سیرت نگاری ، مشمولہ نقش سیرت ، مرتبہ نثار احمد ، ادارہ نقش تحریر کراچی، 1968ء ، ص 68
  • 61
    ایضاً، ص 107
  • 62
    علی ندوی ،ابو الحسن ، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش ، مجلس نشریات اسلام، کراچی 1982ء، ص 153
  • 63
    ایضاً، ص 528
  • 64
    نجیبہ عارف، ڈاکٹر، محولہ بالا،ص 364۔ 368
  • 65
    خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص 622
  • 66
    عزیز احمد ،پروفیسر، محولہ بالا، ۱۶۵، بحوالہ شبلی نعمانی خطبہ لکھنو اپریل 1892ء
  • 67
    ایضاً،167، بحوالہ تہذیب الاخلاق (1)318-304
  • 68
    شاہ علی ، ڈاکٹر، محولہ بالا،ص213
  • 69
    احمد امین ، فجرالاسلام ، (مترجم عمر احمد عثمان) ،دوست ایسوسی ایٹس ناشران کتب،لاہور،2003، مقدمہ ازطہ حسین ،ص 12
  • 70
    علی ندوی ،ابوالحسن ، نبی رحمت، محولہ بالا، ج1ص12
  • 71
    عزیز احمد ،پروفیسر، محولہ بالا، ص 170
  • 72
    شاہ علی ،ڈاکٹر، محولہ بالا، ، ص 236
  • 73
    عزیز احمد ،پروفیسر، محولہ بالا، ص 163 ، بحوالہ نقش حیات از مدنی ، ص 221۔ 257
  • 74
    ایضاً، ص ۲۵۵ بحوالہ انڈیا ونز فریڈم ، ص 71
  • 75
    داناپوری، عبد الرؤف،مولانا، مقدمہ اصح السیر فی ہدی خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم،ص 20
  • 76
    عزیز احمد ،پروفیسر، محولہ بالا، ، ص 254
  • 77
    ایضاً، 165 بحوالہ شبلی نعمانی، خطبہ لکھنؤ،۱۲ اپریل ۔ 1895
  • 78
    ایضاً، ص 167
  • 79
    ایضاً، ص 107
  • 80
    این مری شمل۔جبریل ونگ، ای۔جے برل ، لیڈن، ص 150
  • 81
    خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص 287
  • 82
    کشفی ، ابوالخیر، محولہ بالا، ص 72
  • 83
    سر سید، مقالات سر سید (مرتب: مولانا محمد اسمعیل پانی پتی) ، مقاله :جلاء القلوب پر ریویو، مجلس ترقي ادب ، لاهور، ط: دوم، 1991، ص 31
  • 84
    دہلوی، مرزاحیرت، سیرت محمدیہ ، کرزن پریس، دہلی، 1895ء ، ص 10
  • 85
    خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا، ص 583
  • 86
    سید عبداللہ، ڈاکٹر ، سر سید اور ان کے نامور رفقاء ، ص 140
  • 87
    صدیقی،یسین مظہر، ڈاکٹر،سیرت نگاری کا صحیح منھج،مشمولہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ، اکتوبر۔دسمبر2001ء ، ص 21
  • 88
    نعیم صدیقی ،محسن انسانیتﷺ،الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور(بیالیسواں ایڈیشن 2010)، ص 181۔
  • 89
    خطاب، محمود شیث، الرسول القائدﷺ،مکتبۃ النہضۃ، بغداد، 1960، ص 6
  • 90
    علوی،ڈاکٹر خالد،انسان کاملﷺ ۔الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور( ساتواں ایڈیشن، 2011)، ص24
  • 91
    شبلی نعماني و سليمان ندوي، سيرت النبیﷺ، ص 20
  • 92
    سرسید‘ احمد خان‘ الخطبات الاحمدیۃ فی العرب والسیرۃ المحمدیۃ‘ نفیس اکیڈمی کراچی‘ ط اول 1964، ص 25۔ 26۔
  • 93
    مبشر حسین ،سیرت نگاری میں صحت و اِستناد کی بحث:دور جدید کی چند نمائندہ کتب کی روشنی میں ایک تنقیدی مطالعہ ۔ مشمولہ مقالات بین الاقوامی سیمینار: دور جدید میں سیرت نگاری کے رجحانات(26 تا 28 مارچ 2011) ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد(غیر مطبوعہ)ِ ص 42
  • 94
    مبشر حسین، محولہ بالا، ص 43
  • 95
    ہیکل ،محمد حسین، حیات محمدؐ،( مترجم محمد مسعود عبدہ)، الفیصل ناشران، لاہور، س ن
  • 96
    کاندھلوی، مولانا ادریس، سیرۃ المصطفیٰﷺ،مکتبہ عثمانیہ۔ جامعہ اشرفیہ، لاہور، 1979ء۔
  • 97
    ابوشہبہ‘ محمد بن محمد‘ السیرۃ النبویۃ فی ضوء القرآن و السنۃ‘ دار القلم‘ دمشق‘ ط اول‘ 1409؍ 1988
  • 98
    ضیاء العمری،ڈاکٹر اکرم، السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ‘ مدینہ منورہ‘ مکتبۃ العلوم و الحکم‘ طبع 1993ء
  • 99
    شبلی نعمانی، سیرۃالنبی،دیباچہ از سلمان ندوی، ج 1 ص 14
  • 100
    غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، ص648
  • 101
    صدیقی، یٰسین مظہر ، ڈاکٹر،سیرت نبوی پر مغربی مصنفین کی انگریزی نگارشات، سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڑھ،( جولائی۔ ستمبر 1984)ص 260
  • 102
    غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، 658
  • 103
    ایضاً ، ص 648۔ 652
  • 104
    طہ حسین ،علی ھامش السیرۃ، دار المعارف، قاہرہ، س۔ن
  • 105
    خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا،، ص 229
  • 106
    صدیقی، یسین مظہر، سیرت نگاری کا صحیح منہج ،مشمولہ تحقیقات اسلامی، علی گڑھ، اکتوبر۔دسمبر2001، ص19
  • 107
    شبلی نعمانی، محولہ بالا ،مقدمہ ص 69
  • 108
    غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، 668
  • 109
    شاہ علی ،ڈاکٹر، محولہ بالا، ص 200
  • 110
    انور، خالدمحمود،محولي بالا، ص 564، بحوالہ مکاتب شبلی 313/1
  • 111
    عزیز احمد ،پروفیسر، محولہ بالا، ص 98بحوالہ پروپوزد پولیٹکل ، لیگل سوشل ریفارمز ان آٹوئن ایمپائر 1883، ص 128
  • 112
    ایضاً، ص 137 ، بحوالہ امیر علی سپرٹ آف اسلام،ص 49
  • 113
    ایضاً، 138، بحوالہ امیر علی سپرٹ آف اسلام،ص 51
  • 114
    الطاف فاطمہ، محولہ بالا، ص 171
  • 115
    خالد، انور محمود،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص 526
  • 116
    الطاف فاطمہ، محولہ بالا، ص 167
  • 117
    غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، محاضرارت، ص 649
  • 118
    صدیقی ،یٰسین مظہر،سیرت نگاری کا صحیح منہج،ص 25
  • 119
    شبلی ، مقدمہ سیرۃالنبیﷺ ، ص 48
  • 120
    محمد حمید اللہ ، ڈاکٹر، رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی، دارالاشاعت، کراچی، ط ششم1984، ص22
  • 121
    علی ندوی، ابوالحسن ،نبی رحمت، ص15-14
  • 122
    شاہ علی ،ڈاکٹر، محولہ بالا،ص261
  • 123
    ایضاً، س 271
  • 124
    طاہر القادری ، ڈاکٹر، محولہ بالا، ص 41
  • 125
    غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، محاضرات 665۔ مکاتب شبلی بحوالہ خالد،انورمحمود ، ص573
  • 126
    مکاتب شبلی بحوالہ خالد،انورمحمود ، ص573
  • 127
    سلمان ندوی،سید ، سیرۃ النبیﷺ، دار الاشاعت ، کراچی ،۱۹۸۶ء،دیباچہ، جلد 5، ص9
  • 128
    منصور پوری، سلیمان ، رحمتہ للعالمین ، مکتبہ الحرمین فیصل آباد، 2007 ء،جلد سوم ، ص24
  • 129
    افضل حق،چوہدری،محبوب خدا، قومی کتب خانہ لاہور ، ششم 1969
  • 130
    غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر،محاضرات،ص 675
Leave a Comment

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *