منہج حرکی:سیرت نگاری کا جدید رجحان

مقالہ # 5

1. موضوع کاتعارف ،اہمیت اور پس منظر

قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ)( 1 الاحزاب ۳۳:۲۱)  فرما کر رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کو ہمارے لیے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ قرآن حکیم اور صاحب قرآن کی سیرت کی مکمل حفاظت کا اہتمام اللہ تعالی کی طرف سے کیا گیا۔ قرآن حکیم کے پیغام کو سمجھنے کے لیے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس کے احکامات کی تفسیر و تشریح کے لیے، سنت اور سیرت طیبہ سے بڑھ کر کوئی اور رہنما نہیں ہو سکتا تھا۔لہذا سیرت نبوی ﷺ پر ہر وقت کے علماء نے کتب لکھیں اور اپنے اپنے زمانے کو سیرت رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں دیکھااور ہدایت پائی اور اپنی خوش بختی اس بات میں سمجھی کہ انہیں سیرت پر قلم اٹھانے کی توفیق نصیب ہوئی۔ چنانچہ دور صحابہؓ سے لے کر آج تک بیشمار کتب ہر دور میں لکھی گئیں۔اس کے علاوہ سیرت نگا ری میں عمل تکثیر کا تعلق قرآ ن پاک کے فر مان (وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ)( 2الشرح ۹۴: ۴)سے نہا یت قو ی ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی محبت چو نکہ ایمان کی علا مت اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذ ر یعہ بھی ہے اس لیے بھی ہر دو ر کی طر ح اس دور میں بھی علما ء کی کو شش رہی کہ وہ سیرت کی زیا دہ سے ز یا دہ خدمت کر یں۔ اسکےعلاوہ دیگر اسباب نے ملکر دور حاضر میں سیرت نگاری کو نئی جہتوں اور رجحانات سے آشنا کیا۔
سیرت نگاری کے جدید رجحانات کا تعلق دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں واقع ہونے والی اہم سیاسی اور تاریخی تبدیلیوں سے بھی ہے، جن میں استعمار کا بیشتر مسلم ممالک پر قبضہ اور اور بعد ازاں خلافت جیسے مرکزی ادارہ کا خاتمہ شامل ہیں۔ خلا فت کے خا تمہ نے مسلم د نیا پر بے پنا ہ اثرا ت مر تب کیے ۔مسلم دنیا جو سیا سی طو پر پہلے ہی یو ر پی استحصال کا شکا ر تھی ۔جذ با تی اور رو حا نی طو ر پر بھی مفلو ج ہو کر رہ گئی ۔لیکن تا ر یخی حقیقت یہ ہے کہ اس قو م کے مزا ج میں اللہ تعالیٰ نے مستقل غلا می اور شکست پر قنا عت نہیں لکھی ۔اور یہ قوم صا حبان فکر و نظر کے و جو د سےکبھی بھی خالی نہیں ر ہتی ۔لہذا امت میں ایسے لوگ پیدا ہو ئے جنھو ں نے مسلم قوم کی نشاۃ ثا نیہ کا خواب د یکھا اور اس کی تکمیل میں لگ گئے ۔ انڈونیشیا سے لے کر مصر تک بیک وقت اسلامی دنیا میں آزادی اور احیائے اسلام کی تحریکات وجود میں آنے لگیں( 3اسرار احمد،ڈاکٹر ،منھج ا نقلاب نبوی،انجمن خدام القرآن،لاہور،ط ۱۳،۲۰۱۱، ص۱۱)، حتی کہ مغربی ممالک کے اندر بھی ایسی تنظیمات کی بناء رکھی گئی ۔ مثلاً پیرس میں ۱۹۰۵؁ء میں” الحرکۃ السلفیہ” کی بناء رکھی گئی۔ ( 4احمد الموصلی ، الدکتور، موسوعۃ الحرکات الاسلامیۃ فی الوطن العربی و ایران و ترکیا۔کانون الثانی، بیروت، ۲۰۰۴، ص۷) اس سے قبل جمال الدین افغانی “العروۃ الوثقی”کے ذریعے بیداری کا پیغام عام کر چکے تھے۔ جمال الدین افغانی کے اثرات اور دیگر عوامل کے ملنے سے ہی مصر میں اخوان ا لمسلمون کی بناء پڑی، جو دیگر بہت ساری تحریکات کیلئے مؤجب تحرک بنی۔ ایک اور تحریک “جماعت اسلامی” بر صغیر کے مخصوص سیاسی وتجدیدی حالات سے احیائے اسلام کا علم لے کر اٹھی اور اپنے اثرات اورعالمی نقطہ نظر کے اعتبار سے وقت کی اہم تحریکات میں شامل ہوگئی۔ علاوہ ازیں یورپ میں قومی حکومتوں کے وجود ، ایشیا اور افریقہ میں بعد از استعمار وطنی ریاستوں کے ابھرنے اور جمہوریت کےبین الاقوامی سطح پر، مسلمہ اصول تسلیم کیے جانے کے بعد مطالعہ سیرت کی ایک ایسی جہت سامنے آئی ،جس میں نبی پاک ﷺ کی زندگی کو سیاسی و انقلابی جدوجہد کے ادوار میں تقسیم کر کے دیکھا اور پڑھا جانے لگا۔اوراس سے سیاست کے اہم اصول وضع ہونے لگے، تاکہ خلافت کے خاتمہ کے بعد مسلمان اپنا سیاسی لائحہ عمل تیار کر سکیں۔اس سے ایک اہم مقصد یہ بھی حاصل کرنا مقصود تھا کہ اسلامی تحریکیں سیرت کی روشنی میں اپنے کارکنوں کی تربیت کر سکیں۔ اس رجحان کو سیرت نگاری کا ” حرکی رجحان” کہا جاتا ہے۔
منہح سے مراد راستہ ، طریقہ اور روش کے ہیں( 5 المنجد عربی اردو ،دارالاشاعت،کراچی ،1975،مادہ ن۔ھ۔ج)، جبکہ حرکی عربی گرائمر کی رو سے صفت نسبتی ہے۔ جس کی جمع حرکیات ہے اور اس کا مطلب و معنیٰ حرکت پذیر، متحرک وغیرہ کے ہیں۔یہ سیرت نگاری کا ایک ایسا طریقہ ہے،جس میں سیرت نبوی ﷺکے حرکی و سیاسی پہلو کو مدنظر رکھا جاتا ہے یا ان اقدامات کا قدم بہ قدم مطالعہ کیا جاتا ہے جن کو بروئے کار لاتے ہوئے آنحضرتﷺ نے اسلام کو اپنے خاندان سے آغاز فرما کر تمام عرب اور بیرون عرب تک پھیلایا اور بڑھایا۔ ڈاکٹر منیر محمد الغضبان المنہج الحرکی کی تشریح یوں کرتے ہیں۔
(۱)۔ الخطوات المنهجية التي تحرک بها النبی مند بعثة حتی انتقل الی الرفیق الاعلی
(۲)۔ هو من جهت ثانية تبصرة للحرکة الاسلامية فی خطها السیاسی للوصول الی اهدافها فی اقامة حکم الله فی الارض(6الغضبان،منیر محمد ،د۔المنھج الحرکی للسیرۃ النبویۃ، مکتبۃ المنار اردن، (س۔ن) ص ۷۵
منہج حرکی میں بعض جدید اصطلاحات مثلاً حرکت، تحریک اور انقلاب کا استعمال عام ہے اور ان ہی اصطلاحات کے آئینہ میں سیرت کو دیکھا جاتا ہے، اس منہج کی کتب کو پیش نظر رکھ کر مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”منہج حرکی سے مراد سیرت نگاری کا ایسا جدید اسلوب ہے ،جس میں نبی پاکﷺ کی زندگی کو آپ کے مشن کے تناظر میں ایک تحریک یا انقلاب کے کامل نمونہ کے طور پر پڑھا اور بیان کیا جاتا ہے۔ آپ کے ان تمام اقدامات ، جن کا تعلق دین کی نشرو اشاعت اور غلبہ و تمکن سے ہے، کا مرحلہ بہ مرحلہ مطالعہ،اس غرض سے کیا جاتا ہے کہ جدید دور کی اسلامی احیائی تحریکیں ، اس سے اپنے لائحہ عمل کیلئے اسوہ حاصل کر سکیں اور اپنے کارکنان کی تربیت کر سکیں۔نیز اس منہج کے تحت سیرت نبویؐ کے سیاسی پہلوؤں کا جدید سیاسی حرکیات و اصطلاحات کی روشنی میں تحقیقی مطالعہ بھی کیا جاتا ہے تاکہ بعثت نبوی ﷺ کی آفاقیت کو ثابت کیا جائے(7محمد علیم، منہج حرکی سیرت نگاری کا جدید رجحان ۔تحقیقی مطالعہ، مقالہ ایم ۔فل علوم اسلامیہ،(غیر مطبوعہ) علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، ۲۰۱۳، ص ۳۶۲ )”۔

2. اسباب و محرکات

یہ رجحان اس وقت کا مقبول رجحان ہے ۔جس پر برصغیر، مغرب اور عالم عرب میں بیسیوں کتب آ چکی ہیں۔اس رجحان کے درج ذیل اہم اسباب ہیں۔

(۱)۔ مغربی، سیاسی وانقلابی اصطلاحات کا چیلنج

منہج حرکی مغربی استعمار و استیلاء کے خلاف ردعمل کی ایک کیفیت کے اظہارکا ذریعہ ہے۔ڈاکٹر سجاد احمد رقمطرازہیں:
بیسویں صدی عیسوی میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد عالمِ اسلام پر سامراجی قوتوں کا غلبہ ہو گیا۔ یورپی افکارو نظریات نے مسلمانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ مسلم معاشرہ اور نوجوان، مغربی تہذیب وتمدن کی ظاہری چمک دمک کے دام میں گرفتار ہو گئے۔ تمام مسلم ممالک اغیار کی ذہنی وعملی غلامی میں مبتلا ہوگئے، سیاسی، معاشی، تہذیبی اور دینی زوال کے سبب نئی نسل دینی شعار اور اسلامی تہذیب وتمدن سے کوسوں دور ہوئی۔ ان حالات میں سامراجی قوتوں نے اسلامی نظامِ حکومت ختم کر کے سامراجی طرزِ حکومت کو جاری وساری کر دیا۔ رنگ و نسل اور قوم و وطن، زبان و علاقہ کے تعصبات کو ابھار کر مضبوط اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔اس اضطرابی حالت میں دین اسلام کا درد رکھنے والوں نے آگے بڑھ کر نشاۃ اسلام کے لیے عالمِ اسلام میں دعوتی و اصلاحی تحریکوں کا آغاز کیا، ان تحریکوں نے دعوت وتجدید کا بیڑا اُٹھایا، امت کی فکری و عملی رہنمائی کی اور شکست خوردگی کا احساس ختم کیا، مسلمانوں کے اندر خودداری و اعتماد کو پروان چڑھایا، اور ملت اسلامیہ کے احیاء اور اقامت دین کے عملی نفاذ کو اپنا منشور بنایا اور آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع کرتے ہوئے اسلامی دعوتی تحریکات نے ایسا دعوتی و اصلاحی لٹریچرتیار کیا جوسیرت رسول ﷺ سے مستنیرتھا۔خصوصاً رسول اللہ ﷺ کی مکی و مدنی زندگی کے مختلف مراحل دعوت کو پیش نظر رکھا گیا۔(8غازی ،محمود احمد، ڈاکٹر،محاضرات سیرت،الفیصل ناشران، لاہور،ط سوم ۲۰۰۹،ص۶۵۰  )

(۲)۔ احیائی تحریکوں کی ضرورت

سیرت نگاری کا یہ جدید رجحان اسلامی نشأۃ ثانیہ کیلئے کام کرنے والی تحریکوں کی نہ صرف بنیادی تربیتی ضرورت ہے بلکہ اجتماعی رہ نمائی کیلئے رول ماڈل کے خد وخال بھی واضح کرتا ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی رقمطراز ہیں: ۔
“بیسویں صدی مسلمانوں میں تجدید اور احیاء کی تحریکات کا دور ہے۔ بہت سی اسلامی اور دینی تحریکات مشرق مغرب اور عرب وعجم میں سامنے آئیں ۔جن کی کوشش یہ تھی کہ اسلامی روایات کو زندہ کر کے مسلمانوں کا احیاء کیا جائے ۔ اسلامی معاشرہ اور ریاست کا احیاء کیا جائے ۔ قدیم اسلامی آئیڈیل کے مطابق مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کی جائے۔ اس تجدیدی اور احیائی ماحول میں سیرت نبی ﷺ پر ایک نئے انداز سے غور وخوض شروع ہوا۔ سیرت نبی ﷺ کے رول ماڈل ہونے کو نمایا ں کیا گیا۔ اس سے کام لے کر تجدیدی اور احیائی ادب نے سیرت میں ایک نئی معنویت پیدا کی”(9غازی ،محمود احمد، ڈاکٹر،محاضرات سیرت،الفیصل ناشران، لاہور،ط سوم ۲۰۰۹،ص۶۵۰ )
ڈاکٹر ابو الخیر کشفی لکھتے ہیں: ۔
“عہد حاضر کے تقاضوں نے سیرت نگاری کے اسلوب کو متاثر کیا ہے۔ حضورﷺ کی دعوت اور عالم انسانیت کے لئے آپﷺ کی سیرت کی اہمیت پر سر سید سے سید سلیمان ندوی تک ہمارے ارباب قلم نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ہمارے دور میں قیام نظام اسلامی کے لئے جو عملی جدو جہد کی جارہی ہے اس کی وجہ سے اسلامی تحریکوں کے وابستگان دامن کے لئے سیرت رسولﷺ ایک تسلی اور ایک تشفی بلکہ ایک بشارت بن گئی ہے”(10 کشفی ، ابو الخیر ،اردو میں سیرت نگاری ، مشمولہ نقش سیرت ، مرتبہ نثار احمد ، ادارہ نقش تحریر کراچی، ۱۹۶۸، ص۷۵ )

(۳) ارتقاء سیرت کی ایک کڑی

  وقت کے سا تھ سا تھ زند ہ علو م اپنے ارتقا ء کی منا زل طے کر تے رہتے ہیں اور مختلف اندرونی وبیرونی اثرات قبو ل کر کے مختلف رجحانا ت واسالیب اختیار کر تے رہتے ہیں۔ علم سیر ت مسلما نوں اور غیر مسلموں کی یکساں تو جہ کا مر کز ہے اور ہر زمانہ میں مقبول ومتداول رہا ہے ۔یہ علم اقتضاء زما نہ سے بہت متا ثر ہو تا ہے۔( 11شاہ علی ،ڈاکٹر،اردو میں سوانح نگاری۔گلڈ پبلشنگ ہاؤس، کراچی،۱۹۶۱،ص۲۱۳) بیسویں صدی میں علم سیر ت نے درجنو ں نئے اسا لیب ورجحا نا ت اختیار کیے ۔دور جد ید میں علما ء نے سیرت کے ایسے ایسے پہلو قارئین کے سا منے رکھے جن کی طر ف گز شتہ تیرہ سو سا ل میں محققین اور سیر ت نگا روں کی تو جہ نہیں ہو ئی۔( 12غازی ، محمود احمد،محولہ بالا، ص ۶۴۶)ان میں سے ایک رجحان، حر کی رجحان بھی ہے۔ ڈاکٹر محمدشکیل صدیقی لکھتے ہیں: ۔
“سیر تی ادب میں انقلا بی وتحریکی رجحا ن کا محر ک وہ سیا سی ونظر یا تی وفکر ی ارتقا ئی عمل ہے جس نے سیرت نگا ری میں نہ صرف نئے رجحان متعا رف کر وائے بلکہ سیر ت رسول ﷺ سے مسلما نو ں کے مسا ئل ومشکلا ت کے حل کے لیے علمی، عملی اور فکر ی رہ نما ئی کا سا مان بھی فراہم کیا”(13صدیقی،شکیل احمد ،ڈاکٹر،اردو سیر ت نگا ری ۔انقلا بی وتحریکی رجحا ن ۔معا رف مجلہ تحقیق جو لا ئی ۲۰۱۲،ص۱۶۳ )

(۴) مستشرقین کے اثرات

مستشر قین نے ہما رے ہا ں کے تما م علو م وفنو ن اور معا شرتی وتہذیبی رویوں پر اثرات مر تب کیے ہیں۔منہج حرکی میں چو نکہ اسلا م کو بطور تحریک اور انقلا ب کے دیکھا جا تا ہے ۔اور نبی پاک ﷺ کی دعوت کی مرحلہ بہ مر حلہ اس طر ح تشریح کی جا تی ہے کہ وہ تحرک، تد بر، تدریج اور ارتقا ء ریاست کی آئینہ دار ہو جا تی ہے۔اس میں بعض اوقا ت سیر ت نگار یا قا ری کی نظروں میں بقول ناقدین، نبی پاک ﷺ کا منصب نبو ت پس منظرمیں چلاجا تا ہے۔( 14اسرار احمد ،ڈاکٹر، اسلام کی نشأۃ ثانیہ۔ انجمن خدام القرآن، لاہور، ط۱۵، ۲۰۱۱،ص ۱۶) اور تدبر وتحرک اور سیاسی وسفارتی اقدامات پورے ماحول پر چھائے ہوئے لگتے ہیں۔سیر ت کی سیا سی اور حر کی جہت پر مبا لغہ آمیز حد تک زور دینے والے مسلم سیرت نگاروں پرمستشر قین کی ان تحریر وں کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں، جن میں انہوں نے نبی پا کﷺ کی نبوت کا اقرار کرنے کی بجائے، آپ ﷺ کے سیا سی تد بر کا واضح اعتراف کیا ہے، اور حقیقت نبو ت پر پردہ ڈالتے ہو ئے نبی پا ک ﷺ کا دنیا کے عظیم مصلحین اور قا ئد ین سیاست سے موازنہ کیا ہے ۔ ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں کہ یہ ان کا پسندیدہ مو ضوع ہے( 15صدیقی، یٰسیں مظہر، ڈاکٹر،سیرت نبوی پرمغربی مصنفین کی انگریزی تصانیف۔سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علی گڑھ، جولائی۔ستمبر ۱۹۸۴،ص۲۸۷) مستشر قین کی آنحضور ﷺ کو محض ایک مصلح ثابت کر نے کی کو شش کے اثرات ہمارے پرانے اور نئے سیرت نگاروں نے قبول کیے ۔ یہ اثرات ہمیں چراغ علی کے یہا ں سب سے پہلے نظر آتے ہیں۔ عزیز احمد لکھتے ہیں: ۔
“تا ریخی پس منظر میں رسول ﷺ کے کا رمنصبی کے متعلق چراغ علی کا بیان بنیا دی طور پر اسلا م کے ہم درد علما ء مغر ب مثلا ً سر ہملٹن گب کی نگا ر شا ت سے مختلف نہیں ہے ۔وہ نبی ﷺکو اولاً ایک مصلح قرار دیتے ہیں، جس نے قدیم عربوں کے توہما ت کی جگہ وحد انیت کو دے دی ، عر بو ں اور دوسری اقوام کے اخلا قی معیا ر کو بلند کر دیا اور تعدداز دواج کو محدود کر کے عورتو ں کے مقدر کو بہتر بنا دیا ،غلا می کی حوصلہ شکنی کی اور بچیوں کے قتل کا انسداد کیا “( 16 عزیز احمد ،پروفیسر،بر صغیر میں اسلامی جدیدیت،(ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی) ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور،۲۰۰۶،ص98 بحوالہ تحقیق الجہاد ص،78)
سیدامیر علی بھی مغربی سیر ت نگا روں کی طرح حضر ت محمدﷺ کی دوجداگانہ حیثیتوں یعنی پیغمبر اور مد بر ہونے کی دوہری شخصیت ،کو تسلیم کر تے ہیں ۔انہوں نے آپﷺ کی حیا ت طیبہ اور انتظامی امور کی ایک فہر ست تر تیب دی ،جس میں آپ کے فیصلوں کو بجا ئے پیغمبر انہ ہونے کے، مد بر انہ گردانا ہے۔( 17Syed Ameer Ali, The Spirit of Islam, Cosimo classic, New York, 2010. PP 281-283 ایضاً،ص137 ۔بحوالہ) آنحضور ﷺ کے صر ف دنیاوی کا موں کی تحسین کر تے ہو ئے مصلح کہنے کی مثال ہمیں مولاناالطاف حسین حالی کے یہاں بھی ملتی ہے، لکھتے ہیں: ۔
“کیا یہ با ت خیا ل میں آسکتی ہے کہ جس شخص (آنحضور ﷺ ) نے اس نہا یت نا پسند اور حقیر بت پرستی کے بد لے ،جس میں اس کے ہم وطن مد ت سے ڈوبے ہو ئے تھے۔ خدائے واحد بر حق کی پرستش قا ئم کر نے سے بڑی بڑی دائم الا ثراصلا حیں کیں مثلا ً دختر کشی کو موقوف کیا ،نشے کی چیزوں کے استعمال کو اور قمار با زی کو ،جس سے اخلا ق کو بہت نقصا ن پہنچتا ہے ،منع کیا ، بہتا ت سے کثرت از دواج کا اس وقت رواج تھا، اس کو بہت کچھ گھٹا کر محدود کیا ۔ غر ض، کیاایسے بڑے سر گر م مصلح کو ہم فر یبی ٹھہر ا سکتے ہیں؟ اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس شخص کی تما م کا روائی مکر پر مبنی تھی” (18حالی ،الطا ف حسین ،تاریخ محمدی پرمنصفا نہ رائے ،قلمی نسخہ مخرونہ ،شیخ محمد اسما عیل پا نی پتی ۔ ص ۲۳بحوالہ خالد، انورمحمود،ڈاکٹر،اردو نثر میں سیرت رسولﷺ،اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،۱۹۸۹،ص ۳۷۵
منہج حرکی کا ایک ذیلی رجحان واقعات سیرت کوقرآن حکیم کے نزول کے مر احل کی روشنی میں دیکھنا اور اس سے تحر یک اسلا می، انقلا ب یا سیا سی عمل کے مراحل وادوار کا تعین کر نا بھی ہے ۔اس رجحان پر مستشرقین کی تحقیقات کے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مستشر قین نے قرآن حکیم کی بنیا دی ترتیب پر اعتراض کیا اوراس بات پر اصرار کیا کہ قرآن اور اسلا م کی دعو ت کو صرف اسی صو رت سمجھا جا سکتا ہے ،جب قرآن حکیم کو تر تیب نزول کے مطا بق مر تب کر لیا جا ئے ۔
مستشر قین کے ان دعاوی کا ہما رے یہاں یہ اثرہو ا کہ ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ترجمہ قرآن کی ہر سورت پر تر تیب تلا وت اور تر تیب نزول درج کیں، جسے یعقو ب حسن مدراسی اور سید معروف شا ہ شیرازی نے اختیار کیا۔ ان کے بعد پر وفیسر اجمل نے۱۹۴۰میں ایک مضمو ن بعدازاں۱۹۵۰میں ایک کتاب کی صورت میں ترتیب قرآن کو اپنے طورپر ترتیب نزولی سے مرتب کیااور اسی ترتیب سے سیر ت کا مطا لعہ کر نے کی کو شش کی ( 19 کاشمیری ۔صلاح الدین ۔محولہ با لا ص۳۵) جسے دیکھتے ہی مو لا نا دریا با دی نے اپنی نا پسند ید گی کا اظہا ر کیا تھا۔( 20دریابادی،عبد الماجد،سیرۃ نبوی قرآنی، مکہ بکس لاہور،س۔ن ، ص۲۱۵)پر وفیسر اجمل کی اس تحقیق کی مو لا نا عبید اللہ سند ھی نے بہت تعر یف کی اور ا ن کے ایک شا گر د الطا ف جا وید نے ان اثرات کو قبو ل کر تے ہو ئے نز ول قرآ ن کی روشنی میں’’انقلا ب مکہ ‘‘نامی کتا ب لکھی ۔
الغرض درج بالا آراء وحقائق یہ ثابت کر رہے ہیں کہ منہج حرکی کی بعض جہتوں مثلاً انقلاب کے مراحل کا تعین اورآنحضور ﷺ کی سیاسی حیثیت کو بہ اصرارنمایاں کرنے، پر مستشرقین کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

(۵)۔ دعوتی رحجان کے اثرات

سیرت نگاری کے حرکی رحجان پر دور جدید کے ایک نمایاں اور مقبول ” دعوتی رحجان” کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں: اول، یہ کہ دعوتی اور حرکی رحجانات پر سیرت لکھنے والوں کا مقصدایک جیسا ہی ہے کہ وہ سیرت کے واقعات سے نہ صرف اپنے کارکنوں کی تربیت کر سکیں بلکہ افراد اور معاشرے کی تربیت سیرت رسولﷺ کی روشنی میں کریں اور اسلامی نظام حیات کا جامع تصور پیش کرتے ہوئے اسے عصری ضرورتوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ دوم، یہ کہ ان دونوں رجحانات پر لکھنے والے اکثر وبیشتر لکھاری جماعت اسلامی، اخوان المسلمین یا ان کی فکرسے متاثر دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ہی ہیں۔ سوم،یہ کہ ان دونوں رجحانات میں ایک قدرمشترک یہ بھی ہے کہ ان دونوں میں سیرت نبویﷺکو مراحل میں تقسیم کر کے دیکھا جاتا ہے۔

 حرکی و دعوتی رجحان میں فرق

حرکی رحجان کی پہچان سیاسی مسائل سے بحث ہے ،جو کبھی دین کی سیاسی ومعاشرتی تعبیر تک چلی جاتی ہے، تاہم اس رجحان میں حیات نبوی ﷺکےمختلف مراحل میں ادارہ جات کی بناوٹ اور ریاستی و تحریکی کامیابیوں کا ذکر ہوتاہے، جن میں جنگی اور سفارتی ہر دو اقسام شامل ہوتی ہیں۔ اسکے علاوہ جب کامیابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو حضورﷺ کے حسن تدبر اور سیاسی و عمرانی بصیرت کو نمایاں کر کے یہ بتایا جاتا ہے کہ کس مرحلہ تحریک میں کس مخالف کو زیر یا مطیع کیا گیا اور کتنا رقبہ مملکت اسلامی میں داخل ہوا۔ جبکہ دعوتی رحجان میں مراحل دعوت کے ساتھ ساتھ مناہج دعوت کا ذکر زیادہ نمایاں طور پر ہوتا ہے اور آپﷺ کے حسن اخلاق، اعلی کردار، نفسیات شناسی، شفقت و رحمت کے ساتھ تبلیغ اور دلوں کو مسخر کرنے کے طریقوں کا واضح بیان ہوتا ہے۔جبکہ کامیابیوں کے ضمن میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ حضورﷺ کے حسن اخلاق نے کتنے قبائل اور لوگوں کے قلوب و اذہان کو متاثر کیا۔ یعنی رقبہ اور علاقہ کی تسخیر کی بجائے افراد اور اذہان کی تسخیر پیمانہ ٹھہرتی ہے۔ البتہ خلط مبحث کی بناء پر دعوتی کتب سیرت کو حرکی کتب سیرت سے جدا کرنا مشکل ہے۔ الاً یہ کہ حرکی کتب میں خالصتاً سیاسی و تحریکی انداز آجائے ورنہ عام کتب دعوت، حرکی رحجان ہی کا پرتو لیے ہوئے ہوتی ہیں۔ ایک مثال سے ان دونوں رجحانات کے فرق کو واضح کرتے ہیں، مثلاً ذیل کا اقتباس دعوتی رجحان کی نمائندگی کرتا ہے:۔
“بہرحال امن کے اس مرحلے پر جو صلح حدیبیہ کے بعد شروع ہوا تھا۔ مسلمانوں کی اسلامی دعوت پھیلانے اور تبلیغ کرنے کا اہم موقع ہاتھ آگیا تھا، اس لیے میدان میں ان کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئیں جو جنگی سرگرمیوں پر غالب رہیں۔ لہذا مناسب ہوگا کہ اس دور کی دو قسمیں کردی جائیں۔ 
۱۔ تبلیغی سرگرمیاں اور بادشاہوں کے نام خطوط ۲۔ جنگی سرگرمیاں 
پھر بے جا نہ ہوگا کہ اس مرحلے کی جنگی سرگرمیاں پیش کرنے سے پہلے بادشاہوں اور سربراہوں کے نام خطوط کی تفصیلات پیش کر دی جائیں کیونکہ طبعی طور پر اسلامی دعوت مقدم ہے۔ بلکہ یہی وہ اصل مقصد ہے جس کے لئے مسلمانوں نے طرح طرح کی مشکلات و مصائب ، جنگ اور فتنے ، ہنگامے اور اضطرابات برداشت کیے تھے۔( 21مبارکپوری ، صفی الرحمن الرحیق المختوم ، المکتبۃ السلفیۃ ، لاہور، س۔ن، ص۴۷۵)
 جبکہ ذیل میں حرکی رجحان کا اقتباس ملاحظہ ہو:۔ 
“سو کہنا چاہیے کہ قریش جیسے کڑے دشمنوں کو مصالحت پر لے آنا، حضوراکرمﷺ کی سیاست کاری کا ایک نمایاں معجزہ تھا اور ایک شرط میں بظاہر ذرا سے دب کر حضورﷺ نے وہ فوائد اور نتائج حاصل کر لیے، جن کا تصور بھی قریش اس وقت نہ کر سکے ہوں گے۔ اُنہیں کب یہ خیال آسکا ہوگا کہ اب ایک طرف ان کے حامی یہودیوں کا جنگی اڈہ اکھڑ جانے والا ہے اور وہ اکیلے رہ جائیں گے اور دوسری طرف اسلام لوگوں کو، اتنی بڑی تعداد میں کھینچ لے جائے گا، بلکہ خود ان کے شہر میں اتنے اثرات پھیلا دے گا کہ ان کی طاقت کاموجودہ معیار سے بھی گر جائے گی”(22نعیم صدیقی، محسن انسانیت، الفیصل ناشران لاہور، ۲۰۱۰، ص ۵۴۲)
 سیرت طیبہ کےدعوتی اور حرکی رحجان پر لکھنے والوں کی اکثریت کا تعلق سیاسی وانقلابی جماعتوں سے ہے، جن کی تحریروں میں حرکی اور دعوتی رحجان کا ایک آمیزہ سا نظر آتا ہے اور وہ واقعات سیرت کے بیان کے ساتھ ساتھ ان پر دعوتی وسیاسی انداز میں تبصرہ کرتے جاتے ہیں۔ ان تحریروں سے ایک مخصوص جماعتی ذہن کی عکاسی ہوتی ہے۔لیکن اگر وہ جماعت یا تحریکی تنظیم سے وابستہ نہ ہوں تو پھر ان کی تحریریں تحقیقی اور عقلی انداز کی حامل ہوتی ہیں۔ مثلاً دعوتی رحجان میں مولانا وحیدالدین خان کی کتب اور حرکی رحجان کے تحت ڈاکٹر محمدحمیداللہ کی کتب اور تحریریں بطور مثال پیش کی
جاسکتی ہیں۔

3. حرکی رجحان کی کتب

حر کی رجحان کی سیرت نگا ری کے مطا لعہ میں تین طر ح کی کتب سیرت زیر مطا لعہ آتی ہیں ۔
(۱)۔ تحر یکو ں سے وابستہ لو گوں کی کتب سیرت جن کی غا لب اکثر یت ،اخوا ن المسلمون اور جما عت اسلا می اور دیگر تحریکوں سے تعلق ر کھتی ہے ۔ان کتب کے مواد میں روا یا ت سیرت کا اخذ و انتخاب پا یا جا تا ہے اور صرف سیرت کے ان ہی واقعا ت کو لیاجاتا ہے جو حر کی یا انقلا بی نقطہ نظر سے اہم ہیں ۔اندا زبیان اور اسلو ب تحر یر میں تخا طب ،تحر ک اور جوش وو لو لہ پا یا جا تا ہے ۔ ان میں درج ذیل کتب کا نام لیا جا سکتا ہے:حیات طیبہﷺاز ابوسلیم محمد عبدالحئی،محسن انسانیتﷺازنعیم صدیقی ،السیرۃالنبویہﷺ۔ دروس عبر۔ ازڈاکٹر مصطفی السباعی، انسان کاملﷺازڈاکٹرخالد علوی،داعی اعظمﷺازمولانامحمد یوسف اصلاحی،رسول اکرم ﷺکی حکمت انقلاب ازسید اسعد گیلانی،المنہج الحرکی للسیرۃ النبویۃﷺاز ڈاکٹر منیر محمد الغضبان،سید انسانیتﷺازنعیم صدیقی ،محمد عربی ﷺازمحمد عنایت اللہ سبحانی،منہج انقلاب نبو یﷺاز ڈاکٹر اسرار احمد،نظام مصطفی ﷺ اورتصور دین اور حیات نبویﷺ کا سیاسی پہلوازڈاکٹرمحمد طاہر القادری، اسلامی قیادت از خرم مراد،مصطفویﷺ مدنی عالمی ریاست ازفاروق احمد
(۲)۔ دوسری قسم ان مصنفین کی کتب سیرت کی ہے جنہو ں نے سیا ست و ر یا ست نبو ی ؐ اور سیرت کے سیا سی پہلو کو تحقیقی انداز میں اپنی کتب میں پیش کیا ہے ۔ان کے یہا ں اگر چہ تحر یکی اصطلا حات تو مو جو د ہیں مگر جوش وولولہ کی بجا ئے ہو ش اور تحرک کی بجا ئے تحقق کا ر نگ نما یاں ہے ۔ان میں درج ذیل کتب نمایاں ہیں:رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی اور،عہد نبوی ﷺکا نظام حکمرانی از ڈاکٹر محمد حمید اللہ، الدولۃ فی عہد الرسول (ص ) از ڈاکٹر صالح احمد العلی ،رسول اللہﷺ کی خارجہ پالیسی از اسد سلیم شیخ،عہد رسالتﷺ میں معاشرہ اور مملکت کی تشکیل از ڈاکٹرمحمد یوسف فاروقی،عہد نبویﷺ میں ریاست کا نشو و ارتقاء از ڈاکٹر نثار احمد
(۳)۔ تیسری قسم ان مصنفین کی کتب سیرت پر مشتمل ہے جنہو ں نے اپنے مخصو ص نظر یات وتصور ات کے اظہا ر کیلئے یا زما نہ کے رجحان سے متا ثر ہو کر انقلاب ،حر کت یا سیا ست نبو ی ﷺ پر اپنی نگا ر شات پیش کی ہیں۔ان میں رسول اکرمﷺکی انقلابی سیرت ازمولانا اخلاق حسین قاسمی،مخزن انقلاب از ڈاکٹر شمس الحق اورانقلاب مکہ از الطاف جاوید کا نام لیا جاسکتا ہے۔
ذیل میں اول الذکر گروہ کی چند کتب سیرت کا اجمالی تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

الف ۔ محسن انسانیتﷺ

کتاب ’محسن انسانیت‘ نعیم صدیقی ( ۱۹۱۶۔۲۰۰۲) کی تالیف ہے،(23نعیم صدیقی،محسن انسانیتﷺ،الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور(بیالیسواں ایڈیشن )۲۰۱۰ ) جو ایک معروف شاعر اور نثرنگار ہونے کے ساتھ اسلامی ادب کے علم برداروں میں شمار ہوتے ہیں۔جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما اور سید ابوالاعلی مورودی کے دست راست رہے۔ 
محسنِ انسانیت ،سیرت پاک پر لکھی گئی کتب میں منفرد پہچان رکھتی ہے۔ پچھلے ۵۰سال میں یہ کتاب اُردو، بنگالی اور اراکان زبان میں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور اراکان میں ایک لاکھ سے زائد کی تعداد میں شائع ہو چکی ہے۔یہ کتاب منہج حرکی کے حوالے سے رحجان ساز کتاب کا درجہ رکھتی ہے

کتاب کے مندرجات

کتاب محسن انسانیت پانچ ابواب، تین ضمیمہ جات ، ایک مقدمہ پر مشتمل ہے۔ کتاب کے شروع میں عرض ناشر کے بعد ادارہ مطالعہ و تحقیق نے گزارش احوال،مؤلف کی طرف سے ’’حروف آغاز‘‘ اور ’’چند الفاظ‘‘ سید ابوالاعلی مودودی کی طرف سے دیباچہ اور ماہر القادری کی ’’تقریظ‘‘ شامل ہے۔ اس کے بعد مصنف نے ص ۳۳ سے لے کر ص ۸۹ تک اٹھاون صفحات کا طویل مقدمہ سیرت شامل کیا ہے اور آخر میں ’’واقعات سیرت کی ترتیب زمانی‘‘ ’’اولیات و تقدمات‘‘ اور ’’ تحریک اسلامی کی عددی نشونما‘‘ کے نام سے ۱۷ صفحات پر مشتمل ضمیمہ جات، اور ایک صفحہ کی فہرست ’’ چند کتب حوالہ‘‘ درج کی ہے۔ ابواب کی تفصیل درج ذیل ہے:۔
علماء کی آراء: ڈاکٹر محمد شکیل صدیقی لکھتے ہیں:۔ 
’’محسن انسانیت کوانقلابی و تحریکی رجحان کی جامع الصفات کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ محسن انسانیت اور دیگر کتب سیرت میں ایک جوہری فرق ہے۔ دیگر کتب میں انقلابی و تحریکی رجحان کی جز وی صفات و خصوصیات ملتی ہیں ،جب کہ محسن انسانیت میں انقلابی و تحریکی فکر و شعور کو مہمیز دینے والے جملہ عناصر و لوازم، دینی و روحانی جذبہ اور جذبوں کو جنوں اور دلوں کو سوز گذار دینے والی تحریک، زندگی میں حرکت و حرارت پیدا کرنے والی روانی ، وجود کو بیدار و متحرک کرنے والی لہر، جسم و جان، مال و دولت اور گھر بار کی قربانی کے لئے آمادگی ،مقصد کی صداقت کا کامل ایمان اور اسکے حصول کے لئے سعی مسلسل، عملی و تاریخی حقائق و واقعات کی بصیرت اور اور اثر انگیز اسلوب و بیان کی قدرت بیک وقت موجود ہے‘‘(24صدیقی، محمد شکیل، اردو سیرت نگاری۔ انقلابی و تحریکی رحجان۔ معارف جملہ تحقیق شمارہ نمبر ۴ جولائی دسمبر۲۰۱۲، ادارہ معارف اسلامی، کراچی

سیرت کا حرکی پہلو

مصنف نے سیرت کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ اسلامی تحریک کے شب و روز کی داستان دلپذیر بن گئی ہے۔ مصنف نے کتاب کے شروع میں شبلی کی طرز پر جو مقدمہ لکھا ہے، اسے سیرت کی بجائے منہج حرکی کا مقدمہ کہا جائے تو زیادہ درست بات ہو گی۔ ذیل میں مذکورہ مقدمہ اور کتاب کے اقتباسات کی روشنی میں مصنف کے اسلوب کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
مصنف، حرکی رحجان کے بارے رقمطراز ہیں:۔
“اسلام کا تحریکی شعور برابر اس ضرورت کو محسوس کرا رہا تھا کہ دنیا کے سب سے بڑے انسان، محمدﷺ کی زندگی کا مطالعہ نئے انداز سے کیا جائے۔ایک ایسا اندازجو سرور عالم اور آج کے انسان کے درمیان حائل ہونے والے مختلف پردوں کو اٹھادے۔ وہ مقدس زندگی مجرد فرد کی سوانح نہیں ہے ،بلکہ وہ عظیم ترین تہذیب کی آئینہ دار ہے۔ اس کے واسطے سے ہم قرآن کا ترجمہ عمل کی زبان میں پڑھ سکتے ہیں اور اسی کی روشنی میں ہم اجتماعی انقلاب کی کٹھن راہوں کو طے کرسکتے ہیں،جن پر سے ہو کر انسانیت اسلامی نظام کی جنت تک پہنچ سکتی ہے”(25 نعیم صدیقی ، محسن انسانیت، ص ۱۷
نبی پاکﷺ کی جدو جہد کا موازنہ دنیا کے لیڈروں، حکمرانوں اور انقلابیوں سے کر کے آپ ﷺ کے کارنامے کی عظمت کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’تاریخ کے وسیع دائروں پر نظر ڈالیں، تو اس میں ہمیں کئی مصلحین دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جب ہم ان کی تعلیمات، کارناموں اور ان کے پیداکردہ مجموعی نتائج دیکھتے ہیں تو اگر کہیں خیرو فلاح دکھائی دیتی ہے، تو وہ جزئی قسم کی ہے۔ اس کے اثرات زندگی کے کسی ایک گوشے پر ابھرتے ہیں۔ پھر خیروفلاح کے ساتھ طرح طرح کے مفاسد ترکیب دکھائی دیتے ہیں۔ انبیاء کے ماسوا کوئی عنصر تاریخ میں ایسا نہیں دکھائی دیتا جو انسان کو، پورے کے پورے انسان کو، اندر سے بدل سکا ہو۔حضورﷺ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپﷺ کی دعوت نے پورے کے پورے اجتماعی انسان کو اندر سے بدل دیا اور صبغۃ اللّٰہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کر بازار تک، مدرسے سے عدالت تک اور گھروں سے میدانِ جنگ تک چھا گیا۔ ….. یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی”(26نعیم صدیقی ، محولہ بالا،ص۳۴ )
دین کو تحریک قرار دیتے ہوئے اسے حضور ﷺ کی انتھک محنت کا ثمر قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:۔
اقامت دین کو خدا کا انعام کہہ کر اگر کوئی شخص رسول خداﷺ کی جدوجہد ، جانفشانی، حکمت و بصیرت اور سیاسی شعور کی نفی کرنا چاہتا ہے تو وہ بڑا ظلم کرتا ہے۔۔۔ حضور کا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے نیکی کی دعوت دی۔ نیکی کے غلبہ کے لئے جدو جہد کی اور ایک مکمل نظام قائم کر دیا۔ یہ کام مذہب کے محدود تصور کے دائرے میں نہیں سما سکتا۔یہ دین تھا، یہ تحریک تھی!!( 27ایضاً، ص ۵۵)
مؤلف نے کشمکش حق و باطل کے فریق تمام گروہوں کا نفسیاتی تجزیہ خاص طور پر کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کا دوسرے انقلابات سے موازنہ بھی کیا ہے۔ مصنف نے اسلامی نظریہ جہاد کی تشریح قرآن حکیم کی مدد سے کرتے ہوئے کفار کے ساتھ مسلمانوں کی جنگوں کو سول وار قرار دیا ہے۔(ص۳۸۵)۔ مصنف نے بیعت عقبہ کو قصر اسلامی کی پہلی اینٹ، تحویل قبلہ کو انقلابی موڑ، اور خطبہ حجتہ الوداع کو تحریک اسلامی کا اجتماع عظیم قرار دیا ہے۔ مؤلف کا نقطہ نظریہ ہے کہ جب جنگ ناگزیر ہو اور صورت حال ’’تم نہیں یا ہم نہیں‘‘ والی ہو تو جنگ کے دفاعی یا جارحانہ ہونے کی بحث بیکار ہے (ص ۳۸۳)۔مصنف نے کتاب میں یوں تو تحریک اسلامی کی ہرخصوصیت کو نمایاں کیا ہے مگر خاص طور پر جماعت کی تربیت ، نظم و ضبط، ٹریننگ اور اطاعت کو ماحول کے تناظر میں نفسیاتی تجزیہ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مؤلف تحریک اسلامی کو روم و ایران کے مقابلے میں تیسری طاقت کہتے ہوئے انقلاب کا محرک توحید اور مقصد بعثت اقامت دین کو قرار دیتے ہیں ،نیز دین کے وسیع تصور میں سیاسی اقتدار کو شامل کرتے ہوئے ایک حدیث مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں ( ص ۴۷) اسکے علاوہ جناب نعیم صدیقی نے سیرت کے سیاسی اور عالمی پہلوؤں کو “محسن انسانیتﷺ” میں خاص طور نمایاں کیا ہے۔

مؤلف کا اسلوب

۱۔ مؤلف نے اس کتا ب میں بہت سی نئی اصطلاحات ایجاد کی ہیں۔
۲۔ واقعات کی حرکی تشریح کی ہے
۳۔ تحریک اور سیرت کو ایک انسانی واقعہ بنا کر پیش کیا ہے، تاہم گا ہے گاہے معجزات کا ذکر بھی کیا ہے مثلاً سراقہؓ بن مالک کا واقعہ، حضرت عدی ؓبن حاتم کو مستقبل کی خبر دینا، حضرت حاطب ؓکے خط کو پکڑنا ، فضالہؓ بن عمر کو اُس کے ارادہ قتل کی خبر دینا وغیرہ۔
۴۔ مؤلف کا انداز یہ ہے کہ وہ ایک عمومی بیان دے کر اُس کا تجزیہ کرتے ہیں اور پھر اس پر دلائل لاتے ہیں۔
۵۔ معرکہ حق و باطل کے بیان میں اور مختلف گروہوں کی نفسیات کی ظاہر کرنے کے لئے قرآنی آیات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے استدلال کیا ہے اور نزول قرآن اور سیرت کا ربط پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
۶۔ جدید اصطلاحات اور زبان استعمال کی ہے۔
۷۔ بعض مقامات پراردو کے معروف مگر ادبی لحاظ سے کم تر محاوروں کے استعمال سے اپنا مقصد ومدعا کو واضح کرتے ہیں مثلاً آنکھوں پر ٹھیکری رکھنا (ص ۱۴۱)، دھونی ر مانا (ص ۱۴۵)، تم نہیں یا ہم نہیں (ص ۳۸۳) مونگ دلنا(ص ۴۰۴)، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی (ص ۴۴۹)، جتی ستی (ص ۵۷۱) وغیرہ چند مثالیں ہیں۔
۸۔ انگریزی اصطلاحات کا استعمال بھی کافی کیا ہے، کبھی اردو مترادف کے ساتھ تو کبھی مجرد 
۹۔ ضرورت پڑنے پر مختلف واقعات کو اپنے مدعا کے بیان کے لیے دوبارہ لاتے ہیں۔مثلاً عدی بن حاتم کا ایمان لانے کا واقعہ دو بار ذکر کیا گیا ہے۔ (ص ۵۸۶) ( ص ۴۷۹)
۱۱۔ واقعات سیرت کوترتیب زمانی کے بجائے مضمون کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے اور پہلے ہونے والےواقعات کو بعد میں، اُن کے متعلق ابواب میں ذکر کیا ہے۔ مثلاً فتح مکہ کا ذکر پہلے ہے اور حدیبیہ اور سلاطین کو خطوط کاذکر بعد کے ابواب میں ہوا ہے۔
۱۲۔ نبی پاک ﷺ کے صرف ان تعلقات اور رشتہ داریوں کا منتخب ذکر کیا ہے، جو تحریک اسلامی سے سرگرم تعلق رکھتے ہیں (ملاحظہ ہوں صفحات ۵۶۲،۵۶۶)
۱۳۔ قرآنی آیات کو اپنے مخصوص مقام نزول سے جوڑ کر اُس کی تفہیم تمام زمانوں اور گروہوں کے لئے کرتے ہیں۔ مثلاً

وَ اذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰیکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔(28سورۃ الانفال۸: ۲۶)

کو بدر کے نتائج میں لاکر لکھتے ہیں:’’ یہ آیت در حقیقت ہر دور کی اسلامی تحریک کے دو بڑے ادوار کو عیاں کرتی ہے۔ (۱) قلت اور ضعف اور خوف و خطر کا دور (۲) جماؤ،مضبوطی، اقتدار، فاتحانہ اقدام اور معاشی فلاح کا دور۔
۱۴۔ سیرت کونئے نئے عنوانات دئیے ہیں جو اس سے پہلے استعمال نہیں ہوئے۔

تبصرہ

مؤلف کے اپنے بیانات، کتاب کے اقتباسات اور علماء کی آراء ،کتاب کے منہج کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں نیز کتاب کے یکے بعد دیگرے آنے والے ایڈیشن عوام میں اس کی مقبولیت کی واضح شہادت ہیں ،تاہم اس کتاب کے اسلوب پر درج ذیل تحفظات کا اظہار ضروری ہے:۔ ۱۔محترم مؤلف نے ہر واقعہ کو ازاول تا آخر تحریکی رنگ میں رنگ دیا ہے،جس کی مثالیں کتاب کے ہر صفحہ پر موجود ہیں
۲۔ ایک طرف مؤلف کا دعویٰ ہے کہ” آپ ؐ کی سیرت ایک ایسے بڑے یا مشہور آدمی کی داستان نہیں ہے، جیسے لوگوں کو مشاہیر کے سوانحی سلسلوں میں گنوایا جاتا ہے۔ یہ ہستی بڑے اور مشہور آدمیوں سے بہت اوپر کی ہے ‘‘(۲۶) دوسری طرف مصنف نے جس طرح سیرت کو پیش کیا ہے وہ محض ایک ایسے بڑے آدمی کی سیرت ہی دکھائی دیتی ہے ۔انہوں نے یہ تو بلا شبہ درست کہا کہ” آپﷺ کی سیرت کے مددسے سے ایک حاکم، ایک امیر، ایک وزیر، ایک افسر، ایک ملازم، ایک آقا، ایک سپاہی ایک تاجر، ایک مزدور، ایک جج، ایک معلم، ایک واعظ، ایک لیڈر، ایک ریفامر، ایک فلسفی، ایک ادیب ہر کوئی یکساں درس حکمت و عمل لے سکتا ہے۔ وہاں ایک باپ کے لئے، ایک ہم سفر کے لئے، ایک پڑوسی کے لئے یکساں نمونہ موجود ہے (ص ۷۱) مگر خود مؤلف نے اپنی کتاب میں دوسری تمام حیثیتیں بھلا کر صرف ایک لیڈر کی حیثیت سے اسوہ پیش کیا ہے۔
۳۔ مؤلف نے باربار نبی پاکﷺ کے لئے واحد کا صیغہ اور مجرد نام استعمال کیا ہے۔ مختصر اقتباسات ملاحظہ ہوں۔ لکھتے ہیں
 “اس جماعت یا قوم کا اجتماعی ماحول زمین کے کسی ایک چپے پر بھی گواہی نہیں دیتا کہ میں محمدؐ کے دئیے ہوئے اصولوں اور قائم کردہ روایات کا آئینہ دار ہوں”(۲۷) 
” انہوں نے محمدؐ کی قیمتی شخصیت کو جانچنے اور اسکے پروگرام کو پرکھنے کی بجائے ضد، تعصب، حسد اور کینہ کے محاذ قائم کر لئے” (۲۸) 
” مسلمانوں کے عمل و کردار کے رنگوں سے سیرت محمدؐ کی ایک غلط تصویر تیار کی جانے لگی” (۲۹)
” یہ ہے تاریخ انسانیت میں محمد ؐ کا مقام۔۔۔۔ تاریخی گواہی دیتی ہے۔ کہ وہ سب سے بڑا تاریخ ساز تھا۔(۳۰)
جماعت صحابہ کے لئے بھی مختلف القاب استعمال کئے ہیں مثلاًانقلابی پارٹی (ص ۲۲۷)۔ غرض اس طرح کے القاب اور صیغہ کا استعمال ادب نبویؐ اور مقام صحابہؓ کے کہیں فروتر ہے۔
۴۔ کہیں کہیں فکری تضاد بھی پایا جاتا ہے ، جس کی مثال یہ ہے کہ ایک طرف انہوں نےیہ گلہ بھی کیا ہے کہ دنیا افلاطون و سقراط، ڈارون،میکاولی، مارکس، فرائڈ اور آئن سٹائن سے تو استفادہ کرتی نظر آتی ہے۔مگر نبی پاکﷺ سے مخالفت ہے۔ مؤلف کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے سیرت نگاری میں انہیں ایک مذہبی و قومی جتھے کا رہ نما بنا کر پیش کیا ہے (ص ۷۲) کتاب کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ مؤ لف کی اپنی سیرت نگاری کا نمونہ ہی حق و باطل کی کشمکش کا ہے ۔مؤلف نے اپنی کتاب میں یہ ثابت کیا ہے کہ حق و باطل کی یہ آویزش ازل سے اسی طرح ہے اور انہوں نے اس آویزش کے کرداروں کو متعین کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر جگہ یہی کاروائی، یہی مراحل، یہی لوگ ہوتے ہیں۔ پھر سوچنے کی بات ہے کہ افلاطون و سقراط یا ڈارون و آئن سٹائن نے ایسا کیا کیا ہے کہ دنیا اُن کی مخالفت کرے۔ جب آپ کلمہ حق کی بات کریں اور کہیں ’’لا الہ ضرب است و ضرب کاری است‘‘ (ص ۴۲) اور { لیظہرہ}کے مفہوم میں کشمکش اور غلبے کو شامل سمجھیں (ص ۴۹) اور’’ تم نہیں یا ہم نہیں‘‘ کی پوزیشن پر اپنے آپ کو محسوس کریں ،تو پھر افلاطون و سقراط سے موازنہ درست معلوم نہیں ہوتا ۔ 
۴۔ فاضل مؤلف نے اہل مغرب سے ایک اپیل کرتے ہوئے کہا ہے:۔
’’یہ ہستی مستحق ہے کہ آپ اسے سائنٹیفک طریق سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔ چاہے یہ کہ آپ اسلام کو عیسائیت کے ایک حریف مذہب کی حیثیت سے نہ لیں بلکہ جمہوریت، اشتراکیت اور دوسری اصولی تحریکوں کی طرح ایک تحریک اور زندگی کی ایک تہذیبی نظام کی حیثیت سے لیں اور محمد ﷺ کو اس تحریک کے قائد اور خدائی ہدایت کے تحت اس نظام کے مئوسس کی حیثیت سے دیکھیں‘‘ (۳۱)
درج بالا اقتباس کو پڑھ کر دین کا جو تصور پیدا ہوتا ہے، یہ تصور، دین کی اس روح کے مطابق دکھائی نہیں دیتا جو قرآن و سنت کے مطالعہ، علماء کی تشریحات اور امت کے تاریخی تعامل کی روشنی میں جمہور کے نزدیک مسلم چلا آ رہا ہے۔

ب ۔ رسول اکرمﷺ کی حکمت انقلاب

کتاب ’’رسول اکرم ﷺ کی حکمت انقلاب‘‘ سید احمد حسن گیلانی ( ۱۹۲۲۔ ۱۹۹۲) جن کا قلمی نام سید اسعد گیلانی ہے ،کی تصنیف ہے (29 گیلانی ،سید اسعد ،رسول اکرمﷺ کی حکمت انقلاب، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور،۲۰۰۸) ۔زیر نظر کتاب انہوں نے ستمبر ۱۹۷۶ ؁ء سے لے کر نومبر ۱۹۷۶ ؁ء کے عرصہ دو ماہ میں مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر لکھی۔ ۸۲ کتب اور بے شمار تحریکی مضامین کے مصنف ہیں ،جو ان کی دعوت و تحریک دین سے گہری وابستگی کا بین ثبوت ہے۔ ’’رسول اکرم ﷺ کی حکمت انقلاب‘‘ کو ۱۹۸۳ ؁ء میں قومی سیرت ایوارڈ دیا گیا۔ کتاب کے انگریزی ترجمہ کو ۱۹۸۹ ؁ء میں فیروز سنز نے Methodology of Prophet Muhammad’s Revolutionکے نام سے چھاپا۔
یہ کتاب حضور اکرمﷺ کی سیرت پاک کو تاریخ دعوت کے قدم بہ قدم مراحل کی روشنی میں سمجھنے اور مولانا مودودی کے انقلابی افکار کو مسلمانوں میں وسعت دینے کے لئے لکھی گئی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے بعد دنیا ،اپنی سلامتی اور درستی کے لئے رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات، ہدایت اور پیروی کی محتاج ہے۔ اور ان تعلیمات کی اشاعت اور نفاذ کے لئے جو طریقہ رسول اکرم ﷺ نے اختیار فرمایا‘ وہی حقیقی، فطری او ر سائنٹیفک طریقہ ہے۔ اس لئے جہاں ہم حضور ﷺ کی تعلیمات کے محتاج ہیں، وہاں ہم اس طریقہ کار کے بھی محتاج ہیں جو رسول اکرمﷺ نے انقلاب بر پا کرنے کے لئے اختیار فرمایا۔۔۔ اس لئے اس کتاب میں ’’واقعات سیرت‘‘ کو تاریخی ترتیب میں بیان کر کے سیرت نگاری نہیں کی ہے ،بلکہ انقلاب اسلامی برپا کرنے کے لئے رسول اکرم ﷺ کے طریقہ کارکی حکمت وتدریج و ترتیب کے لحاظ سے سیرت نگاری کی ہے (30ایضاً، ابتدائیہ و حرف ثانی، ص ۱۳۔۱۵

سیرت کا حرکی پہلو

جیسا کہ عنوان اور مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے ،یہ کتاب ’’انقلاب نبویؐ‘‘ کی مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتی ہے۔ اس میں دعوت سے لے کر تربیت افراد ، تنظیم معاشرہ ، تشکیل ریاست، استحکام اور توسیع انقلاب کے مختلف مراحل، اسالیب اور فکری پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب میں مصنف نے جو اسلوب اختیار کیا وہ زبان اور پیرا یہ اظہار، ہر دو اعتبار سے حرکی وصف کا نمونہ ہے۔ اور زبان و بیان کا یہ حرکی اسلوب کتاب کے نفس مضمون’’ انقلاب‘‘ کے سوا ہے۔ ذیل میں ہم کتاب سے چند اہم اقتباسات نقل کرتے ہیں۔
مصنف نے نبی پاکﷺ کی کاوش و جدوجہد کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:۔
“حقیقت یہ ہے کہ اپنی محنت، قوت، مشقت، دوڑ دھوپ، مسلسل کاوش اور پیہم سعی کے ذریعے آپؐ نے پوری انسانیت پر ثابت کر دیا کہ خدا کا پیغام پہنچانے کا حق کس طرح ادا کیاجاتا ہے اورا تمام حجت کس چیز کا نام ہوتا ہے۔ حضور ﷺ نے اپنے پورے معاشرے میں کوئی ایک فرد بھی غیر جانبدارانہ چھوڑا۔ پورا معاشرہ آپﷺکی جان توڑ تگ و دو کے نتیجے میں موافق و مخالف دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔اور جب آپؐ کی ان مساعی کے نتیجے میں ان دونوں حصوں میں تصادم ہوا ،تو پھر اللہ تعالیٰ کا عظیم ہاتھ آگے بڑھا اور اس نے باطل کا کچومر نکال دیا۔ اس طرح کفر کے حصے میں شکست آئی جو ہمیشہ سے اس کا مقدر ہے ۔بشرطیکہ حق کے داعی فتح حاصل کرنے کے لئے وہ سارے تقاضے پورے کریں، جن تقاضوں کو پورا کئے بغیر عالم اسباب میں جدوجہد اور سعی کا حق ادا نہیں ہو سکتا اور نہ باطل کی شکست منصفانہ ہو سکتی ہے”( 31ایضاً، ص ۶۷
لفظ انقلاب کے اطلاق کی وضاحت اور اس تناظر میں نبی کریمﷺ کی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
“حضور اکرمﷺ نے تاریخ انسانیت کی ۲۳ سالہ قلیل ترین مدت میں جو عظیم الشان انقلاب برپا کیا۔ وہ اپنی نوعیت ، کیفیت، جدوجہد۔ اور نتائج کے اعتبار سے اتنا حیران کن ہے کہ اس کی نظیر تاریخ عالم میں کہیں موجود نہیں ۔جب ہم اس انقلاب کے مختلف پہلوئوںپرغور کرتے ہیں تو حقیقتاً اس کے سوا کسی دوسرے انقلاب پر لفظ انقلاب کا اطلاق درست معلوم نہیں ہوتا۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ اب تک انسانیت کی تاریخ صرف ایک ہی حقیقی انقلاب سے آشنا ہے تو یہ کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں ہے۔ اور نہ اس کا انکار آسان ہے۔ اس لئے اب تک دنیا میں انقلاب کا مفہوم صرف اس قدر سمجھا جاتا ہے کہ انسانوں پر غالب اور مسلط، پہلے اقتدار کو بے دخل کر کے، ایک دوسرا اقتدار ان پر مسلط کردیا جائے۔ یہ کام جس قدر اچانک ہو اس میں جس قدر زیادہ خون خرابہ ہو، اسی قدر بڑا انقلاب سمجھ لیا جاتا ہے۔حالانکہ فساد فی الارض، ہلاکت انسانی، فناء جان و مال عزت و آبرو، انسانی بستیوں کی بربادی اور ظالموں کے ایک گروہ کے بعد ظالموں کے ہی کسی دوسرے گروہ کے مسلط ہوجانے سے انسانیت کی قسمت میں وہ کون سا تغیر واقع ہو جا تا ہے جس کی بناء پر اسے انقلاب کہا جاسکے”( 32 ایضاً،ص ۵۳۹)
درج بالا اقتباسات نہ صرف مصنف کے حرکی رحجان کے عکاس ہیں، بلکہ سیرت نبویؐ کے حوالے سے انقلاب کے فکری و عملی پہلوؤں کو اجاگر کر کے ہمارے لئے رہنمائی کا باعث ہیں۔

مصنف کا اسلوب

مصنف کے اسلوب سیرت نگاری کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:۔
۱۔ مصنف کا اسلوب یہ ہے کہ وہ موضوع کو درجہ وار مختلف عنوانات میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر عنوان پر الگ الگ تفصیلی بحث کرتے ہیں۔
۲۔ مصنف کا انداز عموم سے خصوص کی طرف مراجعت کا ہے۔ وہ ہر باب کا آغاز عمومی حرکی انداز اور تحریکات کے ذکر سے کرتے ہیں ،جو سماجی اور معاشرتی تجزیہ کی روشنی میں شروع ہو کر بتدریج نتیجہ کی طرف بڑھتی ہوئی نبی پاک ﷺکی تحریک اسلامی کے ذکر پر منتج ہوتی ہے۔ اور یہ انداز ہر باب میں پایا جاتا ہے۔
۳۔ مصنف انقلابات روس و فرانس سے تحریک انقلاب اسلامی کا موازنہ بھی کرتے ہیں۔(ص۶۵۸)
۴۔ تمثیلی انداز میں بھی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً ص ۱۵۸ پر دنیا و آخرت کے ذکر کو تمثیلی انداز میں سمجھایا ہے۔ یا ص ۱۶۰ پر انسان کے دنیا وآخرت میں کردار کو پکی ہوئی اینٹ سے تشبیہہ دے کر بات سمجھائی ہے۔ اسی طرح انقلابی کارکنان کو ص ۱۷۲ پر خوب پختہ اینٹوں سے تشبیہ دے کر عمارت میں لگنے کے قابل قرار دیا ہے۔
الغرض مصنف نے نہایت مؤثر پیرائے میں آنحضور ﷺ کی سیرت کے انقلابی پہلوکی مختلف جہات کو نمایاں کر کے نہ صرف تحریکوں ،بلکہ عام قاری کے لئے بھی ہدایت و رہنمائی کا سامان مہیا کیا ہے۔ مصنف کا مؤثر استدلال اور اسلوب اظہار پر قدرت اس پر مستزاد ہیں۔

ج۔ المنہج الحرکی للسیرۃ النبویۃ

یہ کتاب ڈاکٹر منیر محمد الغضبان (۱۹۴۲) کی تصنیف ہے۔( 33الغضبان ، منیر محمد،ڈاکٹر،المنہج الحرکی للسیرۃ النبویۃ،مکتبہ المنار، الزرقائ۔اردن، س۔ن) ڈاکٹرمنیر محمد ،اخوان المسلمین کی شام کی شاخ کے اہم لیڈر ، جنرل سیکرٹریٹ کی شوریٰ کونسل اور علماء کونسل کے رکن تھے ۔ آپ نے نبی پاک ﷺ کی حرکی و سیاسی سیرت اور اسلام کے سیاسی فکر پر متعدد کتابیں لکھیں۔ زیر نظر کتاب ان کی ایک وقیع کتاب ہے ،جس نے اخوان المسلمین کے کارکنان اور اور قیادتوں کو فہم سیرت اور ادراک تحریک و تحرک سے روشناس کروایا ہے۔ 
کتاب کے مندرجات
کتاب دو جلدوں اور تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جلد اول :دو اجزاء جبکہ جلد دوم :ایک جزء پر مشتمل ہے۔ مصنف کا نقطہ نظر چونکہ قدم بہ قدم اور مرحلہ بہ مرحلہ سیرت نبویؐ سے تحریک اسلامی کے لئے رہ نمائی اخذ کرنے کا ہے، اس لئے مصنف نے کتاب کو بھی مراحل دعوت و تحریک کی روشنی میں ابواب و اجزاء میں تقسیم کیا ہے۔ تاہم ہر حصہ اور جزء کے اہم خصوصیات (Features)کا تذکرہ کر کے مختلف دروس و اسباق حاصل کیے ہیں ۔ کتاب کے مندرجات کا تفصیلی جائزہ لینے سے قبل ،مصنف کی اُس تقسیم کو درج کرنا بہتر معلوم ہوتا ہے جو مراحل دعوت اور تاسیس ریاست کو واضح کرتی ہے اور مصنف کے قائم کردہ ابواب و اجزاء بھی اُسی پر منحصر ہیں۔

المرحلۃ الاولی : سریۃ الدعوۃ و سریۃ التنظیم
المرحلۃ الثانیہ : جھریۃ الدعوۃ، وسریۃ التنظیم
المرحلۃ الثالثہ : اقامۃ الدولۃ
المرحلۃ الرابعۃ : الدولۃ و تثبیت دعائمھا
المرحلۃ الخامسۃ : انتشار الدعوۃ فی الارض

مصنف نے پہلے مرحلہ کو ’’بعثت‘‘ سے شروع ہو کر {وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ}( 34الشعراء ۲۶: ۲۱۴) کے نزول تک، دوسرے مرحلہ کو نبوت کے دسویں سال تک، تیسرے مرحلہ کی انتہا ہجرت کے پہلے سال تک، چوتھا مرحلہ صلح حدیبیہ تک اور پانچواں مرحلہ نبی پاکﷺ کے وصال تک بیان کیا ہے۔ جب کہ ہر مرحلہ کی انتہا اگلے مرحلہ کی ابتداء ہے۔مصنف نے دعوت وتحریک کے درج بالا مراحل میں سے پہلے تین مراحل جوبالترتیب خفیہ دعوت، اعلانیہ دعوت اور قیام ریاست کے مراحل ہیں، کو پہلی جلد کے جزء اول میں بیان کیا ہے۔ جبکہ تاسیس ریاست کے چوتھے مرحلہ کو اسی جلد کے جزء دوم میں بیان کیا ہے تاہم یہ بیان غزوہ خندق تک ہے۔ جلد دوم میں مصنف نے صلح حدیبیہ اور اس کے مابعد کے واقعات اور دروس و اسباق کو وفات نبوی ﷺتک بیان کیا ہے۔

سیرت کا حرکی و دعوتی پہلو

کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ پوری کتاب ہی حرکی انداز میں سیر ت نگاری کی نمائندہ اور رحجان ساز کتاب ہے۔ یہ پوری سیرت کو مراحل دعوت و تحریک کی روشنی میں ہی زیر مطالعہ لاتی ہے اور اسی سے طلباء سیرت اور وابستگان تحریک کے لئے رہنمائی حاصل کرنے کا سامان پیدا کرتی ہے۔ ذیل میں سیرت کے مرحلہ وار مطالعہ اور کتاب کے اہم اقتباسات کی روشنی میں مصنف کے حرکی و دعوتی منہج کا جائزہ لیتے ہیں۔
مصنف نے مختلف روایات کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ قریش نے اس دور میں اس دعوت اور دین کو عجیب نظروں سے تو دیکھا ،مگر اس پر کوئی قد غن نہ لگائی ۔کیونکہ ان کے خیال میں یہ بھی کوئی اُسی طرح کا فرقہ ہے جیسا کہ ’’حنفاء کا مکی گروہ ‘‘ نیز اس لئے بھی کہ یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے کہ وہ جسکی چاہے، عبادت کرے ۔ اس سے مصنف نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہر ایسا مذہب جو زندگی کے ہر شعبہ میں دخل نہ دے، صرف ذاتی مسئلہ بن کر رہ جائے، اس پر وقت کی طاقتوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ لکھتے ہیں:۔

“ومن ھنا نفھم سر المھادنۃ التي نراھا احیاناً بین الحکومات الطاغیۃ وبعض المتدیئین من المسلمین، الذین یکتفون من الاسلام بالعقیدۃ في الضمیر والعبادۃ في المسجد۔ اذ ھؤلاء لا ید خلون الاسلام في شؤون الحیاۃ، وبالتالي فلا تھا بہم الطغاۃ۔”(35الغضبان ،ص ۳۱ )

مصنف نے قریش کی طرف سے نبی پاک ؐ سے مختلف مطالبات، اور ان کی طرف سے پیشکشوں کا ذکر کیا ہے۔ اور قریش نے جو مقاطعہ بنی ہاشم سے کیا اس پربڑی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اور بنی ہاشم و بنو عبدالمطلب کی طرف سے نبی پاکؐ کی حمایت اور قریش مکہ کے دو عسکری گروہوں میں بٹ جانے کا ذکر کیا ہے۔لکھتے ہیں:۔


“والحرکة الا سلامية وهي تخوض غمار الجهاد، وتواجه الجاهلية العاتية ، لا تعدم أن تجد بعض النماذج و التجمعات و القیادات الجاهلية والقبلية مثل بني هاشم وبني المطلب، وتنطلق من الأعراف والقوانین الجاهلية لحماية هذه الحرکة””(36 ایضاً، ص۱۱۵ )
آپ ﷺکے مختلف قبائل سے حمایت طلب کرنے پر مصنف لکھتے ہیں کہ ان سے دعوت اسلام کی حمایت مطلوب تھی اگرچہ وہ اسلام نہ لائیں جیسا کہ جناب ابو طالب کی حمایت موجود رہی تھی۔حمایت کی طلب پر کچھ قبائل نے آپؐ سے جانشینی اور سیاسی شراکت طلب کی، جس کا آپؐ نے انکار کر دیا۔ مصنف لکھتے ہیں۔

یمکن للحرکة الاسلامية أن تقبل حماية من مشرک في حالة ضعفها وعدم تمکنها، لکن أن یعطی هذا العدو الحق في أن یسود ویحکم باسمها ومن ورائها ویستغلها مطية لمآربة فهذا مرفوض في المیزان الاسلامي”( 37ایضاً، ص۱۴۵ )

مصنف نے، قرآن حکیم کے، غزوہ بدر کو’’فرقان‘‘ کہنے کی جو تشریح کی ہے ،وہ مصنف کے حرکی اسلوب کا بہترین نمونہ ہے۔ لکھتے ہیں:۔

“وکانت فرقاناً بین عهدین في تاریخ الحرکة الاسلامية : عهد المصابرة والصبر والتجمع والانتظار۔ وعهد القوة والحرکة والمبادأة والاندفاع۔۔ والاسلام بوصفه تصوراً جدیداً للحیاة، ومنهجاً جدیداً للوجود الانساني، ونظاماً جدیداً للمجتمع، وشکلاً جدیداً للدولة۔ بوصفه اعلاناً عاماً لتحریر الانسان في الأرض بتقریر ألوهية الله وحده وحاکمیته، ومطاردة الطواغیت التي تغتصب الوهیته وحاکمیته۔۔”(38ایضاً، ص۲۳۹ )

مصنف نے سیر ت نبوی کو تحریک اسلامی کے مراحل کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ کتاب حرکی منہج کی نمائندہ کتاب ہے۔ مصنف سیرت کے واقعہ سے نتائج اخذ کر کے موجودہ تحریکوں کے قائدین اور کارکنان کے لئے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

د۔ منہج انقلاب نبویﷺ

کتاب “منہج انقلاب نبویؐ۔سیرت النبی ﷺکا اجمالی مطالعہ ، فلسفہ انقلاب کے نقطہ نظر سے”( 39اسرارا احمد، ڈاکٹر، منہج انقلاب نبویؐ۔ مکتبہ خدام القران، لاہور،(ط۔۱۳) ۲۰۱۱) ڈاکٹر اسرار احمد کے بار ہ خطبات کا مجموعہ ہے ۔ یہ خطبات خاص طور پر سیرت نبویﷺ کی روشنی میں مراحل و منہج انقلاب کے فہم کے لئے منعقد کئے گئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑے فاضلانہ انداز میں انقلاب کے فلسفہ اور طریقہ کار پر روشنی ڈالی ہے اور ساتھ ساتھ سیرت کے انقلابی پہلوؤں کا اجمالی احاطہ کیا ہے۔
سیرت کا حرکی وانقلابی پہلو 
مؤلف نے حیات نبوی ﷺ سے، انقلاب کامل کا طریقہ، اپنے مراحل و لوازم کی رعایت کے ساتھ اخذ کیا ہے، اور انقلابی قیادت اور کارکنان کیلئے اسوہ حسنہ کی مثالوں سے اسباق جمع کیے ہیں۔ذیل میں ان کے منہج کی وضاحت ، کتاب کے اقتباسات کی مدد سے کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے پہلے خطبہ میں مراحل انقلاب کو سیرت نبویﷺ سے اخذ کیا ہے۔لکھتے ہیں:۔
“سیرت مطہرہ کے دوران جو حالات و واقعات پیش آئے ،انہیں خاص سے عام کر کے یعنی Generalize کر کے جو اصول و مبادی مستنبط ہوتے ہیں ،ان کی روشنی میں انقلابی عمل کے مراحل و مدارج اور لوازم طے کئے جائیں گے”(40 ایضاً، ص ۱۳)  
مصنف کے خیال میں انفرادی و اجتماعی زندگی کے چھ گوشے ہوتے ہیں جو بالترتیب عقیدہ، عبادات، سماجی رسوم، معاشرتی نظام ، معاشی نظام اور سیاسی نظام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کامل انقلاب ان سب پر حاوی ہوتا ہے اور اسے چھ ہی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔

۱۔ انقلابی نظریہ اور اسکی اشاعت
۲۔ انقلابی جماعت کی تشکیل و تنظیم
۳۔ ٹریننگ اور تربیت

اگلے تین مراحل کو تصام کا جامع عنوان دے کر تین درجات میں تقسیم کیا ہے۔

۴۔ تشدد و تعذیب کے جواب میں صبر محض
۵۔ اقدام اور چیلنج
۶۔ مسلح تصادم

مصنف نے تصادم کے مرحلہ اوّل ، صبر محض کو”کفوایدیکم”سے اخذ کیا ہے اور لکھتے ہیں:۔
“یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ تصادم کا آغاز ہمیشہ انقلابی دعوت دینے والوں کی طرف سے ہوتا ہے، چاہے وہ کوئی فرد ہو ، گروہ ہو یا جماعت ہو، اگرچہ وہ جماعت ہاتھ نہیں اٹھاتی، وہ کسی کو گالیاں نہیں دیتی، کسی کو کسی نوع کی جسمانی تکلیف نہیں پہنچاتی، لیکن وہ یہ دعوت لے کر اٹھتی ہے کہ پورا نظام غلط اور فاسد ہے اور اس داعیہ کا اظہار کرتی ہے کہ یا تو اس نظام کو بیخ و بُن سے اکھاڑ کر اپنے نظریہ کی بنیاد پر نیا نظام قائم کرکے رہیں گے یا اسی کوشش اور جدوجہد میں ہم اپنی جانیں دے دیں گے۔ جناب محمدالرسول اللہﷺنے یہ کہہ کر تصادم کا آغاز فرمایا کہ تمہارا مذہب غلط، تمہارا معاشرہ غلط، تمہارے اخلاق غلط، اور تمہارا پورا نظام غلط” (41اسرار احمد ڈاکٹر، منہج انقلاب نبوی، ص ۸۷)
اگلا مرحلہ اقدام کا ہے، جس کی تعیین بہت نازک ذمہ داری ہے۔ سیرت نبوی ﷺسے استشہاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ﷺنے طائف کا ارادہ فرمایا، تاہم اللہ تعالیٰ نے یثرب کو مرکز انقلاب بنانے کا فیصلہ فرمادیا ۔ سیرت میں اقدام کا مرحلہ ہجرت کے متصلاً بعد شروع ہوتا ہے۔ انقلاب کے اس مرحلہ میں استحکام پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے، جو آپﷺ نے مسجد نبویؐ کی تعمیر، مواخات کے انعقاد اوریہودی قبائل سے معاہدہ کے ذریعے حاصل کیا اورنہ صرف یہ کہ ابتدائی چھ ماہ تک کوئی کاروائی نہ کی بلکہ مدینہ کے حوالی میں قبائل عرب سے معاہدے کرنے میں وقت گزارا۔قریش کی سیاسی و معاشی ناکہ بندی کا طریقہ اختیار فرمایا۔ آٹھ مہمات اس غرض سے بھیجی گئیں،جن میں سے چار میں آپؐ بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ مسلح تصادم کا مرحلہ نخلہ سے شروع ہوتا ہے اور بدر، احد و احزاب اور فتح مکہ و خیبر تک جاری رہتا ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد نہ صرف بیرون عرب انقلاب کی توسیع کا عمل شروع ہوجاتا ہے بلکہ اندرون عرب انقلاب اپنے تکمیلی مراحل طے کرتا ہے۔خیبر کے بعد شاہان عالم کو خطوط بھیجنے سے قبل آپﷺ نے خطبہ ارشاد فرماکر مرحلہ توسیع کا افتتاح فرمایا (42 ایضاً، ص ۳۰۶) ۔ مؤلف کے نزدیک ہر انقلاب کی یہ لازمی خصوصیت ہے کہ وہ تکمیل کے بعد بیرونی دنیا میں اپنی توسیع کے مراحل طے کرتا ہے۔مصنف نے اس سلسلہ میں انقلاب نبویﷺ کے علاوہ انقلاب روس و فرانس کی مثالیں بھی دی ہیں۔

مؤلف کا اسلوب

مؤلف نے سیرت نبویؐ سے انقلابی اصولوں کے اخذ اور بیان کے لیے جو اسلوب اختیار کیا ہے اس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:-
۱۔ مؤلف نے سیرت نبویؐ سے مثالیں دی ہیں ۔مثلاً تربیت و تنظیم کے مرحلہ میں مشاورت، بیعت سمع و طاعت اور امتیاز جاہلیہ کے خاتمہ کو اساس تربیت قرار دے کر سیرت نبویؐ سے مشاورت کیلئے: بدر میں کیمپ کی تنصیب اور غزوہ احزاب میں غطفان سے معاہدہ کا مشورہ، بیعت سمع و طاعت کیلئے: بیعت رضوان اور امتیاز جاہلیہ کے خاتمہ کیلئے: حضرت زیدؓ کو غزوہ موتہ کی کمان سونپنے جیسی مثالیں دی ہیں۔
۲۔ مؤلف نے ہر مرحلہ انقلاب کے لوازم و مقاصدکے لئے آیات قرآنی سے بکثرت استشہاد کیا ہے اور دلائل دئیے ہیں۔ مثلاً انقلاب کے مقصد اور نصب العین کے لئے (ص ۶۰) قرآن کریم کی آیت{ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ} کا حوالہ دیا اور کارکنوں کی صفات کے لئے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۵۴ تا ۵۶ کا حوالہ دیا ہے (ص۶۶)اور اسی طرح دیگر مقامات پر بھی قرآنی آیات کے حوالوں سے بات کی ہے۔ 
۳۔ مؤلف نے مختلف صفات، خصوصیات اور مراحل انقلاب کوعنوانات دینے اور وضاحت کرنے کے لئے جا بجا قرآنی تشبیہات اور آیتوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے استعمال کیے ہیں۔ مثلاً مرحلہ صبر محض کو”کفو ایدیکم‘‘ کا عنوان دینا ( ص ۸۳) یا جماعتی ڈسپلن کے “واسمعو واطیعوا” کی اصطلاح (ص ۳۷) کا رکنوں کی صفت کے لئے “بنیان مرصوص”( ص ۳۷) اور اظہار دین حق”علی دین کلہ”( ص ۳۹) کی اصطلاحات شامل ہیں۔
۴۔ مؤلف نے موجودہ جماعتوں ، انقلابوں وغیرہ سے انقلاب نبوی کے موازنہ اور تطابق کا اہتمام کیاہے۔ مثلاً لکھتے ہیں’ ’یہی وجہ ہے کہ ہر انقلابی پارٹی کے Training Camp  ہوتے ہیں(ص ۱۷)۔ یا انقلاب کی توسیع کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ انقلاب فرانس و بالشویک انقلاب صرف فرانس و روس تک محدود نہیں ،بلکہ انقلاب کا یہ خاصہ ہے کہ اس کی بین الاقوامی توسیع کا عمل ہوتا ہے۔ (ص ۲۲) اسی طرح انقلاب کامل کی وضاحت کرتے ہوئے انقلاب نبوی ﷺ کا انقلاب روس و فرانس سے موازنہ کیاہے ( ص ۲۳)
۵۔ مؤلف نے موجودہ دور کی اسلامی وغیر اسلامی تحریکوں اور جماعتوں کی مثالیں بھی دی ہیں۔ مثلاً بغیر مناسب تیاری تصادم کے سلسلے میں تحریک شہیدین کی مثال ( ص۱۲۰) چورا چوری کے واقعہ سے تشدد کے مضر نتائج کا تذکرہ ( ص ۱۰۸) یا سکھوں کے گوردوارہ پر بندھک تحریک کی مثال سے صبر محض کے فوائد کا ذکر (ص ۲۰۹) وغیرہ۔
۶۔ مؤلف منہج حر کی کی تشریح اور انقلاب نبویﷺ کی برتری ثابت کرنے کے لئے مستشرقین اور اغیار سے اقوال بھی لاتے ہیں۔ مثلاً واٹ کا یہ قول درج کیا ہے کہ” اعلی ترین تدبیر و تفہیم ، معاملہ فہمی، انسان شناسی، دوراندیشی ۔ ان تمام اعتبارات سے جو اوصاف کسی بلند پایہ مدبر ، کسی سیاستدان ، کسی حکمران، کسی Statesman کے اندر ہونے چاہیں، وہ بہ تمام و کمال محمد ﷺ میں موجود تھےـ”(43ص ۲۷۴) ۔ اسی طرح ایک جگہ پر مصنف نے گاندھی کے متعلق بہ اصرار یہ صراحت کی کہ اُس نے فلسفہ عدم تشدد سیرت مصطفٰی ﷺ سے سیکھا تھا(ص۱۱۱)۔
الغرض مولف نے دلائل قرآن و سیرت سے نہ صرف انقلاب کے مراحل و لوازم بلکہ کارکن، جماعت نصب العین، اور قائد کی خصوصیات وغیرہ کا با التفصیل ذکر کیا ہے اور آخر میں سیرت نبویؐ کی روشنی میں اخذ کردہ آخری مرحلہ تصادم ” مسلح کشمکش” کا، موجودہ زمانہ کے تمدن اور حالات میں انطباق ، طریقہ کار اور متبادل کا تفصیلی انداز میں تجزیہ کر کے راہ عمل متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔

4. نقد و تبصرہ

منا ہج سیر ت نگا ری کی طر ح منہج حرکی بھی ارتقا ء علم کے ایک منطقی و تا ر یخی عمل کا حصہ ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسا نی حیا ت میں ارتقا ئی عوا مل سعی وخطاسے مبرا نہیں ہو تے ۔انسا ن اپنے تجر با ت اور دوسرو ں کی آ را ء اور تنقید سے سیکھتا ہے اور اپنی اصلا ح کر تا ہے ۔ 
 منہج حر کی کا نشو و ارتقا ء چو نکہ تحر یکو ں کی ایک بنیا دی ضرور ت کے پیش نظر و قوع پذ یر ہوا، اس لیے مقصد کی محدود یت کے وہ اثرا ت جو کسی چیز کی افا د یت کو کم کر دیتے ہیں، اس رحجان پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ضرور ی نہیں کہ مو جو دہ ز ما نہ میں سیر ت کے تصور کی وسعت کی وجہ سے، نبی پا کﷺ کے مشن کے تنا ظر میں حیات پاک کو دیکھنے کا جو رحجا ن پیدا ہوا ہے،وہ د یر پابھی ثا بت ہو ۔ تا ہم ز ما نہ حال میں اسکی افا دیت اور مقبو لیت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا ۔اس مقبو لیت کا ثبو ت منہج حر کی کی ر حجا ن ساز کتب کے تھو ڑ ے ہی عر صہ میں چھپنے والے در جنوں ایڈ یشنو ں نے مہیا کیا ہے ۔تفصیل مند ر جہ ذ یل ہے ۔

محمد عربی ۵۶ (۲۰۱۳ ؁ء تک)
محسن انسانیت ۴۲(۲۰۱۰ ؁ء تک)
حیات طیبہ ۳۹(۲۰۰۸؁ء تک)
داعی اعظم ۳۷ ( ۲۰۱۳؁ء تک)
منہج انقلاب نبوی۔ ۱۳ ( ۲۰۱۱ ؁ء تک)
انسان کا مل۔ ۷ ایڈیشن
رسول اکرمؐ کی حکمت انقلاب ۶ ( ۲۰۰۸ ؁ء تک)

سینکڑو ں کی تعدا دمیں مختلف ر سا لوں میں چھپنے والے وہ مضا مین بھی اس کا ثبو ت ہیں، جن میں تحر یک اسلا می کے حوالے سے سیر ت کی معنویت پر گفتگو کی گئی ہے یا نبی پا کﷺ کے تد بر و سیا ست کی کسی خا ص جہت پر رو شنی ڈا لی گئی ہے ۔لیکن غور سے صورت حال پر نظر ڈالی جا ئے تو یہ بھی نظر آ تا ہے کہ ایسے مضا مین یا کتب جن میں حر کی ر حجا ن نما یاں تھا ،اُ ن کی آ مد،اشا عت اور طباعت اب رک سی گئی ہے یا اُ ن میں ایک ذیلی رجحان یعنی حضورؐ کی سیرت کی سیاسی جہت پر تحقیقی انداز میں کتب لکھنے کی طرف جھکاؤ پیدا ہوا ہے۔ اس کی وجہ تحریکوں کی اس ناکامی میں پنہاں ہے ،جو ان کے پندرہویں صدی کو اسلام کی صدی بنانے کے تصور کے ٹوٹنے کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ تحریکوں کے عروج کا رومانس جدید دنیا کے تلخ سیاسی حقائق سے ٹکرا کر ختم ہونے کے نتیجہ میں ایسی کتب اور مضامین کی تعداد میں کمی واقع ہو نا یا ان کا ٹھوس سیاسی تجزیات سے مزین کتب کی صورت میں ڈھل جانا ،ایسے حقائق ہیں، جن سے اس منہج کے ارتقاء اور اس کی محدود افادیت جیسے مظاہر کے وجود کا پتہ چلتا ہے۔
منہج حرکی پر لکھنے والوں پر جو بڑے اعتراض کیے جاتے ہیں، وہ یہ ہیں:۔
۱۔ سیرت کو سیاسی اور تحریکی رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔
۲۔ جدید اصطلاحات کے شوق میں انقلاب جیسی منفی اور تحریک جیسی محدودا صطلا حا ت کو اس حد تک سیرت میں استعمال کیا گیا ہے کہ ان کتب میں اسلام کی پہچان بطور ہدایت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور دعوت تبلیغ وغیرہ کی قرآنی اصطلاحات پس منظر میں چلی گئی ہیں۔
۳۔ نبی پاک ﷺکا تعارف اﷲ تعالیٰ کے رسولﷺ کے طور پر کروانے کی بجائے ایک مصلح مدبر اور سیاسی لیڈر کے طور پر ہونے لگا ہے۔ نبوت پس منظر میں اور لیڈر شپ پیش منظر میں نظر آرہی ہے۔ یہ انداز مستشرقین کا ہے۔
۴۔ نبی پاکﷺ کیلئے ادب و محبت اور عزت و تکریم کے الفاظ اور جذبات جو کسی سیرت نگار اور کسی مسلمان کا خاصا ہونے چاہیں وہ اکثر تحریروں اورکتب میں موجود نہیں ہیں یا کم ہیں اور مفرد صیغہ میں بلا القابات عزت و تکریم نبی پاکﷺکا ذکر عام ہے۔ جو سیرت نگاری کے دائمی مقاصد سے متصا دم ہے۔
۵۔ انقلا ب کی تشریح کرتے ہوئے اسلام کو اشتراکیت، جمہوریت وغیرہ سے موازنہ نہ کیا گیا ہے اور اس کے برابر کردیا گیا ہے۔
ذیل میں ان اعتراضات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔اس جا ئزہ کے اکثر نکا ت کا تعلق تحر یکی سیر ت نگاروں سے ہے ۔
۱۔ جہاں تک پہلے اعتراض کا تعلق ہے، تو اس کی شہادت حرکی کتب سیرت کا اندرونی نظم اور موادمہیا کرتا ہے۔ کتب کے عنوانات، اس کے ابواب اور ذیلی ابواب کی سرخیاں اور واقعات سیرت پر مصنفین کے تبصرے ،اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں کہ سیرت نگاری میں ان مصنفین کی اکثریت تحریکی جوش و خروش کا شکار ہوگئی ہے۔ کتب پر ایک تحریکی و سیاسی فضا تنی ہوئی محسوس ہوتی ہے یا کم از کم کچھ خاص ابواب میں مصنفین کا تحریکی ولولہ نمایاں ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں اس منہج کی کتب کو بالاستیعا ب دیکھ کر اور ان پر کیے گئے تبصروں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔
۲۔ دوسرا اعتراض حرکت اور انقلاب جیسے الفاظ کے سیرت نگاری میں استعمال سے متعلق ہے۔ ان الفاظ کی عمر محدود ہے اور تاریخ مختصر، جبکہ اس بات سے کسی کو انکار بھی نہیں ہے ۔ تاہم مدعیان کا دعوی ہے کہ ان کی تاریخ کا اختصار ان کے غلط ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتا،بلکہ یہ الفاظ مقبول و مستعمل ہوگئے ہیں۔ حامد کمال الدین نے کہا ہے کہ تحریک کے لفظ کی عمر پچاس، سو سال سے زیادہ نہیں۔( 44 قطب،محمد،کیف ندعو الناس(اردو ترجمہ حامد کمال الدین)مطبوعات ایقاظ،لاہور ط۲،مارچ ۲۰۰۸،عرض مترجم ص۸۔) ڈاکٹرابو الخیرکشفی نے’’ تحریک ‘‘پر اعتراض کرتے ہوئے اسے اسلام کیلئے قبائے مختصر کہا ہے۔(45 کشفی، ابو الخیر، اردو میں سیرت نگاری، مشمولہ نقش سیرت (مرتبہ نثار احمد)ادارہ نقش تحریر،کراچی،۱۹۶۸ ) خرم مراد لفظ “تحریک” کے اختیارکے جواز میں دلائل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
“تحریک کاایک لفظ اور اسے ہم نے اپنی ہم عصر تہذیب کی لغت سے اختیار کیا ہے۔جب تحریک کا لفظ بنایا گیا تو وہ ایک نیااور غیرمعروف لفظ تھا یہ لفظ قرآن وسنت میں نہیں پایا جاتا تھا،لوگوں نے اس پراعتراضات بھی کیے کہ تحریک کا لفظ اختیار کر کے دراصل دین ومذہب کو سیاسی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔تاہم اب یہ لفظ مشہور ہو گیا ہے اور مقبول ہو گیا ہے۔( 46خرم مراد،کارکن اورقیادت سے تحریک کے تقاضے ،منشورات،لاہور۲۰۰۳،ص۲۵)
جبکہ تحریک کی طرح لفظ انقلاب پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے۔ ان حضرات نے انقلاب کی جو تعریفیں کی ہیں اس پر بھی ان کے یہا ں اتفاق نہیں ہے۔ مثلاًڈاکٹر خالد علوی نے باطل کو چیلنج کرکے اس پر غالب آنے کو انقلاب کہا ہے ۔تاہم وہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ قرآن حکیم کی اصل اصطلاح انقلاب نہیں۔لکھتے ہیں:۔
“آپﷺ کے تبلیغی مشن کے لئے قرآن پاک نے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں مثلاً تبلیغ، تبشیر، انداز اور تذکیر وغیرہ ۔ قرآن مجید میں آپﷺ کی مساعی کو انہیں اصطلاحوں میں استعمال کیا ہے”۔ ( 47علوی، خالد، انسان کامل،یونیورسٹی بک ایجنسی،لاہور،۱۹۷۴،ص۱۵۸)
مزید لکھتے ہیں:۔
“دور حاضر جسے عام طور پر دور انقلاب کا نام دیا جاتا ہے، نے چند مغالطوں کو پروان چڑھایا ہے۔ اور انہی مغالتوں کی بناء پر تخریب ہو رہی ہے اور اسی تخریب کو انقلاب کا نام دیا جا رہا ہے۔ “(48ایضاً ، ص۲۲۷ )
انقلاب کے قرآنی اصطلاح نہ ہونے اور اصل قرآنی اصطلاحات کی موجودگی کے اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ یہ منفی معنوں میں مستعمل ہے،خود دعوی کرنے والوں کی طرف سے اس اصطلاح کے خلاف ثبوت ہیں۔ مولانا اخلاق قاسمی نے بھی کہا کہ انقلاب فرد کے ظاہر وباطن کی تبدیلی سے شروع ہوتا ہے اور اس اصطلاح کے ناقص ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ لکھتے ہیں:۔
موجودہ سیاسی تحریکات میں انقلاب کے مفہوم میں شور و شر، تخریب کاری اور مفسدہ پر دازی اور سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کی ہنگامی جدوجہد شامل ہوگئی ہے۔ اس لئے قدیم علماء، انقلاب کے لفظ سے اجتناب کرتے تھے۔ اور اس کی بجائے ’’اصلاح‘‘کا لفظ استعمال کرتے تھے۔( 49 قاسمی،مولانا اخلاق حسین،رسول اکرم ﷺ کی انقلابی سیرت،مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۹۰ء،ص ۷)
علماء انقلاب کا انقلاب کی تعریف میں عدم اتفاق اور اس اصطلاح کے اختیار کرنے کی وجوہات کے کمزور دلائل اور اس بات کا اعتراف کہ اصل اصطلاح تبثیر، تذکیر،، تبلیغ اور دعوت اور اصلا ح ہی ہیں جو کہ قرآن سے ثابت ہیں ۔ خرم مراد کا لفظ تحریک کے دفاع میں یہ کہنا کہ یہ قرآن و سنت میں نہیں پایا جاتابلکہ ہم نے اسے ہم عصر لغت سے اختیار کیا ہے، خود اس بات کا متقا ضی ہے کہ ان الفاظ پر آنے والے اعتراض کو توجہ سے سنا جائے اور انکے استعمال پر اصرار نہ کیا جائے۔ معاملہ اصطلاح کے مجرد استعمال کا بھی نہیں بلکہ مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ لفظ متن میں اتنی بار استعمال کیے جاتے ہیں کہ گویا اسلام کے دامن میں ان دو لفظوں کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔ 
۳۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ان کتب سیرت میں آنحضورؐ ﷺکی لیڈر شپ کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ نبوت پس منظر میں چلی جاتی ہے اور آپﷺ کا کردار ایک مصلح اور مدبر کا ہی نظر آتا ہے۔ مولانانعیم صدیقی کے یہاں ایسے القابات مثلاًنقیب تحریک(محسن انسانیت ،ص۱۵۴) قائد انسانیت(ص۸۸،۲۹۲) انسان اعظم(ص۷۱) بہترین داعی و قائد(ص۴۰) تحریک کے سربراہ (ص۱۰۱) تحریک فلاح انسانیت کے قا ئد(ص۲۹۷) استعمال ہوئے ملتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں۔ 
“تاریخ گواہی دیتی کہ وہ سب سے بڑا تاریخ ساز تھا”(ص۴۸) 
“آپ لوگ محمد ﷺ کو ایک تاریخ ساز ایک محسن انسانیت ،اک قائد تمدن اور ایک انسان اعظم کی حیثیت سے جانیں”(ص۸۰)
’’رسول پاکﷺ خلق خدا کیلئے نجات دہندہ بن کر تشریف لائے‘‘(ص۳۷)
ڈاکٹرخالد علوی کے ہاں لفظ قائد انقلاب (انسان کامل،ص۴۴۱،۲۴۴،۲۴۲،۲۳۷،۲۳۶،۱۴۹) خطیب انقلاب (ص۲۱۱) قائد تحریک (ص۳۵۳،۳۵۱)منتظم ریاست (ص۳۶۱ ۳۵۳) (داعی انقلاب۱۳۰) کے الفاظ ملتے ہیں۔ 
یہ رجحان ہمارے مصنفین پر مستشرقین کی تحریروں کےمنفی اثرات کی غمازی کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے ایسے طرز ادا، اسالیب، مناہج کا دفاع کیا جارہا ہے، جس میں آپﷺ کی اصل حیثیت ، پس پشت چلی جاتی ہے اور تحریک، انقلاب، قیادت، سیاست، تدبریوں نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے کہ قاری کا ذات رسالت مآب سے حبی و تعظیمی تعلق کمزور ہو جاتا ہے۔ 
سعید رمضان بو طی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:۔
“یہ دراصل مغر ب کے شعبہ استشر اق کی چا ل با زی تھی ۔ان کا طریقہ یہ تھا کہ محمد ﷺ کو بطور ایک بڑے ریفا رمر کے ما ن لیا جا ئے اور مسلما نوں کے ہا ںوحی ،غیبیا ت اور معجزات جیسے جو مسلمات پا ئے جا تے ہیں،انہیں ذہنوں سے محو کر دیا جا ئے۔ فی الواقع وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہو ئے ۔”( 50البوطی، محمدسعید رمضان، فقہ السیرۃ، دارالفکربیروت، الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۰۰ھ، ص ۱۸)
علا مہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:۔
 یو رپ کے مورخین کے اثرات سے، ملک میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا جو پیغمبر کو محض ایک مصلح سمجھتا ہے ،جس نے اگر مجمع انسا نی میں کو ئی اصلا ح کر دی تو اس کا فر ض ادا ہو گیا اس با ت سے اس کے منصب نبوت میں فر ق نہیں آتا کہ اس کے دامن اخلا ق پر معصیت کے دھبے بھی ہیں ۔(51 شبلی نعمانی،مولانا،سیرۃ النبیﷺ۔ دار الاشاعت ، کراچی، ۱۹۸۵ء، مقدمہ ،ص۲۱ )
ڈاکٹرتحسین ٖ فراقی، مولاناعبد الماجد دریابادی کے حوالے سے لکھتے ہیں: 
 “حضور اکرمؐ ﷺ کو اللہ کا برگزیدہ نبی سمجھنے کے بجائے انھیں صرف مصلح اور بطلِ اعظم سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے صوبے کے گورنر سے کہا جائے کہ حضور والا کے اختیارات کا کیا کہنا، آپ پٹواریوں سے بڑھ کر اختیارات رکھتے ہیں۔( 52 فراقی، تحسین ،مشرقین کا سلوب سیر ت نگا ری اور مو لا نا عبد الما جد دریا با ری ۔مشمولہ مقالات بین الاقوامی سیمینار: دور جدید میں سیرت نگاری کے رجحانات(۲۶ تا ۲۸ مارچ ۲۰۱۱ء) ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد(غیر مطبوعہ)ص ۳۸۳)
۴۔ اس منہج کے سیرت نگاروں کے متعلق چوتھی بات یہ کی جاتی ہے کہ ان میں سے بہت سوں کی تحر یرو ں میں ادب و تکریم ذات ر سا لت کا لحاظ نہیں رکھا گیااور بجا ئے اسکے کہ وہ سیرت سے ادب و احترا م نبوت میں اضا فہ کر یں ۔وہ عا میا نہ سے انداز میں آ پﷺ کا ذ کر کر تے ہیں ۔ تاہم یہ اعترا ض پو رے منہج حر کی کے سیر ت نگا رو ں پر نہیں کیا جا سکتا ۔ اکثر سیرت نگار، ادب کے تقاضوں سے آشنا اور فن کی ضرورتوں سے آگاہ ہیں۔
۵۔ اس منہج کے حوالے سے سیرت نگاروں پر پانچواں اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسلام کو ادیان و مذاہب کے دائرے سے نکال کر تحریکوں اور انقلابات کے دائرہ میں لے آتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے کامل و مکمل دین کی عظمت ثابت کرنے کیلئے اس کا موازنہ فرانسیسی، امریکی اور بالشویک انقلابات سے کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک دین ایک سیاسی و معاشی نظام سے زیادہ جگہ نہیں پا سکا۔ حرکی منہج سیرت کے حوالے سے لکھی گئی ،کئی کتب میں اس اعتراض کی حقیقت کو محسوس کیا گیاہے۔ ان دنیاوی انقلابات سے موازنہ کرنے والوں میں: ڈاکٹراسراراحمد، ڈاکٹر خالد علوی، مولانانعیم صدیقی، سید اسعد گیلانی اور الطاف جاوید کے نام شامل ہیں۔ 
 سیرت نگاری کے اس منہاج پرعلماء کے اعتراض درج ذیل ہیں:۔
ڈاکٹر طاہر القادری رقمطراز ہیں:۔ 
“اس دور میں احیائے اسلام اور ملت کی نشاۃ ثانیہ کی جس قدر علمی و فکری تحریکیں منصہ شہود پر آئی ہیں ان کی تعلیمات سے جو تصور مسلمانوں کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں پیدا ہورہا ہے وہ یہی ہے کہ اسلام کو بحیثت نظام حیات قبول کر لینا اور حضورﷺ کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی کمال ایمان اور محبت رسول ہے اور اس اتباع کے علاوہ رسالت مآب ﷺ کی ذات ستودہ صفات سے خاص قسم کا قلبی، عشقی، اور جذباتی لگائو مقصود ایمان ہے اور نہ تعلیم اسلام بلکہ یہ جاہلانہ شخصیت پرستی کی ایک صورت ہے جو توحید خالص کے منافی ہے”( 53طاہر القادری، ڈاکٹرمحمد، مقدمہ سیرۃ الرسولﷺ ، منہاج القرآن پبلی کیشنر، لاہور، ط پانزدہم، ۲۰۱۱، ص۴۵
ٖمولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں:۔ 
“مارکسزم کو تاریخ کی معاشی تعبیر Economic Interpretation of History کہا جاتا ہے کیونکہ کارل مارکس نے جس طرز پر زندگی اور اس کے واقعات کی تشریح کی ہے ،اس میں معاشی پہلو تمام چیزوں پر غالب آگیا ہے اسی طرح سید ابوالاعلی مودودی نے جس ڈھنگ سے دین کو پیش کیا ہے اس میں ہر چیز پر ایک قسم کا سیاسی رنگ چھا گیا ہے اس اعتبارسے اگر ان کی تعبیر کو ’’دین کی سیاسی تعبیر‘‘ کا نام دیا جائے تو یہ بڑی حد تک ایک صحیح بات ہوگی”۔(54 وحید الدین ، خان، مولانا، دین کی تعبیر، مکتبہ الرسالۃ، دہلی ، ۱۹۹۰، ص۱۱ )
ایک مسلم سیرت نگار کا ایمان اور حضور ﷺ کا منصب یہ تقاضا کرتا ہے کہ سیرت نگار اس باب میں احتیاط کرے۔ ایک مسلم جب اپنے ہا دی ﷺکا تعا ر ف دنیا والو ں سے کروا نے چلے تو اسے یہ کہنا روا نہیں کہ’’ محمد تا ر یخ ساز ہیں ،وہ قا ئد انقلا ب قا ئد تحر یک، خطیب انقلاب ،سپہ سا لا ر اعظم ،منتظم ر یا ست، نقیب ر یا ست، نقیب تحر یک ،قا ئد تمد ن ہیں ۔اگر وہ ہر مو ڑ پر آ پؐ کا تعا ر ف رسول اللہﷺ کہہ کر نہ کروائے اور انہی القابات کو دہراتا چلا جائے تو یہ سوال ضرور پیداہوگا کہ وہ کیسی سیرت لکھنے چلا ہے کہ وہ ’’اسلام ‘‘ کو اشتر ا کیت اور جمہو ر یت جیسی اصولی تحر یکو ں جیسی ایک تحر یک اور اللہ تعالیٰ کے ر سول کو اس کے’’ مؤ سس‘‘ کے در جہ پر لے کر آ گیا ہے۔ 
سیرت نگار کو قلم اٹھانے سے پہلے نہ صرف نزاکت فن کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے، بلکہ مقام رسالت کا تازہ بتازہ ادراک {وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ }اور{إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ} جیسی سینکڑوں آیات سے لیتے رہنا چاہیے۔ سب جانتے ہیں کہ کہاں سیاستدانوں اور قائدین ومدبرین کی نارسائی اور کہاں اسراء کے شہوار کا مقام و مرتبہ، پھر موازنہ کیسا اور القاب کیسے! ۔ 
یہ حقیت بھی نظر وں سے اوجھل نہیں رہنی چا ہیے کہ ایسا با لکل نہیں ہے کہ منہج حر کی کے تحت سیر ت نگا ری کر نے والے تمام سیر ت نگا رو ں پر اعترا ض مو جو د ہوں اور نتیجۃً یہ منہج درست سمت میں تر قی نہ کر رہاہو، بلکہ وا قعہ یہ ہے کہ ان سیرت نگا رو ں میں سے اکثر یت کی سیرت نگاری کسی بھی ظا ہر ی خا می سے مبرا ہے اور سیرت مصطفیﷺ سے خلو ص ،دیا نت دار ی اور دین کا درد تو سب کا مسلم اور کسی بھی شک و شبہ سے با لا تر ہے۔ نقد کر نے اور اعترا ض کر نے کے پیچھے بھی چو نکہ خلو ص ہی کی کا ر فر ما ئی ہے، لہذا یہ سمجھنا چاہیے کہ اس سے صرف ان امو ر کی طرف تو جہ د لا نا مقصو د ہے ،جن کی طرف انسان غفلت ،کو تا ہی یا کسی جذ با تی کیفیت کے زیر اثر کسی وقت تو جہ نہیں دے پا تا ۔
سیرت نگاری میں محبت اور عقل کے توازن کی ضرورت پرمولانا سیدابو الحسن علی ندوی نے زور دیا ہے۔ مشن سے محبت بھی بجا ہے، مگر وہ ایسا غلبہ نہ پالے کہ فن کے تقاضے نظر انداز ہو جائیں۔ ’’با محمد ہوشیار‘‘کی کیفیت کے ساتھ سچی واقعات نگاری ہی تقاضائے فن ہے۔
ہم منہج حرکی کے اب تک کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ منہج ابھی اپنے ارتقاء کے مراحل میں ہے۔ تحریکوں کی بظاہر ناکامی سے پھیلنے والی مایوسی نے اس جذباتی کیفیت کو ختم کرنے میں کردار ادا کیا ہے ،جو اس طرح کی کتب میں موجود تھی جو اب سیاست و ریاست کے سنجیدہ مطالعہ کے ذوق میں ڈھلتی محسوس ہوتی ہے۔ جہاں تک ان مصنفین کا تعلق ہے، جو پہلے ہی سیاست و ریاست نبویؐ کے میدان میں اپنی تحقیقات پیش کرچکے ہیں، تو ان میں سے ایک ڈاکٹر محمد حمید اﷲ صاحب ہیں، جن کی مقبولیت ، ثقاہت اور سیرت نگاری میں ان کے مرتبے کا یہ عالم ہے کہ ان کو ” فن سیرت نگاری کا مجدد اور امام” تسلیم کیا گیا ہے۔

5 ۔ سفارشات

۱۔ انقلا ب اور تحریک کی اصطلا حا ت پر ازسر نو غو رکر کے ان کے معنیٰ کو نہ صر ف متعین کیا جا ئے بلکہ ان کے استعما ل کے حق میں اورمخالفت میں آ راء کا غیر جا نبدار ی سے جا ئزہ لیا جا ئے۔ 
۲۔ نبی پاکﷺکے ادب کو ملحو ظ خا طر ر کھتے ہو ئے سیرت نگاری میں آ پﷺ کے لیےادب و احترام اور تکریم کے الفاظ و القاب استعمال کیے جائیں۔
۳۔ سیرت نگاری کے حرکی منہج حر کی پر عر بی کتب کا اردو میں تر جمہ کر نے کا اہتما م کیا جا ئے اور خا ص طو ر پر سیا ست و حکو مت سے متعلق عا لم عر ب میں چھپنے والی کتب سے استفا دہ کیا جا ئے ۔
۴۔ منہج حر کی کے تمام سیر تی مواد کی استنا دی حیثیت کا جا ئزہ ایک مر بو ط اور جد ید تحقیق میں لیا جا ئے ۔
۵۔ سیا ست و ریا ست نبو یﷺ کے متعلق کتب میں تحقیقی انداز سے دور نبو تﷺ کے درو س واسباق کے مو جو دہ دور پر انطبا ق کی را ہیں تلاش کی جائیں۔

  • 1
    الاحزاب ۳۳:۲۱
  • 2
    الشرح ۹۴: ۴
  • 3
    اسرار احمد،ڈاکٹر ،منھج ا نقلاب نبوی،انجمن خدام القرآن،لاہور،ط ۱۳،۲۰۱۱، ص۱۱
  • 4
    احمد الموصلی ، الدکتور، موسوعۃ الحرکات الاسلامیۃ فی الوطن العربی و ایران و ترکیا۔کانون الثانی، بیروت، ۲۰۰۴، ص۷
  • 5
    المنجد عربی اردو ،دارالاشاعت،کراچی ،1975،مادہ ن۔ھ۔ج
  • 6
    الغضبان،منیر محمد ،د۔المنھج الحرکی للسیرۃ النبویۃ، مکتبۃ المنار اردن، (س۔ن) ص ۷۵
  • 7
    محمد علیم، منہج حرکی سیرت نگاری کا جدید رجحان ۔تحقیقی مطالعہ، مقالہ ایم ۔فل علوم اسلامیہ،(غیر مطبوعہ) علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، ۲۰۱۳، ص ۳۶۲
  • 8
    غازی ،محمود احمد، ڈاکٹر،محاضرات سیرت،الفیصل ناشران، لاہور،ط سوم ۲۰۰۹،ص۶۵۰
  • 9
    غازی ،محمود احمد، ڈاکٹر،محاضرات سیرت،الفیصل ناشران، لاہور،ط سوم ۲۰۰۹،ص۶۵۰
  • 10
    کشفی ، ابو الخیر ،اردو میں سیرت نگاری ، مشمولہ نقش سیرت ، مرتبہ نثار احمد ، ادارہ نقش تحریر کراچی، ۱۹۶۸، ص۷۵
  • 11
    شاہ علی ،ڈاکٹر،اردو میں سوانح نگاری۔گلڈ پبلشنگ ہاؤس، کراچی،۱۹۶۱،ص۲۱۳
  • 12
    غازی ، محمود احمد،محولہ بالا، ص ۶۴۶
  • 13
    صدیقی،شکیل احمد ،ڈاکٹر،اردو سیر ت نگا ری ۔انقلا بی وتحریکی رجحا ن ۔معا رف مجلہ تحقیق جو لا ئی ۲۰۱۲،ص۱۶۳
  • 14
    اسرار احمد ،ڈاکٹر، اسلام کی نشأۃ ثانیہ۔ انجمن خدام القرآن، لاہور، ط۱۵، ۲۰۱۱،ص ۱۶
  • 15
    صدیقی، یٰسیں مظہر، ڈاکٹر،سیرت نبوی پرمغربی مصنفین کی انگریزی تصانیف۔سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علی گڑھ، جولائی۔ستمبر ۱۹۸۴،ص۲۸۷
  • 16
    عزیز احمد ،پروفیسر،بر صغیر میں اسلامی جدیدیت،(ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی) ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور،۲۰۰۶،ص98 بحوالہ تحقیق الجہاد ص،78
  • 17
    Syed Ameer Ali, The Spirit of Islam, Cosimo classic, New York, 2010. PP 281-283 ایضاً،ص137 ۔بحوالہ
  • 18
    حالی ،الطا ف حسین ،تاریخ محمدی پرمنصفا نہ رائے ،قلمی نسخہ مخرونہ ،شیخ محمد اسما عیل پا نی پتی ۔ ص ۲۳بحوالہ خالد، انورمحمود،ڈاکٹر،اردو نثر میں سیرت رسولﷺ،اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،۱۹۸۹،ص ۳۷۵
  • 19
    کاشمیری ۔صلاح الدین ۔محولہ با لا ص۳۵
  • 20
    دریابادی،عبد الماجد،سیرۃ نبوی قرآنی، مکہ بکس لاہور،س۔ن ، ص۲۱۵
  • 21
    مبارکپوری ، صفی الرحمن الرحیق المختوم ، المکتبۃ السلفیۃ ، لاہور، س۔ن، ص۴۷۵
  • 22
    نعیم صدیقی، محسن انسانیت، الفیصل ناشران لاہور، ۲۰۱۰، ص ۵۴۲
  • 23
    نعیم صدیقی،محسن انسانیتﷺ،الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور(بیالیسواں ایڈیشن )۲۰۱۰
  • 24
    صدیقی، محمد شکیل، اردو سیرت نگاری۔ انقلابی و تحریکی رحجان۔ معارف جملہ تحقیق شمارہ نمبر ۴ جولائی دسمبر۲۰۱۲، ادارہ معارف اسلامی، کراچی
  • 25
    نعیم صدیقی ، محسن انسانیت، ص ۱۷
  • 26
    نعیم صدیقی ، محولہ بالا،ص۳۴
  • 27
    ایضاً، ص ۵۵
  • 28
    سورۃ الانفال۸: ۲۶
  • 29
    گیلانی ،سید اسعد ،رسول اکرمﷺ کی حکمت انقلاب، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور،۲۰۰۸
  • 30
    ایضاً، ابتدائیہ و حرف ثانی، ص ۱۳۔۱۵
  • 31
    ایضاً، ص ۶۷
  • 32
    ایضاً،ص ۵۳۹
  • 33
    الغضبان ، منیر محمد،ڈاکٹر،المنہج الحرکی للسیرۃ النبویۃ،مکتبہ المنار، الزرقائ۔اردن، س۔ن
  • 34
    الشعراء ۲۶: ۲۱۴
  • 35
    الغضبان ،ص ۳۱
  • 36
    ایضاً، ص۱۱۵
  • 37
    ایضاً، ص۱۴۵
  • 38
    ایضاً، ص۲۳۹
  • 39
    اسرارا احمد، ڈاکٹر، منہج انقلاب نبویؐ۔ مکتبہ خدام القران، لاہور،(ط۔۱۳) ۲۰۱۱
  • 40
    ایضاً، ص ۱۳
  • 41
    اسرار احمد ڈاکٹر، منہج انقلاب نبوی، ص ۸۷
  • 42
    ایضاً، ص ۳۰۶
  • 43
    ص ۲۷۴
  • 44
    قطب،محمد،کیف ندعو الناس(اردو ترجمہ حامد کمال الدین)مطبوعات ایقاظ،لاہور ط۲،مارچ ۲۰۰۸،عرض مترجم ص۸۔
  • 45
    کشفی، ابو الخیر، اردو میں سیرت نگاری، مشمولہ نقش سیرت (مرتبہ نثار احمد)ادارہ نقش تحریر،کراچی،۱۹۶۸
  • 46
    خرم مراد،کارکن اورقیادت سے تحریک کے تقاضے ،منشورات،لاہور۲۰۰۳،ص۲۵
  • 47
    علوی، خالد، انسان کامل،یونیورسٹی بک ایجنسی،لاہور،۱۹۷۴،ص۱۵۸
  • 48
    ایضاً ، ص۲۲۷
  • 49
    قاسمی،مولانا اخلاق حسین،رسول اکرم ﷺ کی انقلابی سیرت،مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۹۰ء،ص ۷
  • 50
    البوطی، محمدسعید رمضان، فقہ السیرۃ، دارالفکربیروت، الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۰۰ھ، ص ۱۸
  • 51
    شبلی نعمانی،مولانا،سیرۃ النبیﷺ۔ دار الاشاعت ، کراچی، ۱۹۸۵ء، مقدمہ ،ص۲۱
  • 52
    فراقی، تحسین ،مشرقین کا سلوب سیر ت نگا ری اور مو لا نا عبد الما جد دریا با ری ۔مشمولہ مقالات بین الاقوامی سیمینار: دور جدید میں سیرت نگاری کے رجحانات(۲۶ تا ۲۸ مارچ ۲۰۱۱ء) ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد(غیر مطبوعہ)ص ۳۸۳
  • 53
    طاہر القادری، ڈاکٹرمحمد، مقدمہ سیرۃ الرسولﷺ ، منہاج القرآن پبلی کیشنر، لاہور، ط پانزدہم، ۲۰۱۱، ص۴۵
  • 54
    وحید الدین ، خان، مولانا، دین کی تعبیر، مکتبہ الرسالۃ، دہلی ، ۱۹۹۰، ص۱۱
Leave a Comment

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *