علامہ المسعودي كي سيرت نگاري کا مطالعہ

مقالہ # 3  (اس مقاله كي ببلوگرافيكل معلومات حسب ذيل هيں: محمد علیم و ڈاکٹرمحمد سجاد ،علامہ علی بن الحسین المسعودي كي سيرت نگاري کا مطالعہ، مجلہ معارف اسلامی،(اسلام آباد: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی) جلد ۱۹ شمارہ ۲ (جولائی۔ دسمبر۲۰۲۰) ، ص ۲۴۹۔۲۶۵)

1. تعارف

ابو الحسن علی بن الحسین بن علی المسعودی (346ھ / 957م)حضرت عبداللہ بن مسعود کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے مسعودی نسبت رکھتے ہیں۔ آپ ایک ممتازمؤرخ ہیں۔ ان کی ولادت 283 ہجری میں بغداد میں  ہوئی۔ اپنے وقت کے متعدد اساتذہ اور شیوخ سے استفادہ کیا ۔ علامہ مسعودی نے دنیا کی طویل سیاحتیں كيں اورانہوں ے المغرب کے سوا تقریباً پورے عالم اسلام اسپین اور ہندوستان کے سفر کئے،جس میں ان کی سیاحتیں زیادہ تر مشہور مقامات اور ساحلی علاقوں تک محدود تھیں۔ اپني ان سياحتوں  کے دوران مسعودی نے متعدد اہم شخصیات اور مختلف اقوام اور علاقوں کے متعلق اپنے مشاہدات اور تجربات کو قلم بند کیا ۔۔ہر سفر کے بعد وہ اپنے مشاہدات اور تجربات کو ایک کتاب میں قلمبند کرتے(1مؤلف کے تفصيلي حالات کے لیے دیکھیے: الكتبي،محمد بن شاكر ، فوات الوفيات (محقق : إحسان عباس)، دار صادر، بيروت، 1974م، (عدد الأجزاء:4)،ج 2 ص 94۔ و۔ ابن النديم،أبو الفرج محمد بن إسحاق البغدادي المعتزلي الشيعي (438ه)، الفهرست، (محقق: إبراهيم رمضان)،دار المعرفة بيروت، ط: الثانية، 1417 هـ / 1997 مـ، (عدد الأجزاء: 1)، ص 219۔)۔ بدقسمتی سے ان کی کتابیں ضائع ہو گئیں،لیکن ان کی دو اہم کتابیں  مروج الذهب ومعادن الجوهر اور التنبيه و الاشراف  دست برد زمانہ سے محفوظ رہ گئیں۔ مذكوره دونوں ہی کتابوں میں سیرت کا مختصر باب شامل ہے،جو اس مقالہ میں تبصرہ کے لیے شامل ہیں۔

2 ۔ مروج الذهب ومعادن الجوهر

طباعت:   ۔  مکتبة المثنی – بغداد ،دار ﺇحیاء التراث العربی، دار الکتب العلمية، دار الفكر، دارالهجرة قم۔

صفحات:   كل صفحات كتاب :  1718 (4  مج)، باب سيرت : 34 صفحات (ج2 ص 265 ۔ 298)

الف۔  توضيحى نوٹ:۔      علامه ابي الحسن  علي بن  الحسين بن علي المسعودي ( 346 ھ ) كي كتاب مروج الذهب ومعادن الجوهر دو بڑے حصوں پر مشتمل اہم کتاب ہے، جس میں پہلا حصہ ابتداءخلق سے لے کر مختلف اقوام کی تاریخ اور جغرافیہ سے بحث کرتا ہےاور دوسرا حصہ سیرت رسول اللہ ﷺ، خلفاء راشدین اور خلفاء بنو امیہ و بنو عباس کے حالات سال  336 ہجری تک بیان کرتا ہے۔اسے تاریخ مسعودی بھی کہا جاتا ہے۔متعدد بار چھپ چکی ہے اور کئی عالمی زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے هيں ۔مستشرق بربردی مینارڈ (Barbiered Meynord) نے اس کا فرانسیسی ترجمہ پیر س سے شائع کروایا اور مقدمہ میں علامہ مسعودی کے حالات زندگی جمع کئے۔اس کتاب میں بیس صفحات پر مشتمل نہایت مختصر سیرت، اس مقالہ کا حصہ ہے۔ جو دارالهجرة۔قم  كے نسخه كي دوسري جلد كے صفحه نمبر 265  سے 298 تك  محيط هے(2المسعودي ،أبو الحسن على بن الحسين بن على (346هـ)، مروج الذهب ومعادن الجوهر (تحقيق: أسعد داغر)، دار الهجرة – قم،1409هـ۔) ۔

ب۔ موضوعات کتاب

کتاب  مروج الذهب ومعادن الجوهر کے موضوعات اورعنوانات کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

پ ۔ مكي زندگي۔ قبل بعثت

رسول اللہ ﷺ کا نسب شریف، حضرت آدم علیہ السلام تک دیا ہے اورمعد کے اوپراختلاف کا ذکر کیا ہے۔آپ ﷺ کے پانچ اسمائے گرامی،عام الفیل میں آپ کی پیدائش،حرب فجار،قریش البطاح اور قریش الظواہر،حلف الفضول،تعمیر کعبہ اور حجر اسود کی تنصیب ، کعبے کو کپڑا پہنانا،مولود کی تاریخ کی تحدید، آپ ﷺ کی والدہ ماجده کا نسب، قبل نبوت کے واقعات،جس میں شق صدر، آپ کا والدہ کے پاس واپس تشریف لانا ، والدہ  گرامي کی وفات،کفالت دادا اور چچا کی کفالت ، رسول اللہ ﷺ کا شام کا سفر، حضرت خدیجہؓ سے شادی کا بیان شامل ہے۔

ت۔ مكي زندگي۔ بعد بعثت (موضوعاتی ترتیب)

 اگلی فصل بعثت سے ہجرت کے واقعات پر قائم کی ہے ، جس میں وحی کا نزول، مکہ میں 13 سالہ قیام، ، تین سالہ خفیہ دعوت،نمازوں کی فرضیت، ، اولین اسلام لانے والوں کا ذکر شامل كيا هے۔

ج۔ مدني زندگي ۔هجرت تا وفات (موضوعاتی ترتیب)

 اگلی فصل ہجرت  سے آپﷺ کی وفات تک کے ذکر پر مشتمل ہے، جس میں ہجرت ، اذان کی مشروعیت، مدینہ میں 10 سالہ قیام ،ہجرت کی تاریخوں کا تعین، مدینہ میں آپﷺ کے دخول کی کیفیت،مسجد کی تعمیر ،تحویل قبلہ ،رسول اللہ ﷺ کا مرض اور وفات۔اس کے بعد غزوات کی فصل قائم کی گئی ہے جس میں رسول اللہ صلی وسلم کے غزوات کی تعداد ابن اسحاق کےقول پر 26 بیان کرکے ان کی ترتیب ذکر کی گئی۔پھر سرایا کی تعداد پر اختلافی اقوال ذکر کرکے بحث کو بغیر نتیجہ کے چھوڑ دیا۔اس کے بعد مشہور واقعات کے نام سے فصل قائم کی ہے، جس میں حضرت فاطمہ ؓکی وفات،ان سے حضرت علی ؓ کی شادی ، رسول اللہ ﷺ کی حضرت خدیجہ ؓ سے شادی،حضرت خدیجہؓ اور جناب ابوطالب کی وفات ،حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ سے شادی اور رسول اکرم ﷺ کے اخلاق مبارکہ کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ازواج مطہرات کی تعداد پندرہ بتائی گئی ہے۔اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی عمرشریف پر اختلاف کی بحث کی ہے اور مختلف روایات درج کی ہیں اور 63 سال کی روایت کو ترجیح دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کا ذکر دوبارہ کر کے کے آپ کے کفن دفن شريف  کا ذکر کیا گیا ہے۔

چ ۔سنین کی ترتیب

اس کے بعد علامہ نے ایک نئی فصل کا اضافہ کیا ہے جس میں دوبارہ سیرت کے واقعات کو عمر مبارك كےسنین کی ترتیب سے بیان کیا ہے اورنہایت مختصر انداز میں رسول اللہ کی ولادت سے لے کر وفات تک کے واقعات کا مختصر ذکر کیا ہے۔9 ہجری کے واقعات میں رسول اللہ ﷺ کے چچا ؤں اور  پھوپھیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ گیارہ ہجری تک کے واقعات ذکر کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کی اولاد اطہار کا ذکر کیا گیا ہے۔اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے دو معجزات قرآن حکیم اور آپ ﷺ کے جوامع الکلم کا ذکر کیا گیا ہے۔اس کے بعد ایک مفصل فصل میں رسول اللہ ﷺ کے جامع کلمات کو جمع کیا گیا ہے، جن کی تعداد  ايك سو تين (103) ہے۔

ح۔ مضامین کتاب کی بے ترتیبی

علامہ مسعودی نے کتاب کی ترتیب موضوعی رکھی ہے، جس میں  ذیلی طور پر زمانی ترتیب کا خیال رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ، تاہم مؤلف اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور کتاب کے مضامین میں کافی بے ترتیبی ہے۔اگر چہ سیرت کا پہلا حصہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت سے آپ کی نبوت تک کے حالات بیان کرتا ہےاور دوسرا حصہ آپ ﷺ کی بعثت سے ہجرت تک سیرت بیان کرتا ہے ،جبکہ تیسرا حصہ ہجرت سے لے کر وصال تک سیرت کو بیان کرتا ہے ۔ لیکن اس میں بے ترتیبی پائی جاتی ہے۔مثلا  مؤلف  نسب شریف کےبعد اسمائے گرامی اور مولود کا ذکر لائے،اس کے بعد حرب الفجار وحلف الفضول اور تنصیب حجر اسود کا ذکر کیا اور پھر مولود کی بحث پر دوبارہ واپس آکر اس کی زمانی تحدید کی۔اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی والدہ کا نسب دے کر پھر قبل نبوت کے عہد کا دوبارہ ذکر کیا ہے ،جن میں والدہ کی وفات، آپﷺ کی کفالت، سفر شام اور حضرت خدیجہ ؓسے شادی وغیرہ شامل ہیں۔

وصال اطهر  کا ذکر کرنے کے بعد غزوات و سرایا کی فصل شامل کی اور پھر اہم احداث کے نام سے ایک فصل میں پہلے حضرت فاطمہؓ کی حضرت علیؓ سے سے تزویج کا ذکر کیا گیا اور پھر حضرت خدیجہؓ کی تزویج کا ذکر کیا گیا، جو بے ترتیبی کی علامت ہے۔  مؤلف اس کے بعد حضرت خدیجہؓ اور جناب ابوطالب کی وفات کا ذکر لائے ہیں ،جو بے محل ہے۔اس کےبعد رسول اللہ ﷺ کی ازواجؓ کی تعداد ،حضرت سودہ ؓ اور حضرت عائشہؓ سے شادی کا ذکرکر کے آپﷺ کی عمر مبارک کے سلسلے میں اختلاف کا ذکر کیا گیا اور پھر اس کے بعد دوبارہ وفات اور دفن کی فصل قائم  کی گئیں ۔اس طرح تداخل اور بے ترتیبی کا تاثر پختہ ہوتا ہے۔یوں لگتا ہےکہ علامہ مسعودی کو اس کتاب کے حصہ سیرت کے مسودہ  پر نظر ثانی کرنے اور ترتیب دینے کا موقع نہیں ملا ہوگا  ،کیونکہ کتاب میں کسی بھی ایک موضوع پر یکجا مواد تلاش نہیں کیا جاسکتا ،بلکہ کتاب کے مختلف حصوں میں ایک موضوع سے متعلقہ مواد بکھرا ہوا ہے۔كتاب كے آخر پر دوبارہ مختصر سیرت کی فصل قائم کی گئی، جس میں زمانی ترتیب سے ولادت سے لے کر وفات تک، واقعات سیرت کو دہرایا گيا  اورصرف اس فصل میں زمانی ترتیب کو برقرار رکھا گیا ہے تاہم اس میں ہجرت  سے قبل کے واقعات کو رسول اللہ ﷺ کی عمر  مبارک کے ساتھ اور ہجرت کے بعد کے واقعات کوسال ہجری کی ترتیب سے بیان کیا ہے ۔ آخر کتاب پر معجزات اور جوامع الکلم کی فصول کا اضافہ کیا ہے۔ اس طرح ترتیب کے اعتبار سے  نه تو یہ موضوعی ترتیب ہے اور نہ ہی زمانی ترتیب ہے ۔

خ۔ کتاب کی خصوصیات

    1. علامہ مسعودی نے اپنی اس کتاب سیرت کو عالمی تاریخ کے تناظر میں بیان کیا ہے اور اور بعثت محمدی ﷺ کا تعلق سلسلہ انبیاء سے جوڑا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد رسول اللہ ﷺ کی بعثت تک کے زمانے کو زمانہ فترت سے تعبیر کیا ہے (3المسعودي، مروج الذهب ومعادن الجوهر ، ج2 ص 265۔

    2. سیرت کا ذکر اپنی طے کردہ ترتیب کے مطابق مکمل کرنے کے بعد دوبارہ مختصرترین سیرت کی ایک فصل شامل کی ہے ، جس میں زمانی ترتیب سے رسول اللہ ﷺ کی ولادت سے لے کر وفات تک کا احوال شامل کیا ہے(4یہ ایک الگ رجحان ہے، جو ہمیں بعد میں علامہ ابن حزم (جوامع السیرۃ) اور ابن الدیبع الشیبانی کے یہاں بھی ملتا ہے۔) ۔

    3. مسعودی کے یہاں متعلقہ فن کی کتب سے استفادہ کرنے کی روایت کا پتہ چلتا ہے۔انہوں نے سیرت کے عام واقعات کے بیان میں عموماً ابن اسحاق ، ابن ہشام ،واقدی اور طبری کے حوالے دیے ہیں اوراس کے علاوہ دیگر محدثین اور اہل سیرکی روایات بھی لائے ہیں۔رسول الله ﷺ کی عمر مبارک پر مختلف اختلافی اقوال کو محدثین کی اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے اور پہلے اپنی ترجیحی روایت تریسٹھ سال عمر شریف کا ذکر کیا ہے(5المسعودي، مروج الذهب ومعادن الجوهر ، ج2 ص 283۔) ۔  رسول اللہ ﷺ کے جامع  کلمات کی فصل میں ان کتب کا حوالہ دیا ہے، جو رسول اللہ ﷺ کے اقوال کے مجموعہ پر مشتمل ہیں۔جن میں ابو محمد بن الحسن بن دریدکی کتاب “المجتنى(6ابن دريد، أبو بكر محمد بن الحسن الأزدي (321ه)، المجتنى، دائرة المعارف العثمانية،ط: الثانية، 1382 / 1962۔) ” اور ابو اسحاق الزجاجی النحوی(7أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن السرى بن سهل الزجاج البغدادي (311ھ/ 923م) عہد عباسی میں بغداد کے نحو و ادب کے عالم اور متعدد کتب کے مؤلف ہیں جن میں معاني القرآن في التفسير اور تفسير أسماء الله الحسنى اہم ہیں۔ عباسی خلیفہ المعتضد بالله کے وزیر عبيد الله بن سليمان کے ساتھ وقت گزارا۔ أبو العباس محمد بن يزيد بن عبد الأكبر المبرد کے شاگرد خاص تھے اور ان کے تلامذہ میں أبو القاسم عبد الرحمن الزجاجي، صاحب كتاب الجمل في النحو، أبو العباس بن ولاد التميمي اور أبو جعفر النحاس شامل ہیں۔) اور ابو عبداللہ  نفطویۃ  (8ابو عبد الله إبراهيم بن محمد بن عرفة الأزدي (244 – 323 هـ = 858 – 935 م) ، جو مہلب بن ابی صفرہ کے پوتوں میں سے تھے، نحو میں امامت کے درجہ پر فائز اور مذھب سیبویہ کے حامی تھے۔ وہ فقیہہ اور ثقہ محدث اور رجال کے زبر دست عالم تھے۔ واسط میں پیدا ہوئے اور بغداد میں وفات پائی۔) کا ذکر کیا ہے۔جناب معد بن عدنان كے نسب كے ليے ارميا نبي عليه السلام كے كاتب باروخ بن ناريا  كي يادداشت كا حواله ديا هے(9المسعودي، مروج الذهب ومعادن الجوهر ، ج2 ص 267۔) ۔

    4. وہ اپنی دو کتابوں اخبار الزمان اور تاریخ الاوسط کا حوالہ دیتے ہیں،جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب ان کتابوں کے مباحث سیرت کا خلاصہ ہے۔ لکھتے ہیں

      “قال المسعودي: وقد أتينا على مبسوط هذا الباب، في كتابينا «أخبار الزمان(10المسعودي، أبو الحسن على بن الحسين بن على ( 346ه)، أخبار الزمان ومن أباده الحدثان، وعجائب البلدان والغامر بالماء والعمران، دار الأندلس للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، 1416هـ-1996م.مسعودی کا 278 صفحات پر مشتمل یہ مطبوعہ نسخہ اصل کتاب کا صرف ایک جزو ہے جو مکتبہ الملکیہ پیرس اور مکتبہ تیمور پاشا کے مخطوطات پر مبنی ہے اور مکمل کتاب ناپید ہے۔ مقدمه محقق، ص 14 ۔ اسي جلد اول كا ايك نسخه مكتبه ويانا ، آسٹريا ميں هونے كي اطلاع مروج الذهب كے دار الفكر بيروت سے محمد محي الدين عبد الحميد كي تحقيق سے 1973 م ميں شائع شدہ نسخه كے مقدمه محقق كے صفحه رقم 8 پر ديا گيا هے ۔) » والأوسط(11المسعودي، مروج الذهب ومعادن الجوهر ، ج2 ص 275۔)  ۔۔۔۔۔ وقد أتينا في كتابنا «أخبار الزمان» والكتاب الأوسط على ما كان في سنةٍ سنةٍ من مولده عليه السلام الى مبعثه، ومن مبعثه الى هجرته، ومن هجرته إلى وَفاته، ومن وفاته إلى وقتنا هذا (12نفس مصدر، ج2 ص 291۔اسي طرح ازواج مطهرات كے ذكر ميں لکھا هے: وقد أتينا على ذكر سائر أزواجه في الكتاب الأوسط، فأغنى ذلك عن إعادته(13نفس مصدر، ج2 ص 283۔) . مؤلف گرامی نے اپنی اس کتاب  کے حصہ سیرت میں اپنی مذکور  کتاب الاوسط کا پانچ بار اور اخبار الزمان کا دوبارحوالہ دیا ہے۔ اسی طرح اپنی دیگر کتب”كتاب الصفوة في الإمامة “ و” الاستبصار “و   ”الزاهي “کا حوالہ سیدنا علی ؓ ابن ابی طالب  کے اول الاسلام ہونے کی اختلافی بحث میں دیا ہے(14نفس مصدر، ج2 ص 277۔) ۔
    5. علامہ مسعودی تاریخوں کے تعین کے لیے عالمی واقعات سے زمانی موازنہ کرتے ہیں اور دنیا میں رائج دوسری تقویموں سے سے مددليتے ہیں۔ اصحاب الفیل کے مکہ میں قدوم کے سلسلہ میں تین تقویموں کا حوالہ دیا ہے ،جن میں ذوالقرنين کے عہد ، تاریخ العرب اور انوشیرواں کی تخت نشینی کی تقویم شامل ہیں۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی ضمن میں كسرى پرویز کی تخت نشینی ، یوم تحالف الربذہ  اور حضرت آدم علیہ السلام کے هبوط کی تقویم کا حوالہ دیا ہے۔پھر ہجرت کے سلسلہ میں کسرى پرویز کی تخت نشینی، هرقل قيصرروم کی تخت نشینی اور سکندر مقدونی كے عہد کا حوالہ دیا ہے(15نفس مصدر، ج2 ص273، 276۔)  ۔
    6. مؤلف نے بعض مقامات پر فقہی مسائل کے سلسله میں بھی  مختصر  اشارہ  کیا ہے:  مثلا ، نماز جمعہ کے متعلق مختصر گفتگو کہ آپ ﷺ نے بنی سالم میں اسلام کا پہلا جمعہ ادا فرما یا اور یہ لکھا کہ فقہا  کے درمیان باعث اختلاف ہے  کہ  نماز جمعہ کتنے نمازیوں کے ساتھ جائز ہے، شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ چالیس سے کم افراد کے ساتھ نماز جمعہ  جائز نہیں ، جبکہ  اہل کوفہ کا مؤقف اس کے بر عکس ہے    (16نفس مصدر، ج2 ص 279۔) ،حضرت میمونہ ؓکے نکاح کے متعلق  صرف اتنا لکھا کہ  اس میں اختلاف ہے کہ آیا رسول اللہ ﷺ نے ان سے حالت احرام میں نکاح فرمایا یا حلال ہونے کے بعد  اور اسی سے فقہا میں محرم کے نکاح پر اختلاف پیدا ہوا، تاہم مؤلف نے اس بحث میں کسی رائے کا سیرت یا فقہ کے باب میں ذکر نہیں کیا اوربحث بے نتیجہ چھوڑ دی (17نفس مصدر، ج2 ص 289۔)۔  بعثت كے ساتھ دو رکعات  نماز کی فرضیت اور بعد میں اس کے اتمام یعنی چار رکعات اور مسافر کے لیے دو رکعات کی رعایت کے برقرار رکھنے کا ذکر کیا ہے(18نفس مصدر۔ ج2 ص 276۔) ۔حضرت سیدہ زینب ؓبنت رسول اللہ ﷺ کی حضرت ابو العاصؓ کے پاس نکاح اول کے ساتھ واپسی کی روایت درج کر کے اس سلسلہ میں علما کے اختلاف کا ذکر بھی کیا ہے (19نفس مصدر، ج2 ص 291۔
    7. اهم واقعات سيرت ميں اختلاف روايت كي مختصر توجيهه یا توضیح  كا بھي اهتمام كرتے هيں مثلا غزوات کی تعداد کے ستائیس (27) یا چھبیس (26) ہونے پر اختلاف کی وجہ یہ بیان کی کہ خیبر سے واپسی پر رسول اللہ ﷺ نے وادی القریٰ کا قصد فرمایا ،تو بعض نے اسے خیبر کے ضمن میں ایک ہی غزوہ شمار کیا ہے اور  بعض نے ان دو کو الگ الگ شمار کرتے ہوئے غزوات کی تعداد ستائیس ذکر کی ہے(20نفس مصدر ، ج2 ص 280۔) ۔ اسی طرح جن غزات  میں لڑائی ہوئی ، ان کی تعداد کے بارے میں نو(9)کے ابن اسحق کے معروف قول کے برعکس واقدی کے گیارہ(11)کے قول کی وضاحت کی کہ ان میں وادی القریٰ اور غزوہ غابہ کو شامل کیا گیا ہے(21نفس مصدر، ج2 ص 282۔) ۔ حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کی وصال رسول اللہ ﷺ کے بعد زندہ رہنے کی مدت چالیس (40 ) دن كي روايت كو اپنے مقام پر راجح لکھا ہے(22نفس مصدر، ج2 ص 282۔) اور  آگے جا كر حضرت فاطمه ؓ كي عمر ،ان كي رسول الله ﷺ کے بعد زندہ رہنے کی مدت اور ان کا جنازہ  حضرت عباس ؓ یا حضرت علی ؓ کے پڑھانے پر اختلاف کا ذکر کیا ہے(23نفس مصدر، ج2 ص 292۔) ۔ اس كے علاوه متعدد اختلافات سيرت كي طرف اشاره كيا هے۔
    8. علامه مسعودي اختلافي اقوال ميں عموما اپني ترجيحی روایت  كو پہلے ذكر كرتے هيں، تاهم اختصار كي خاطر زياده اختلافي امور ذكر نهيں كيے ۔ رسول اكرم ﷺ کی عمر مبارک کے اختلاف پر متعدد اقوال کے ذکر کے بعد اختلافی اقوال و امور کو کم  ذکر کرنے كي وجه بيان كرتےهوئے  لکھتے ہیں کہ ہم نےاس اختلاف کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ لوگ جان لیں کہ ہم نے اس ضمن میں لوگوں کے اقوال سے غافل و بے خبر نہیں ہیں، لیکن ہم نے صرف ان باتوں کا ذکر (دیگر واقعات سیرت میں)کیا ہے، جو ضروری تھیں اور ان کی طرف صرف اشارہ کر دیا ہے،  کیونکہ ہمارا رجحان اختصار و ایجاز کی طرف ہے(24نفس مصدر ، ج2 ص 284۔) ۔
    9. قرآن حکیم كي مدنی سورتوں کی تعداد 32بیان کی گئی ہے (25نفس مصدر، ج2 ص 280۔
    10. رسول اللہ ﷺ کے 103 جامع کلمات کا ایک عمدہ انتخاب کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔
    11. کتاب کے حصہ سیرت کے ابتدائی مقدمہ میں ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل آپ کی نبوت کے دلائل پھیلے ہوئے تھے اور اسی ضمن میں حرب فجار  میں آپ ﷺ کی شرکت سے جنگ کا توازن قریش کی طرف ہو جانے کو  آپ ﷺکی نبوت کے دلائل اور آپ کی برکت کا اظہار قرار دیا ہے (26نفس مصدر، ج2 ص 286۔

د۔ نئی اور انفرادی معلومات

علامہ مسعودی دی نے کچھ نئی اور انفرادی معلومات مہیا کی ہیں، جو دیگر مختصر نگاروں کے یہاں نہیں پائی جاتیں،ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

      1. حجر اسود کی تنصیب کے وقت رسول اللہ ﷺ نے جو چادر بچھائی ،اسے رداء اور “کساء طارونی”(27نفس مصدر، ج2 ص 272۔)بتایا، یہ نام کسی اور نے ذکر نہیں کیا ۔

      2. حجر اسود کی تنصیب کے وقت چادر اٹھانے کی دعوت قریش کے چار زعماء کو دی ،ان کے نام درج کیے ہیں(28ايضا۔ ان زعما قريش کے نام یہ ہیں: عتبة بن ربيعه بن عبد شمس ، والأسود بن عبد المطلب ، وأبو حذيفة بن المغيرة بن عمرو بن مخزوم، وقيس بن عدي السهمي۔) ۔

      3. نبوت کو ایک معاصر تقویم تاریخ العرب سے جوڑا ہے جو اس وقت  216 تھی(29نفس مصدر، ج2 ص 274۔) ۔

      4. عمر مبارک کے چوتھے سال میں شق صدر ہوااور پانچویں میں واپسی کا ذکر کر کے ان دو واقعات کے درمیان ایک سال کا وقت دیا ہے ،جو کسی اور نے نہیں دیا (30نفس مصدر، ج2 ص 275۔

      5. مسعودی نے آپ ﷺ کی ولادت سے بعثت تک عمر شریف چالیس سال ایک دن درج کی ہے(31نفس مصدر، ج2 ص 273۔) ، اسی ایک دن  کے اضافہ کے قول کو محب الطبری نے غالبا مسعودی سے اخذ کیا ہے۔

      6. مسعودی نے لکھا ہے کہ جبریل علیہ السلام ہفتہ اور اتوار کی رات بھی آئے تھے ، لیکن نبوت سوموار کو ملی ہے(32نفس مصدر، ج2 ص 276۔) ۔

      7. حضرت ابو ایوب ؓ انصاری کے یہاں رسول اللہ ﷺ کی اقامت کا دورانیہ ایک ماہ بتایا ہے(33نفس مصدر، ج2 ص 280۔) ۔

      8. ایک جگہ حضرت خدیجہ کی وفات بعثت کے تین سال بعد لکھی ہے۔جو غالبا کتابت کی غلطی ہے (34نفس مصدر ، ج2 ص 282۔

      9. جناب ابوطالب کی وفات کو حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے تین دن بعد لکھا ہے (35ايضا۔)حالانکہ معروف روایت کے مطابق حضرت خدیجہ ؓ کی وفات جناب ابوطالب سے تین دن بعد ہوئی۔

      10. جناب ابوطالب کی عمر وفات کے وقت 49 سال آٹھ ماہ بیان کی ہے(36نفس مصدر، ج2 ص 283۔) ۔

      11. حرب فجار میں عبداللہ بن جدعان التیمی قریش کا سردار تھا (37 نفس مصدر، ج2 ص 286۔

      12. رسول اللہ ﷺ نے بنی سالم  میں جس وادی  کے بطن میں اسلام کا پہلا جمعہ ادا فرمایا ، اس کا نام وادی رَانُونَاءَ ہے (38نفس مصدر، ج2 ص 279۔

3 ۔ التنبيه والإشراف

طباعت:   ۔  دار الصاوي – القاهرة، مكتبة الشرق الإسلامية – القاهرة 1938 م۔

صفحات:   كل صفحات كتاب :  347، باب سيرت : 52 صفحات (ص 195 ۔ 246)

الف۔ توضيحى نوٹ:۔   التنبیہ والاشراف 1894ء میں لائیڈن سے پہلی بار شائع ہوئی۔ اس کا فرانسیسی میں ترجمہ 1897ء میں ہوا۔ اردو میں مولانا عبداللہ عمادی نے منتقل کیا جو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے 1926ء میں شائع ہوا۔ اسی ترجمے کو ڈاکٹر نصیب اختر کے مقدمے اور کچھ حواشی کے ساتھ 1967ء میں ایجوکیشنل پریس کراچی نے شائع کیا۔ ادارہ قرطاس نے اسے دوبارہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کےمعلومات افزا جامع مقدمہ کے ساتھ شائع کیا ہے(39http://www.bhatkallys.com/ur/articles/book-review/tabsirah-2/May 2020) ۔  مقاله ميں دار الصاوي کا مطبوعه نسخه پیش نظر ہے(40المسعودي ،أبو الحسن على بن الحسين بن على (346هـ)،التنبيه والإشراف (تحقيق: عبد الله إسماعيل الصاوي)، دار الصاوي، القاهرة۔)   ۔  التنبیہ والاشراف علامہ مسعودی کی دوسری اہم کتاب ہے، جو ان کی وجہ شہرت ہے۔ کتاب میں انہوں نے افلاک اور اس کی ہئیت ، نجوم اور اس کی تاثیرات، عناصر اس کی تراکیب اور زمین کے طول و عرض میں مختلف اقوام اور ان کے مساکن ،فارس اور روم کے بادشاہوں کی تاریخ،تاریخ عالم اور انبیاء کی تاریخ ،سیرت النبی ﷺ اور ظہور اسلام  اور خلفاء کی تاریخ ،ان کے اعمال اور ان کی خصوصیات ،سال 345 ہجری تک بیان کی ہیں۔ اس کتاب  میں 52 صفحات پر مشتمل سیرت کا بیان اس مقالہ کا حصہ ہے۔مسعودی نے التنبیہ والاشراف اپنی زندگی کے آخری برس میں تحریر کی اور اس میں اسلام کی ابتدائی صدیوں کے اہم واقعات بیان کردیے ہیں۔ مسعودی کی تاریخ نویسی میں تاریخوں کا تعین اور اس میں جغرافیائی معلومات کا شمول نہایت اہم ہے۔  بقول مسعودی التنبیہ والاشراف کا ایک مقصد یہ ہے کہ ساری گزشتہ تصانیف کا خلاصہ ہوجائے اور اس کتاب کے ذریعے دوسری تصانیف سے لوگ آگاہ ہوجائیں ۔مسعودی التنبیہ والاشراف کے شروع میں اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ ہم نے اپنی پہلی کتابوں میں رسول اللہ ﷺ کے احوال تفصیل سے ذکر کر دیے ہیں لیکن ہم نے اپنے اوپر اختصار اور ایجاز کی جو شرط رکھی ،اس نے ان معلومات کو اس کتاب میں دہرانے  سے باز رکھا  (41المسعودي (346هـ)،التنبيه والإشراف ،ج1 ص 195۔

ب۔ مضامین کا خلاصہ

التنبیہ و الاشراف کے دارالصاوی کےمطبوعہ نسخہ کے صفحہ نمبر 195 سے 246 تک سیرت کا بیان ہے۔علامہ مسعودی نے کتاب کے پہلے پانچ صفحات میں مکی زندگی کے اہم واقعات کو نہایت مختصر طور پر بیان كيا ہے۔ جس میں درج ذیل عنوانات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

رسول اللہﷺ کی نبوت کی علامات اور معجزات،جناب معد تک رسول اللہ ﷺ کا نسب ، آپ کی کنیت،والدہ ماجدہ کا نسب، اصحاب الفیل کی آمد،والد گرامی کی وفات،حضرت حلیمہؓ کا نسب،رضاعت، بنی سعد میں چار سالہ قیام،پانچ سال کی عمر میں والدہ کے پاس واپسی،سات سال کی عمر میں والدہ کی مدینہ سے واپسی پر وفات،دادا کی کفالت،آٹھ سال کی عمر میں دادا کی وفات،چچا کی کفالت ،13 سال کی عمر میں شام کا سفر،بیس سال کی عمر میں حرب فجار اور حلف الفضول میں شرکت،25 سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ کی تجارت کے لئے شام کا سفر اور حضرت خدیجہؓ سے شادی،35 سال کی عمر میں تعمیر کعبہ میں حجر اسود کی تنصیب کا فیصلہ،چالیس سال کی عمر میں  بعثت ،اولین مسلمانوں کی بحث، جس میں امامت پر بھی بحث شامل ہے،مکہ کا 13 سالہ قیام اور جناب ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات،طائف کا سفر،معراج،مدینہ کی طرف ہجرت کے موضوعات شامل ہیں۔اس کے بعد مدنی زندگی کے حالات و واقعات کو سنین کی ترتیب سے بیان کیا گیا ہے اور ہر سال کے اہم واقعات میں اس سال پیش آنے والے غزوات، اس سال میں وفات پانے والے اہم صحابہؓ کا ذکر،رسول اللہ ﷺ کی ازواج ؓ کا ذکر،7 ہجری کے واقعات میں رسول اللہ ﷺ کے سلاطین کی طرف جانے والے قاصد،  9 ہجری میں  جیش اسامہؓ کے ذکر کے بعد غزوات سرایا کی تعداد کے بارے میں تفصیلی گفتگو،رسول اللہ ﷺ کی وفات اور تدفین کے بعد آپ کے کاتبین کا ذکر اور ان کے فرائض کی نوعیت بیان کرکے سیرت کا بیان ختم کردیا ہے۔

پ۔ ترتیب کتاب

علامہ مسعودی نے مکی دور حیات کے نہایت مختصر بیان کے لیے موضوعی ترتیب اختیار کی ہے، جس میں زمانی ترتیب کا خیال رکھا ہے۔ہجرت کے واقعات کے فوراً بعد، مدنی دور میں ترتیب تبدیل کر لی اور اسے سنین کی ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ہر سال کا عنوان قائم کرکے اس کے تحت اس سال کے اہم واقعات ذکر کئے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کی طرف سے شاہان عالم کی طرف جانے والے قاصدوں کا بیان حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے قبل لایا گیا ہے اور اور آپﷺ کے کاتبوں کا ذکر سب سے آخری فصل میں شامل کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی علامات کو کتاب کے بالکل شروع میں آپ کے نسب کے بیان سے بھی پہلے بیان کر دیا گیا۔

ت۔ کتاب کی خصوصیات

مؤلف کےمنہج اور کتاب کی خصوصیات کا اندازمدنی دور کے واقعات سے ہوتا ہے، جس کے چند نکات درج ذیل ہیں۔

  1. ہر سال کے واقعات میں غزوات و سرایا،رسول اللہ ﷺ کا ازدواج،دیگر اہم شادیوں اور پیدائش کا ذکر کرتے ہیں۔

  2. غزوہ وہ کے بیان میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ سے باہر قیام کی مدت ،مدینہ میں آپ کے قائم مقام کا نام،غزوہ کے مقام کا مدینہ سے فاصلہ اور اس مقام کا جغرافیائی محل وقوع ، شرکاء کی تعداد اور غزوہ کا نتیجہ ذکر کرتے ہیں۔اسی طرح سریہ کا قائد ،اس کے شرکاء کی تعداد اور اس مہم کا نتیجہ ذکر کرتے ہیں۔

  3. اس کتاب میں علامہ مسعودی نے مختلف مقامات کی جغرافیائی معلومات کثرت سے شامل کی ہیں اور غزوات اور سرایا کے مقام کی حد بندی میں باریک بینی سے کام لیا ہے۔

  4. واقعات كي تاريخوں كے درست تعين ميں باريك بيني سے كام ليا هے اور مختلف واقعات سيرت كے درمياني عرصه كو دنوں ، مهينوں كے فرق سے شمار كيا هے، مثلا ولادت رسول الله ﷺ کو ملک نصر کے عہد کے سال 1317 کے دی ماہ کی آٹھ تاریخ،  اپریل کی بیس تاریخ  اور اصحاب الفیل کی مکہ آمد کےپنسٹھ( 65 )دن بعد بیان کیا ہے نیز اصحاب الفیل کی مکہ آمد اتوار پانچ محرم کا واقعہ بیان کیا ہے (42نفس مصدر، ج1 ص 196۔)۔ اسي طرح   تحويل قبله كي  منگل نصف شعبان كي تاريخ بيان كرتے هوئے، رمضان كے روزه كي فرضيت كے تيره (13) دن بعد كا واقعه لکھا ہے(43نفس مصدر، ج1 ص 203) ۔

  5. مکی زندگی کے لئے موضوعات کی ترتیب اور مدنی زندگی کے لیے زمانی ترتیب کا خیال رکھا ہے۔

  6. مختصرات سیرت میں شامل ہونے والے متعلقات سیرت کے اکثر ابواب اور فصول قائم نہیں کیں بلکہ  صرف  رسول اللہ ﷺکےقاصدوں اور کاتبین کا ذکر  شامل کیا ہے۔

  7. ازواج مطہرات ؓ کی الگ فصل کی بجائے ،کسی سال کے واقعات میں جہاں ازواج مطہراتؓ کے نکاح یا وفات کا زمانی ترتیب میں وقت آتا ہے ، وہیں انؓ کا مختصر ذکر کر دیتے ہیں۔

  8. رسول اللہ ﷺ کی اولاد میں سے صرف حضرت فاطمہؓ کے ازدواج اور حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کی وفات کا ذکر کیا ہے۔

  9. مؤلف گرامی نقد و نظر سے کام لیتے ہیں اور روایات کی توجیہہ پیش کرتے ہیں، مثلا سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کے قبول اسلام کے وقت عمر کی مختلف روایات جو پندرہ سال سے لے کر پانچ سال تک بیان کی گئی ہیں، کو درج کرنے کے بعد  ، مؤخر الذکر اقوال کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو آپ ؓ کے فضائل کو کم کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کا اسلام شک و یقین اور علم و معرفت سے نابلد ایک بچے کا اسلام قرار پائے (44نفس مصدر، ج1 ص 198۔)۔ اس كے بعد علامه موصوف نے مسئلہ امامت پر اہل تشیع، خوارج اور معتزلہ  کے فرقوں کے تصورات پر مختصر گفتگو کی ہے۔

  10. مؤلف گرامي عموما اپنا ترجیحی قول نقل کر کے کسی معاملہ میں اہل علم کے درمیان تنازع یا اختلاف کا محض ذکر کر دیتے ہیں مثلا شعب ابی طالب میں محصوری کی مدت ؛ معراج کی کیفیت وغيره ، تاهم کبھی کسی معاملہ میں روایات کے اختلاف کا ذکر کرتے  ہوئے  اختلافی اقوال کو ان کے قائلین سے منسوب کرتے ہیں، مثلا  اولين اسلام لانے والوں كي بحث ميں اختلافي اقوال كو قائلين سے منسوب كيا هے (45ايضا۔)۔   اسی طرح غزوہ بدر کے  17 يا 19 رمضان كو واقع هونے كے اختلاف اور اس ميں كفار كے قتليٰ کی تعداد کے اختلافی اقوال کو بھی سند سے بیان کیا ہے(46نفس مصدر ج1 ص 203۔) ۔

ج۔ نئی معلومات

التنبیہ والاشراف میں علامہ مسعودی نے مروج الذهب کی طرح کثرت سے نئی معلومات فراہم نہیں کیں، لیکن چند معلومات ایسی ہیں جسے ہم نئی اور انفرادی کہہ سکتے ہیں، ان کا ذکر حسب ذیل ہے ۔

  1. بہت سی جغرافیایی معلومات ایسی ہیں جو کسی اور مختصر نگار یا کسی مصنف کے ہاں نہیں پائی جاتیں، صرف مسعودی کی انفرادیت ہے۔

  2. کتاب کے حصہ سیرت کی ابتدا میں معجزات و دلائل نبوت کے تواتر سے صادر ہونے اورمؤلف کی دیگر کتب  میں تفصیل سے مذکور ہونے   کا  اجمالی ذکر کیا گیا ہے، جن میں سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے(47نفس مصدر، ج1 ص 195۔) ۔

  3. حضرت عبداللہ ؓ بن جحش کو مسلمانوں میں سے پہلا امیر المومنین کا لقب حاصل کرنے والا بتایا گیا ہے(48نفس مصدر ، ج1 ص 203۔) ۔

  4. رسول اللہ ﷺ کے خطوط کے ضمن میں لکھا ہے کہ آپ خط کی ابتدا قریش کی طرح “بسم الله” سے کرتے تھے، پھراس کے بعد قران پاک کے نزول سے بتدریج تبدیلی آئی اور “بسم الله الرحمن الرحيم” لکھا جانے لگا۔  لکھتے ہیں:

رسول اللہ ﷺ قریش کی طرح تحریر کی ابتدا میں «باسمك اللَّهمّ» لکھا کرتے  تھے تاآنکہ آیت ﴿وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا﴾  (49سورة هود : 41)نازل ہوئی تو آپ نے وہ لکھنا شروع فرما دی ،حتی کہ آیت مبارکہ﴿ قُلِ ادْعُوا الله أَوِ ادْعُوا الرَّحْمنَ أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى ﴾(50سورة الاسراء: 110)  نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے «بسم الله الرحمن» لکھنا شروع فرمایا، حتیٰ کہ  آیت مبارکہ ﴿ إِنَّهُ من سُلَيْمانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ﴾(51سورة النمل: 30)  نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے اسے لکھنا اختیار فرما لیا (52المسعودي (346هـ)،التنبيه والإشراف ، ج1 ص 225۔

  1. سرایا اور جیوش کی تعداد کے پیش نظر سریہ اور ديگر اصطلاحات کے اختلاف پرعمدہ معلومات فراہم کی ہیں، جو کسی اور کتاب میں نہیں ملیں۔  لکھتے ہیں کہ متعدد اہل حرب کی آرا سے استفادہ کے بعد یہ واضح ہوا کہ جو لشکر رات کو  روانہ ہو وہ سریہ جب که دن کے لشکر کو “سوارب” کہتے ہیں، نیز تین افراد سے لے کر  پانچ سو تک  کی نفری کو سریہ اور اس سے زیادہ آٹھ سو تک مناسر کہلاتی ہے اور ایک ہزار سے کم ہو تو خشخاش ، ایک ہزار کی نفری جیش الازلم ، چار ہزار افراد جیش الجحفل اور 12000 كي تعداد جيش الجرار ۔ اسي طرح افواج كي تنظيم سازي پر مفيد معلومات كو سريه كي بحث كا حصه بنايا گيا هے(53نفس مصدر، ج1 ص 243۔) ۔

  2. غزوات و سرایا کی تعداد کے سلسلے میں علامہ نے سیرت نگاروں کے اختلاف کی عمدہ توجیہ كی ہے ، لکھتے ہیں

میرے خیال میں اس تنازع کا سبب یہ ہے کہ بعض علما نے  کچھ سرایا کو شمار کیا ہے اور بعض دیگر نے انہیں شمار نہیں کیا کیونکہ وہ سرایا کسی مغازی کے تابع تھے ، تو بعض نے انہیں الگ شمار کیا اور بعض نے الگ شمار کرنے کی بجائے اسی غزوہ کے تحت ہی ذکر کر دیا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے  بہت سے غزوات میں کفار کی شکست کے بعد قریبی علاقوں میں متعدد سرایا بھیجے ، جیسا کہ خیبر  میں یا فتح مکہ کے بعد اطراف میں اصنام کے انہدام کے لیے سرایا روانہ فرمائے۔ اسی وجہ سے یہ اختلاف پیدا ہوا ہے(54نفس مصدر ، ج1 ص 242۔) ۔

  1. علامہ مسعودی نے ہجرت کے بعد کے سالوں کو درج ذيل مخصوص نام دیئے ہیں، جو صرف ان کے ہاں ملتے ہیں  ۔

سال ہجری

سنین کے نام

ھ 2

سنة الأمر

3 ھ

سنة التمحيص

4 ھ

سنة الترفيه

5 ھ

سنة الأحزاب

6 ھ

سنة الاستئناس

7 ھ

سنة الاستغلاب

8 ھ

سنة الفتح

10 ھ

سنة «حجة الوداع

11 ھ

سنة الوفاة

چ۔ معلومات کی غلطی
ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ کو رسول اللہ ﷺ سے ازدواج سے قبل حضرت عبداللہ ؓ بن جحش کے پاس ہونا بیان کیا ہے(55نفس مصدر، ج1 ص 223) ، جو غلطی ہے، کیونکہ وہ ان کے بھائی عبید اللہ بن جحش کے عقد میں تھیں۔

4 ۔ خلاصہ کلام

1. علامه ابي الحسن علي بن الحسين بن علي المسعودي ( 346 ھ ) كي كتاب مروج الذهب ومعادن الجوهر دو بڑے حصوں پر مشتمل اہم کتاب ہے جس کے دوسرے حصہ میں سیرت کا مختصر باب موجود ہے۔ علامہ مسعودی نے کتاب کی ترتیب موضوعی رکھی ہے، جس میں ذیلی طور پر زمانی ترتیب کا خیال رکھنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم مؤلف اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور کتاب کے مضامین میں کافی بے ترتیبی ہے، تاہم آخر پر دوبارہ مختصر سیرت کی فصل قائم کی گئی، جس میں زمانی ترتیب سے ولادت سے لے کر وفات تک، واقعات سیرت کو دہرایا ہے۔ ۔ کتاب کا حصہ سیرت اپنی ترتیب میں نقائص کے باوجود بہت اہم ہے، کیونکہ اس میں نادر اور قیمتی معلومات پائی جاتی ہیں ،جو دوسرے مختصرات میں نہیں ملتیں۔ سیرت کے مختلف واقعات کی زمانی تحدید کا اہتمام اس کتاب کی اہم خوبی ہے ،جو اسے دوسری کتب سے ممتاز کرتی ہے۔

مقالہ کی اصل کا مطالعہ کرنے کے لیے کلک کریں

علی بن حسین المسعودی(346 ھ) کی کتب سیرت کےمطالعہ کے لیے ذیل کے لنک کو کلک کیجئے

  • 1
    مؤلف کے تفصيلي حالات کے لیے دیکھیے: الكتبي،محمد بن شاكر ، فوات الوفيات (محقق : إحسان عباس)، دار صادر، بيروت، 1974م، (عدد الأجزاء:4)،ج 2 ص 94۔ و۔ ابن النديم،أبو الفرج محمد بن إسحاق البغدادي المعتزلي الشيعي (438ه)، الفهرست، (محقق: إبراهيم رمضان)،دار المعرفة بيروت، ط: الثانية، 1417 هـ / 1997 مـ، (عدد الأجزاء: 1)، ص 219۔
  • 2
    المسعودي ،أبو الحسن على بن الحسين بن على (346هـ)، مروج الذهب ومعادن الجوهر (تحقيق: أسعد داغر)، دار الهجرة – قم،1409هـ۔
  • 3
    المسعودي، مروج الذهب ومعادن الجوهر ، ج2 ص 265۔
  • 4
    یہ ایک الگ رجحان ہے، جو ہمیں بعد میں علامہ ابن حزم (جوامع السیرۃ) اور ابن الدیبع الشیبانی کے یہاں بھی ملتا ہے۔
  • 5
    المسعودي، مروج الذهب ومعادن الجوهر ، ج2 ص 283۔
  • 6
    ابن دريد، أبو بكر محمد بن الحسن الأزدي (321ه)، المجتنى، دائرة المعارف العثمانية،ط: الثانية، 1382 / 1962۔
  • 7
    أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن السرى بن سهل الزجاج البغدادي (311ھ/ 923م) عہد عباسی میں بغداد کے نحو و ادب کے عالم اور متعدد کتب کے مؤلف ہیں جن میں معاني القرآن في التفسير اور تفسير أسماء الله الحسنى اہم ہیں۔ عباسی خلیفہ المعتضد بالله کے وزیر عبيد الله بن سليمان کے ساتھ وقت گزارا۔ أبو العباس محمد بن يزيد بن عبد الأكبر المبرد کے شاگرد خاص تھے اور ان کے تلامذہ میں أبو القاسم عبد الرحمن الزجاجي، صاحب كتاب الجمل في النحو، أبو العباس بن ولاد التميمي اور أبو جعفر النحاس شامل ہیں۔
  • 8
    ابو عبد الله إبراهيم بن محمد بن عرفة الأزدي (244 – 323 هـ = 858 – 935 م) ، جو مہلب بن ابی صفرہ کے پوتوں میں سے تھے، نحو میں امامت کے درجہ پر فائز اور مذھب سیبویہ کے حامی تھے۔ وہ فقیہہ اور ثقہ محدث اور رجال کے زبر دست عالم تھے۔ واسط میں پیدا ہوئے اور بغداد میں وفات پائی۔
  • 9
    المسعودي، مروج الذهب ومعادن الجوهر ، ج2 ص 267۔
  • 10
    المسعودي، أبو الحسن على بن الحسين بن على ( 346ه)، أخبار الزمان ومن أباده الحدثان، وعجائب البلدان والغامر بالماء والعمران، دار الأندلس للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، 1416هـ-1996م.مسعودی کا 278 صفحات پر مشتمل یہ مطبوعہ نسخہ اصل کتاب کا صرف ایک جزو ہے جو مکتبہ الملکیہ پیرس اور مکتبہ تیمور پاشا کے مخطوطات پر مبنی ہے اور مکمل کتاب ناپید ہے۔ مقدمه محقق، ص 14 ۔ اسي جلد اول كا ايك نسخه مكتبه ويانا ، آسٹريا ميں هونے كي اطلاع مروج الذهب كے دار الفكر بيروت سے محمد محي الدين عبد الحميد كي تحقيق سے 1973 م ميں شائع شدہ نسخه كے مقدمه محقق كے صفحه رقم 8 پر ديا گيا هے ۔
  • 11
    المسعودي، مروج الذهب ومعادن الجوهر ، ج2 ص 275۔
  • 12
    نفس مصدر، ج2 ص 291۔
  • 13
    نفس مصدر، ج2 ص 283۔
  • 14
    نفس مصدر، ج2 ص 277۔
  • 15
    نفس مصدر، ج2 ص273، 276۔
  • 16
    نفس مصدر، ج2 ص 279۔
  • 17
    نفس مصدر، ج2 ص 289۔
  • 18
    نفس مصدر۔ ج2 ص 276۔
  • 19
    نفس مصدر، ج2 ص 291۔
  • 20
    نفس مصدر ، ج2 ص 280۔
  • 21
    نفس مصدر، ج2 ص 282۔
  • 22
    نفس مصدر، ج2 ص 282۔
  • 23
    نفس مصدر، ج2 ص 292۔
  • 24
    نفس مصدر ، ج2 ص 284۔
  • 25
    نفس مصدر، ج2 ص 280۔
  • 26
    نفس مصدر، ج2 ص 286۔
  • 27
    نفس مصدر، ج2 ص 272۔
  • 28
    ايضا۔ ان زعما قريش کے نام یہ ہیں: عتبة بن ربيعه بن عبد شمس ، والأسود بن عبد المطلب ، وأبو حذيفة بن المغيرة بن عمرو بن مخزوم، وقيس بن عدي السهمي۔
  • 29
    نفس مصدر، ج2 ص 274۔
  • 30
    نفس مصدر، ج2 ص 275۔
  • 31
    نفس مصدر، ج2 ص 273۔
  • 32
    نفس مصدر، ج2 ص 276۔
  • 33
    نفس مصدر، ج2 ص 280۔
  • 34
    نفس مصدر ، ج2 ص 282۔
  • 35
    ايضا۔
  • 36
    نفس مصدر، ج2 ص 283۔
  • 37
    نفس مصدر، ج2 ص 286۔
  • 38
    نفس مصدر، ج2 ص 279۔
  • 39
    http://www.bhatkallys.com/ur/articles/book-review/tabsirah-2/May 2020
  • 40
    المسعودي ،أبو الحسن على بن الحسين بن على (346هـ)،التنبيه والإشراف (تحقيق: عبد الله إسماعيل الصاوي)، دار الصاوي، القاهرة۔
  • 41
    المسعودي (346هـ)،التنبيه والإشراف ،ج1 ص 195۔
  • 42
    نفس مصدر، ج1 ص 196۔
  • 43
    نفس مصدر، ج1 ص 203
  • 44
    نفس مصدر، ج1 ص 198۔
  • 45
    ايضا۔
  • 46
    نفس مصدر ج1 ص 203۔
  • 47
    نفس مصدر، ج1 ص 195۔
  • 48
    نفس مصدر ، ج1 ص 203۔
  • 49
    سورة هود : 41
  • 50
    سورة الاسراء: 110
  • 51
    سورة النمل: 30
  • 52
    المسعودي (346هـ)،التنبيه والإشراف ، ج1 ص 225۔
  • 53
    نفس مصدر، ج1 ص 243۔
  • 54
    نفس مصدر ، ج1 ص 242۔
  • 55
    نفس مصدر، ج1 ص 223
Leave a Comment

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *