رسالہ سیرت ’’أوجز السير لخير البشر‘‘کا مطالعہ

مقالہ # 3  (اس مقاله كي ببلوگرافيكل معلومات حسب ذيل هيں: محمد علیم و علی طارق ،علامہ ابن فارس کے رسالہ سیرت  ’’أوجز السير لخير البشر‘‘کا مطالعہ، مجلہ ابحاث ،(لاہور: گیریژن یونیورسٹی) جلد ۹ شمارہ ۳۴ (۱پریل ۔ جون ۲۰۲۴) ، ص ۲۲۔۴۴)

تعارف

سیرت طیبہ  پر تقریبا ہر زبان ، ہر خطے اور ہر زمانے میں  علما نے اپنی کاوشوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور صاحب سیرت ﷺ کی خدمت اقدس میں نیاز مندی کا اظہار کیا ہے۔ سیرت اور متعلقات سیرت کے ہر موضوع پر لا تعداد بڑی چھوٹی کتب  لکھی گئیں ، جو اصلا ً سیرت کے دور تدوین کی کتب سے ماخوذ  اور ان پر مبنی ہیں۔ یہ دور دوسری ، تیسری اور چوتھی صدی ہجری پر مشتمل ہے ۔ اس میں علوم اسلامیہ کی دیگر شاخوں سمیت سیرت کے بنیادی مصادر مدون ہوئے اور مختلف علمی  و تدوینی رجحانات پیدا ہوئے اور  مقبول ہوتے رہے۔ سیرت نگاری میں  ایک رجحان مختصر سیرت نگاری کا ہے۔  یہ رجحان ابن سعد کی کتاب الطبقات کی ابتدا میں اجمالی فصل سیرت  سے شروع  ہو کر امام  بخاری ؒ ، ابن قتیبہؒ، علامہ فسویؒ   کی کتب تاریخ  کے نامکمل ابواب  اور علامہ یعقوبی کی کتاب التاریخ کے جامع اور مکمل باب سیرت کے ذریعے سے ارتقا کی منازل طے کرتا ہوا، پہلی بار ایک نامکمل، مگر مستقل مختصر کتاب سیرت  ” أوجز السير لخير البشر”   کی صورت میں واضح شکل اختیار کر گیا ۔  یہ کتاب مذکور مشہور  لغوی  ابو الحسین احمد بن فارس بن زکریا الرازی (ت۳۹۵ھ)  کی تصنیف ہے، جو اس مقالہ میں ہمارے پیش نظر اور زیر تبصرہ ہے۔

مؤلف کا تعارف :

ابو الحسین احمد بن فارس بن زکریا بن محمد بن حبیب (۳۹۵ھ)،کوفی دبستان  کے ماہر لغت و علم صرف و نحو  تھے ۔ان کے والد  بھی شافعی فقیہہ اور لغوی تھے ۔ وہ بلاد دیلم کے گاؤں کرسف  جیاناباذ میں  تقریبا    ۳۱۲  ہجری میں پیدا ہوئے۔ان کی نسبت رازی بلاد دیلم کے شہر “الری” يا ” رے” کی طرف ہے۔  انہوں نے سب سے پہلے قزوین کا سفر کیا اور  علی بن ابراہیم القطان  اور  ابراہیم بن علی سے استفادہ کیا ۔پھر زنجان کا سفر کیا اور احمد بن الحسن بن الخطیب سے اخذ علم کے بعد  بلاد شام میں میانج  میں احمد بن الطاہر بن النجم   سے علم حاصل کیا۔ انہوں نے طلب حدیث میں بغداد کا سفربھی  کیا  ، اس کے بعد مدت تک موصل میں قیام کیا  ،پھر حج  کے لیے مکہ مکرمہ کا سفر کیا اور پھر   ہمذان میں زیادہ وقت گزارا ۔ اواخر عمر  وہ  رے میں بلائے گئے، تاکہ ان  کی شاگردی   مجد الدولہ ابو طالب بن فخر الدولہ کر سکیں، جنہوں نے  ابن فارس کو سکونت اور مال و دولت عطا کیا  ۔  ابن  فارس  نے اس کے بعد وہیں پر قیام کیا ، رے كے محلہ محمدیہ  میں وفات پائی اور  قاضی علی بن  عبد العزیز الجرجانی کے مزار کے سامنے دفن ہوئے۔ ان کی وفات کے مقام پر مؤرخین کا اتفاق ہے، تاہم تاریخ وفات میں مختلف اقوال ، جن میں  395 ھ کا قول راجح ہے(1القفطي، جمال الدين أبو الحسن علي بن يوسف (646هـ)، إنباه الرواة على أنباه النحاة، (المكتبة العنصرية، بيروت)، ط: الأولى، 1424 هـ ، 130/ 1۔ و الذهبي ، شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد (748ه)، سير أعلام النبلاء(مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرناؤوط)،)مؤسسة الرسالة ، بيروت) ،ط: الثالثة ، 1405 هـ / 1985 م، 104۔105/ 17۔) ۔

ابن فارس الرازی کو متعدد علوم بالخصوص لغت میں بڑی مہارت حاصل تھی اور ان کا شماراعیان علم میں ہوتا ہے۔انہوں نے قزوین ،ہمذان، بغداد اور حج کے دوران مکہ معظمہ میں تعلیم حاصل کی ۔ان کے استادوں میں خاص طور پر ان کے والدگرامي ، ابوبکر احمد بن الحسن الخطیب ، ابو الحسن علی بن ابراہیم القطان اور ابو عبداللہ احمد بن طاہر النجم شامل ہیں۔ اگرچہ ابن فارس اور ان کے والد شافعی تھے تاہم  آخری عمر میں انہوں نے مالکی مذہب اختیار کر لیا  اور اس کا سبب یہ بتایا کہ ایسا  انہوں نے غیرت دینی کی وجہ سے کیا ہے کہ رے جیسے مختلف مسالک و مذاہب کے شہر میں امام مالک جیسے مقبول امام کے مذہب کا وجود نہیں ہے(2عبد الرحمن بن محمد الأنباري الأنصاري نزهة الألباء في طبقات الأدباء ، تحقيق: محمد أبو الفضل إبراهيم، (دار الفكر العربي، القاهر)، 1418ه/ 1998م، 278) ۔   شيعی مؤرخ   محسن الأمين العاملی (1371هـ) نے دعوی کیا ہے کہ ابن فارس شیعہ تھے(3العاملي، محسن الأمين أعيان الشيعة (تحقيق: حسن الأمين)، (مؤسسة جواد للطباعة والتصوير، بيروت)، 1403/ 1983.ج۳ ص 60 ۔) ، تاہم علماء نے اس دعوی کی تردید کی ہے کیونکہ القفطی (646هـ )نے واضح طور پر ان کو اہل سنت میں شمار کیا ہے(4القفطي ، إنباه الرواة على أنباه النحاة ج 1/ ص130) ۔

ابن فارس کی سیرت پر  تصانیف

ابن فارس نے اپنے وقت کی علمی ترقی میں اپنی متعدد تصانیف کے ذریعے بہت فعال حصہ لیا ۔ ہلال ناجی نے اپنی کتاب “أحمد بن فارس: حياته- شعره- آثاره” میں ابن فارس کی) ۶۱ (کتب کو شمار کیا ہے ، جن میں بعض مطبوع ، مخطوط اور مفقود ہیں 5هلال ناجي، أحمد بن فارس: حياته- شعره- آثاره ، مطبعة المعارف، بغداد، 1970م۔ ص: 34_60۔ یاقوت حموی نے معجم الادباء میں ابن فارس کی سیرت پر تین کتابوں کا ذکر کیا ہے(6ياقوت الحموي ، شهاب الدين أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومي الحموي (ت ٦٢٦هـ)، معجم الأدباء ،(المحقق: إحسان عباس)، دار الغرب الإسلامي، بيروت، ط: الأولى، ١٤١٤ هـ / ١٩٩٣ م، ج۲ ص۷۔

‌أ.          تفسیراسماء النبی علیہ الصلوة و السلام ( یہ کتاب ماجد الذھبی کی تحقیق سے اسماء الرسول و معانیھاکے عنوان سے  شائع ہو گئی ہے(7احمد بن فارس ، اسماء الرسول و معانيها (تحقيق: ماجس حسن الذهبي)،مجله عالم الكتب، مج:8، ش : 3 ، محرم 1408ه ، ص 334 ۔ 345 )
‌ب.         اخلاق النبی ﷺ (8بروكلمان نے اس كے قازان (سابق سوويت يونين ) ميں ايك نسخه كي خبر دی ہے۔كارل بروكلمان ، تاريخ الادب العربي ، الهيئة المصرية العامة ، 1993، القسم الاول 1۔2 ، ص597/2)
‌ج.          سیرت النبی ﷺ ۔صغیر الحجم ۔ (یہی  اوجز السیر کے نام سے زیر تبصرہ ہے)
‌د.          حاجی خلیفہ اور اسماعیل پاشا بغدادی نے ایک چوتھے رسالہ فضل الصلاة علي النبي ﷺ کا بھی اضافہ کیا ہے(9کشف الظنون جلد نمبر 1279/2، هدية العارفين 68/1۔) ۔
‌ه.             جبکہ علامہ سخاوی نے اعلام النبوۃ کے نام سے ابن فارس كي ایک کتاب سیرت کا تذکرہ کیا ہے(10السخاوي، شمس الدين محمد بن عبد الرحمن (ت ٩٠٢ هـ)، الإعلان بالتوبيخ لمن ذم أهل التوريخ ( تحقيق: سالم بن غتر بن سالم الظفيري)، دار الصميعي للنشر والتوزيع، الرياض ، ط: الأولى، ١٤٣٨ هـ – ٢٠١٧ م) ۔

مختصر سيرت النبی ﷺ  ( اوجز السير  لخير البشر  )کا تعارف   :

أوجز السير لخير البشرعلامہ احمد بن فارس الرازی  (۳۹۵ ھ)   كا سیرت پر مختصر ترین رسالہ ہے، جس کا  اصل متن صرف آٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔اس کی متعدد اشاعتیں ہوچکی ہیں۔ اس مختصر رسالہ سیرت کے مخطوطات مختلف ناموں سے بہت سی  لائبریریوں میں تقریبا دنیا کے ہر خطہ میں  موجود ہیں، جن میں سعودی عرب ، مصر، مراکش ، ہندوستان، امریکہ ، جرمنی، اٹلی ، بریطانیہ شامل ہیں۔ بروکلمان اور ديگر فہرست نگاروں نے دنیا بھر میں اس کتاب کے متعدد نسخوں کی اطلاع فراہم کی ہے (11کارل بروكلمان ، تاريخ الادب العربي ، الهيئة المصرية العامة ، 1993، القسم الاول 1۔2 ، ص597/2۔)، جن سے ظاہر ہوتا ہے كہ مؤلف گرامی نے اس کتاب سیرت کو کوئی عنوان نہیں دیا  اور نہ ہی مؤلف کے ترجمہ نگاروں نے کسی ایک معین نام کی تصریح کی ہے ، تاہم اس كتاب  کے نسخے مختلف ناموں سے لائبریریوں میں محفوظ ہیں اور غالبا یہ مختلف نام نسخ کرنے والوں نے درج کیے ہیں۔ اس کتاب کا ایک نسخہ  اسکوریال (ديرنبورج 1615)    میں  “مختصر سير رسول الله” کے عنوان سے   اوردونسخے دار الکتب المصریہ میں “سيرة ابن فارس اللغوي المختصرة” کے نام سے رقم ۴۶۰ تاریخ اور ۴۹۴ مجامیع  میں  محفوظ ہیں ۔  ایک  مخطوط برلين میں نمبر 9570  پر عنوان ” مختصر في نسب النبي ومولده ومنشئه ومبعثه” کے نام سے موجود ہے۔ ایک اور نسخہ المعهد الشرقي جامعه هامبورج ميں  ص 10 رقم ( ۱۴  ) پرعنوان “اخصر سيرة سيد البشر ” كے نام سے محفوظ ہے۔ ويٹی كن كے نسخہ رقم(  ۱۴۴/7)  كا نام  راعي الدرر ورامق الزهرفي أخبار خير البشر ہے ۔  اسی طرح خزانہ حسینیہ رباط میں  موجود مخطوطہ کا نام  “رائع الدرر ورائق الزهر في أخبار سيد البشر= أوجز السير لخير البشر  مذکور ہے(12كشاف المخطوطات الخزانة الحسينيه(تحقیق : عمر عمور)۔ منشورات الخزانة الحسينية، ص ۱۹۱) ۔

مسعد سويل الشامان نے  بھی متعدد مخطوطات کا ذکر کیا ہے،  جن میں    مکتبہ ولی الدین آفندی  رقم 2187 (اوراق  114أ تا  117ب ) اہم ہے، کیونکہ اس پر متعدد علماء کی سند درج ہے ، جن میں  مشہور محدث  علامہ ابن الصلاح بھی شامل ہیں(13ملاحظات على كتب ومخطوطات السيرة النبوية- مسعد سويلم الشامان ،عالم الكتب المجلد الثالث، العدد الثالث ،ص 341۔) ۔ اس کتاب كا ایک اور اہم مخطوطہ مکتبہ لغت تاریخ جغرافیہ انقرہ میں قسم اسمعيل صائب ميں رقم 3/400 کے تحت موجود مجموعہ کے ورق84 ب سے 91 أ ،  تک پایا جاتا ہے۔ جس کی ابتداء میں اس کی اسناد لکھی ہوئی ہیں ۔

کتاب کی ایک اہم اشاعت کے محقق ہلال ناجی نے اپنی اشاعت کے لیے جن دو نسخوں پر اعتماد کیا ہے ، وہ معهد المخطوطات بجامعة الدول العربية میں رقم 1976(یہ نسخہ اصلا دار الکتب المصریہ کے رقم ۴۹۴ مجامیع کی نقل ہے) اور 704 – تاريخ (اصلا دار الکتب المصریہ میں رقم ۴۶۰ تاریخ کی نقل ہے) کے تحت موجود ہیں(14مجلّة المورد العراقية ، مج 2: ع 4 (1393 ه- 1973 م)، ص 143- 154. (تحقيق و تقديم: هلال ناجي )) ۔ ان دونوں نسخوں پر بھی کتاب کی اجازات کی سند درج ہے ، جسے ہم آگے درج کریں گے۔

اس کتاب کے درجنوں مخطوطات مختلف مکتبات میں پائے جاتے ہیں تاہم مقالے کی مجوزہ ضخامت کی مجبوری، ان مخطوطات کے احصاء کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مخطوطات کی اتنی زیادہ تعداد اس کتاب کی مقبولیت کا پتہ دیتی ہے۔

طباعات :

علامہ  ابن فارس کی مختصر کتاب سیرت  کی متعدد اشاعتیں ہوئی ہیں ، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

‌أ.          أبی الحسين أحمد بن فارس بن زكريا اللغوی( 395  )کی مختصر سيرة الرسول ایک دفعہ الجزائر سے1301 ھ میں عنوان ” أوجز السير لخير البشر ”  کے عنوان سے شائع ہوئی۔

‌ب.        دوسری بار  بمبئی سے  1311  ھ میں عنوان ” أوجز السير لخير البشر المنقول من الخط القديم المنور برواية أهل الأثر و النقل المعتبر عن الامام أبي الحسين أحمد بن فارس بن زكريا رحمه الله تعالى ” سے شائع ہوئی ۔

‌ج.         ایک اشاعت  مصر سے ۱۹۴۷ ء  میں  مصطفی الحلبی نے كی(15کمال مصطفیٰ ، الاتباع و المزاوجة لابن فارس (مقدمه تحقيق) ، القاهرة ، 1947م، ص 26۔) ۔

‌د.          ایک اشاعت دمشق سے  ہوئی ، جس کا سال اشاعت معلوم نہیں(16د۔ شاکر الفحام، اللامات لابن فارس (فهارس ملحقة) ، مطبوعات مجمع اللغة العربيه ، دمشق، 1973، ص 44۔) ۔

‌ه.          اس کتاب کو مجلہ المورد نے   ہلال ناجی کی تحقیق سے 1973 م  میں اپنے ایک شمارے میں شائع  كيا ۔

‌و.         یہ کتاب محمد محمود حمدان کی تحقیق سے قاہرہ سے دو بار طبع ہوئی(17ابن فارس، أحمد بن فارس بن زكريا الرازي، أوجز السير لخير البشر(تحقيق: محمد محمود حمدان)، دار الرشاد، القاهرة- مصر، الطبعة الاولیٰ: 141۳ /199۳ والطبعة الثانية 141۳ /199۳م ۔) ۔ اس مقالہ میں ، اس اشاعت کی طباعت اول  ہمارے پیش نظر ہے۔  اولاً اس طباعت میں دار الکتب المصریہ کے مخطوطہ  رقم  (۴۹۴) مجامیع  پر انحصار کیا  گیا ہے ، اور ثانیاً   اس  کتاب کی قدیم ہندی  ہجری طباعت  پر تصحیحات وغیرہ  کے لیے انحصار کیا گیا ہے۔

علماء کا  ابن فارس کی مختصر سیرت النبی ﷺ سے اعتناء

اس کتاب سے علماء نے کثیر استفادہ اور اعتنا کیا ہے اور  اپنے شیوخ سے اس کتاب کی روایت اور تدریس کی اجازات حاصل کیں ، جن کا ذکر بہت سی کتب فہارس اور تراجم میں پایا جاتا ہے۔ان سلاسل سند کا ذکر ذیل میں ہے:

  1. محمد محمود حمدان نے ابن فارس کی کتاب کے مخطوطہ اور بمبئی سے مطبوعہ نسخہ  کے حوالہ سے ابن فارس کی کتاب سیرت کی سند علامہ ابن الصلاح سے دو سلسلوں کے ساتھ علامہ ابن فارس تک ذکر کی ہے، جس میں  نامور محدثین ، فقہا ء اور سیرت نگاروں کے نام شامل ہیں۔  یہ دونوں سلسلے ذیل میں درج ہیں۔

‌أ.              ایک سلسلہ علامہ ابن الصلاح (643 ھ)ابی الخطاب عمر بن حسن  ابن دحیہ الکلبی ( 633 ھ)، علامہ ابی القاسم عبد الرحمن سہیلی( 581 ھ)، قاضی ابو بکر محمد بن عبد اللہ ابن العربی المالکی( 543 ھ) ، ابی الفتح نصر بن ابراہیم المقدسی( 490 ھ)اورابی الفتح  سلیم بن ایوب الرازی( 447 ھ)کے واسطہ سے احمد بن فارس الرازی( 395 ھ)تک جاتا ہے۔

‌ب.           دوسرا سلسلہ سند   جو ہندی طباعت  پر درج تھا ، وہ اس طرح سے ہے : مجھے خبر دی شیخ سیف الدین عبدالرحمن بن المظفر المروروزی نے ، انہوں نے روایت کیا  علامہ ابن الصلاح (643 ھ)  سے ، انہوں نے   ابي القاسم عبد الصمد بن ابی عبد الله  المعروف بإبن الحرستانی   (۶۱۴ھ)سے روایت  کیا،  انہوں نے  ابی القاسم  اسماعیل بن محمد بن الفضل الاصبھانی   (۵۳۵ھ) سے ،  انہوں نے  سلیمان بن ابراہیم  ابو مسعود الاصبھانی الملنجی (۴۸۶ھ)  اور عبد اللہ بن محمد الفقیہہ النیلی  سے  ، انہوں نے  علی بن قاسم المقری ء سے  اور انہوں نے ابن فارس احمد بن زکریا الرازی سے روایت کی ہے۔

  1. مسعد سویلم الشامان نے جن دو سندوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک اس طرح ہے :

‌أ.              یہ  مختصر سيرة الرسول ﷺ  ہے،  جسے امام  أبی الحسين احمد بن فارس بن زکریا الرازی  رحمہ اللہ  نے جمع فرمایا اور ان سے ابی الحسین علی بن قاسم المقری نے روایت کیا ، ان سے ابی داود سلیمان بن ابراہیم   اور ابی محمد عبد اللہ بن محمد النیلی  دونوں نے روایت کیا اور ان دونوں سے ابی القاسم اسماعیل بن محمد بن الفضل الاصبھانی  نے ، ان سے ابی الحسین احمد بن حمزہ بن علی بن الموارینی  نے ، ان سے اجازۃ سے روایت کیا جھمہ بنت ھبۃ اللہ بن علی بن حیدرہ السلمی   نے  اور ان سے سماعت کی محمد بن احمد بن عبد الرحیم بن علی الشیبانی نے ۔

‌ب.           جبکہ دوسرے نسخہ کی سند اس طرح ہے  : ہمیں خبر دی شیخ امام علامہ مفتی شام ، حجةالحفاظ تقی الدين  ابو عمر عثمان بن عبد الرحمان بن عثمان بن نصر النصری الشہرزوری  المشہور بابن الصلاح  نے ، ان سے روايت تسلسل كے ساتھ  ابو الفتح سلیم بن ایوب (447ھ)کے واسطہ سے احمد بن فارس الرازی (395ھ)   تک جاتی ہے۔ یہ سلسلہ سند غالبا وہی ہے جس کا ذکر  محمد محمود حمدان نے ابن فارس کی کتاب کی روایت  کے سلسلہ میں ابن الصلاح سے سلیم بن ایوب (447 ھ)  تک کیا ہے۔  دوسرے نسخہ کی سند اس طرح ہے  : ہمیں خبر دی شیخ امام علامہ مفتی شام ، حجةالحفاظ تقی الدين  ابو عمر عثمان بن عبد الرحمان بن عثمان بن نصر النصری الشهرزوری  المشهور بابن الصلاح  نے ، ان سے روايت تسلسل كے ساتھ  ابو الفتح سلیم بن ایوب (447)کے واسطہ سے احمد بن فارس الرازی (395ھ)تک جاتی ہے۔ یہ سلسلہ سند غالبا وہی ہے جس کا ذکر  محمد محمود حمدان نے ابن فارس کی کتاب کی روایت  کے سلسلہ میں ابن الصلاح سے سلیم بن ایوب (447 ھ)  تک کیا ہے۔

‌ج.            ہلال ناجی نے  اپنی اشاعت کے لیے جن دو مخطوطات پر اعتماد کیا  ، یہ معهد المخطوطات بجامعة الدول العربية  کے رقم ۱۹۷۶ تاریخ  اور ۷۰۴ تاریخ ہیں ۔ یہ دونوں مخطوطات دارالكتب المصريہ میں بالترتیب ارقام  494 مجاميع اور 460 تاريخ کے حامل ہیں۔ان میں سے مؤخر الذکر مخطوطہ کی سند  اس طرح سے ہے:  ہمیں خبر دی علامہ  موفق الدین ابوذر احمد  اور علامہ ابو البرکات عز الدین عبد العزیز بن ابی جراد الحنفی الحلبی  نے جن کے سامنے میں (ناسخ ) نے اس کتاب کو پڑھا ، انہوں نے بتایا کہ انہیں اول الذکر کے والد گرامی شیخ الاسلام برہان الدین   ابراہیم بن محمد بن خلیل  سبط العجمی  نے اجازت دی  ، انہیں خبر دی صلاح الدین محمد بن ابی عمر نے ، انہوں نے شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن عبد الرحیم المقدسی سے متفرد سماعت کی ، اور قاضی تقی الدین سلیمان بن حمزہ المقدسی         سے سماعت کی  ان دونوں نے کہا کہ انہیں  امام ابو القاسم عبد اللہ بن الحسین بن رواحہ حموی  نے اول الذکر کو اجازت سے اور ثانی الذکر کو سماعت سے    خبر دی،   وہ کہتے ہیں انہیں خبر دی حافظ ابو طاہر احمد بن محمد بن احمد السلفی  نے، انہیں ابو الفتح سعد بن ابراہیم الصغار  نے ، انہیں علی بن القاسم المقریء نے اور انہیں ابو الحسین احمد بن فارس بن زکریا الرازی (مؤلف ) نے  خبر دی ۔

  1. کثیر مغربی علماء کے مسلسلات ، فھارس اور برامج میں اس مختصر کتاب سیرت کی سنداً و متناً روایت کا ذکر ملتا ہے۔ علامہ القاسم بن يوسف بن محمد التجيبی البلنسی السبتی  نے اپنے برمجہ میں اس کتاب کا نام ” المختصر الموسوم برائع الدرر ورائق الزهر في أخبار خير البشر صلى الله عليه وسلم” درج کیا ہے اور اس کی روایت پر اپنی سند اس طرح سے نقل کی ہے:  میں نے مکمل کتاب از اول تا آخر   شیخ أبی عبد الله محمد بن محمد بن عبد الله الكتامی الضرير التلمسانی المعروف بابن الخضار، رحمه الله تعالى پر پڑھی ،  انہوں نے متعدد مرتبہ  قرآت ، حفظ اور سماعت سے اسے القاضی الجليل المحدث أبی مروان محمد ابن أبی عمر أحمد ابن أبی مروان عبد الملك اللخمی ، ثم الباجی، رحمه الله تعالى سے حاصل کیا ،  جنہوں نے دو فاضلین  ابو القاسم عبد الرحمان الحبیش اور ابو القاسم عبدالرحمن السھیلی  سے سماعت کی ، ان دونوں نے   القاضی أبی بكر بن العربی الحافظ سے سماعت کی ، انہوں نے نصر بن ابراہیم سے  سماعت کی ، انہوں نے ابی الفتح الرازی سے سماعت کی  اور انہوں نے خود مؤلف ابی الحسین  سے سماعت کی(18التجيبي ,القاسم بن يوسف بن محمد البلنسي السبتي، برنامج )تحقيق: عبد الحفيظ منصور(،) الدار العربية للكتاب، ليبيا ، تونس(، 1981، ص ۱۳۵۔
  2. الصاحب ابی القاسم اسماعیل بن عباد نے اپنی مختصر کتاب “عنوان المعارف و ذكر الخلائف” میں ابن فارس کی کتاب سیرت سے مواد اخذ کیا ہے اور اس کا حوالہ بھی دیا ہے ، تاہم  بعض جگہوں پر اپنے استاد گرامی سے مختلف معلومات ذکر کی ہیں، جس کا تفصیلی متنی مطالعہ کسی اور مقالہ میں پیش کیا جائے گا ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
  3. قاضی ابن العربی مالکی نے جامع ترمذی کی اپنی شرح  ” عارضة الأحوذي بشرح صحيح الترمذي ” میں غزوات النبی  ﷺکے باب میں ابن فارس کی کتاب پر اعتماد کیا ہے اور ان کی عبارتیں دی ہیں اور اس کا حوالہ دیا ہے۔ واضح ہو کہ علامہ ابن فارس کی کتاب کے راویوں میں ابن العربی مالکی کا نام آتا ہے، جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔
  4. علامہ شمس الدین الذہبی نے تاریخ الاسلام کبیر میں الترجمہ النبویہ کے باب میں ابن فارس سے نقل کرکے اس کا حوالہ بھی دیا اور ابن فارس کا باب “سلاح النبيﷺ و دوابه و عدته” بعینہ پورا کا پورا نقل کیا  اور ابن فارس تک اپنی سند ذکر کی(19لذهبي ، أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (ت ٧٤٨ هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (تحقيق : د بشار عوّاد معروف)،( دار الغرب الإسلامي ، بيروت)، ط: الأولى، ١٤٢٤ هـ – ٢٠٠٣ م، ج 1 ص 789
  5. محب الطبری نے خلاصہ سیرسید البشر میں ابن فارس سے اخذ کیا اور ان کی کتاب سیرت کی تواریخ کو اپنی مختصر جامع سیرت میں شامل کیا(20الطبري ،محب الدّين أحمد بن عبد اللّه بن محمّد بن أبي بكر بن إبراهيم ( 694 ھ)، خلاصة سير سيد البشر،(محقق: محمد بن انسان فرحات)، (دار المودة، مصر)، ط : الاولي، 2011 م۔) ۔
  6. علامہ محمد بن يوسف الشامی نے اپنی کتاب سیرت سبل الهدى والرشاد میں  علامہ ابن فارس کی مختصر کتاب سیرت سے نبی اکرم ﷺ کے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے نکاح کے وقت  جناب ابو طالب کا ادا کیا جانے والا خطبہ نقل کیا ہے ،  جس کا انہوں نے حوالہ بھی دیا ہے ۔ لکھتے ہیں : وذكر ‌أبو ‌الحسين بن فارس وغيره رحمهم اللَّه تعالى أن أبا طالب خطب يومئذ فقال الحمد للَّه الذي جعلنا من ذرية إبراهيم۔۔۔۔ الخ(21الشامي ، محمد بن يوسف الصالحي (٩٤٢هـ)، سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد وذكر فضائله وأعلام نبوته وأفعاله وأحواله في المبدأ والمعاد(تحقيق :عادل أحمد عبد الموجود و علي محمد معوض)، (دار الكتب العلمية ،بيروت) ، ط: الأولى، ١٤١٤ هـ ، ج ۲ ص 165)
  7. علامہ قسطلانی نے  المواھب اللدنیہ میں متعدد مقامات پر ابن فارس کی مختصر سیرت سے استفادہ کیا ہے ۔  مثلا معراج کے وقت کی تعین میں ابن فارس کا حوالہ دیا ہے (22القسطلاني، أحمد بن محمد بن أبى بكر شهاب الدين (ت ٩٢٣هـ)، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية،( المكتبة التوفيقية، القاهرة)، ج۱ ص 162) ، نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے حضرت قاسم  ؓ کی وفات کے حوالے سے ابن فارس کا یہ قول لکھا ہے کہ وہ بعثت سے قبل اتنی عمر کے ہو کر فوت ہوئے کہ وہ سواری پر سوار ہو لیتے تھے(23نفس المصدر ، ج۱ ص ۴۷۹)  ۔ اس کے علاوہ علامہ قسطلانی نے ابن فارس کی دیگر کتب سے بھی حوالے ديے ہیں ، جن میں  کتاب اسماء النبی ﷺ کا حوالہ بھی شامل ہے(24نفس المصدر ، ج۲ ص ۱۳۹) ۔
  8. امام حلبی نے بھی سیرت حلبیہ میں     نبی اکرم ﷺ کے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے نکاح کے وقت جناب  ابو طالب کا خطبہ ابن فارس کے حوالے کے ساتھ درج کیا ہے(25الحلبي علي بن إبراهيم بن أحمد ،برهان الدين (ت ١٠٤٤هـ)، إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون ، (دار الكتب العلمية ، بيروت)، ط: الثانية ،١٤٢٧هـ، ج۱ ص ۲۰۱۔) ۔
  9. ابن ناصر الدین الدمشقی نے جامع الآثار فی السير ومولد المختار میں ابن فارس کی متعدد کتب کے حوالے دیے ہیں ، جن میں اس مختصر کتاب سیرت کی عبارات کے حوالے بھی موجود ہیں۔ لکھتے ہیں: وذكر أبو الحسين بن فارس اللغوي: أن عمره ﷺ كان حينئذ (لما توفي جده)ثمان سنين وشهرين وعشرة أيام (26الدمشقی، محمد بن عبد الله ،ابن ناصر الدین ، جامع الآثار فی السير ومولد المختار(تحقيق: ابی یعقوب نشآت کمال)، ( ادارہ العامہ للاوقاف ، قطر)، ۲۰۱۰، ج ۳ ص ۳۸۵).

علماء کی کثیر تعداد نے علامہ ابن فارس کی دیگر کتب اور اس مختصر سیرت سے استفادہ کیا ہے اور ابن فارس کے حوالے دیے ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر ہم نے بطور وضاحت  اور ثبوت کے درج کیا ہے، کیونکہ  اس مختصر مقالہ میں ان تمام حوالہ جات کا احصاء مقصود نہیں تھا۔ صرف اس سے کتاب کی اہمیت اور مابعد سیرت نگاری پر پڑنے والے اثرات کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا۔  علماء نے  اس کتاب سیرت کی شروحات بھی لکھی ہیں اور اسے نظم بھی کیا ہے۔ اس كي تين شروح اور ايك نظم كا مختصرتذكره  ذیل کے صفحات ميں كيا  گیا ہے۔

کتاب کی شروحات:

علامہ ابن فارس کی کتاب سیرت کی تین شرحیں کی گئیں ، جو اس کتاب کی مقبولیت کا پتہ دیتی ہیں۔ ان میں سے دو شرحیں  تاحال مخطوط ہیں، جبکہ ایک شرح  زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہے۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے

  1. 1. اس کتاب کی پہلی شرح علامہ الحسن بن ابی القاسم بن باديس القسنطینی ( 701- 787 ھ) نے کی۔ اس شرح کا نام فرائد الدرر و فوائد الفكر في شرح مختصر السيرة لابن فارس‌ ہے ۔ اس کا ایک نسخہ   مخطوطات الازهر  رواق المغاربة 1014 پر موجود ہے(27المنجد، صلاح الدين ،معجم ما ألّف عن رسول اللّه(ﷺ)،( دار الكتب الجديد، بيروت)، ط: الأولى، 1402 ھ/ 1982 م،  122. و أنظر: معجم اعلام الجزائر 27) ۔   جبکہ ایک اور نسخہ  خزانة جامع الزيتونة تونس میں رقم  (1737) کے تحت موجود ہے(28الرفاعي، عبد الجبار، معجم ما کُتب عن الرسول و أهل البیت صلوات الله علیهم ،( وزارة فرهنك و ارشاد إسلامي، تهران)، 1371 (ج2 ص288 رقم 4701)) ۔  تاریخ  الجزائر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شرح نامکمل رہ گئی(29أبو القاسم سعد الله ،تاريخ الجزائر الثقافي، (دار الغرب الاسلامي، بيروت)، ط:الاولى، 1998م ، ج1 ص 62)  ۔ اس كے جامعہ الازھر کے مخطوطہ کا مصور نسخہ مركز البحث العلمي واحياء التراث الاسلامي، مکہ مکرمہ میں بھی رقم( ۲۴ )کے تحت محفوظ کیا گیا ہے (30الحلو،عبد الفتاح محمد، خزانة التراث – فهرس مخطوطات، (مطبعة مركز الملك فيصل للبحوث و الدراسات الإسلامية، الرياض)، رقم 99678
  2. 2. اس کتاب کی دوسری شرح مستعذب الإخبار بأطيب الأخبار کے عنوان سے     أبو مدين بن أحمد بن محمد بن عبد القادر بن علي الفاسي (المتوفى: بعد 1132هـ) نے کی ہے،جس کا مخطوطہ معهد المخطوطات بجامعة الدول العربية میں نمبر 2017 تاريخ پر محفوظ ہے اور یہ مطبوع بھی ہے(31الفاسي ،محمد بن أحمد الفهري، مستعذب الأخبار بأطيب الأخيار )تحقيق: أحمد عبد الله باجور)، (دار الكتب العلمية، بيروت)، الطبعة الأولى: 1425 /2004) ۔
  3. 3. اوجز السير لخير البشر کی ایک شرح محمد بن المدنی بن علی بن عبد الله كنون(1302 هـ) نے بھی لکھی مگر یہ نامکمل رہ گئی (32الكتاني ، محمد عَبْد الحَيّ بن عبد الكبير (ت ١٣٨٢هـ)، فهرس الفهارس والأثبات ومعجم المعاجم والمشيخات والمسلسلات (المحقق: إحسان عباس)،( دار الغرب الإسلامي ، بيروت)، ط:2، 1982 ، ج1 ص 498

  منظومہ سیرت :

 علامہ ابی محمد عبد السلام  بن الطیب  القادری الحسنی الفاسی  (1110 ھ)  نے اس کتاب کو نظم کیا ۔  علامہ ابن فارس کی مختصر کتاب سیرت  کی مذکورہ  نظم   ایک سو اکیس (121)  اشعار پر مشتمل ہے ۔  اس کا ایک مخطوطہ مؤسسة الملك عبد العزيز آل سعود بالدار البيضاء،میں رقم:(315 /12) کے تحت موجود ہے۔  خزانہ الحسینیہ الرباط میں اس کے تین نسخہ جات  ارقام (۱۳۹۳۸، ۱۱۷۴۴ اور ۱۴۰۸۲) کے تحت موجود ہیں ۔ ایک نسخہ خزانہ تطوان میں رقم  (۶۵۹) کے  تحت موجود ہے۔  ایک نسخہ مکتبہ الشیخ  بوی احمد  میں موجود ہونے کی اطلاع بھی ہے۔ مقالہ نگار اس نظم کے اشعار کا متن مع ترجمہ ایک الگ مضمون میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

کتاب کے تراجم

أوجز السير لخير البشر کا اردو ترجمہ پشاور سے حال ہی میں شائع ہوا ہے، تاہم کسی اور زبان میں اس کتاب  کے ترجمہ کے بارے میں مقالہ نگار  لا علم ہے۔

متن کتاب

علامہ ابن فارس کی مطبوعہ مختصر کتاب سیرت ایک مقدمہ اور پچیس (۲۵) فصول پر مشتمل ہے،  جس کے عناوین محقق  اور نساخ حضرات کے قائم کردہ ہیں۔  جن کی تفصیل ذیل کے صفحات میں پیش کی جا رہی ہے۔

مقدمہ مؤلف

  علامہ ابن فارس اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ ذکر ہے  جس کا حفظ ایک مسلمان کا فرض ہے اور اہل دین پررسول اللہ ﷺ کے نسب، ، ولادت ،نشونما ،بعثت ، مغازی میں آپ ﷺ کے احوال، آپ کی اولادوں اور ازواج کے اسماۓ گرامی اور ان کی زندگی کی معرفت حاصل کرنا واجب ہے، کیونکہ اس کے جاننے ولے کا مرتبہ اس کے جاہل سے بلند ہے۔ اور علم سینے کو حلاوت دیتا ہے۔ کتاب اللہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کی خبرہی وہ  سب سے بہتر ذکر ہے، جس سے خیر کی مجلسیں آباد  ہوتی ہیں،اور ہم نے اپنی اس مختصر میں ان اخبار کو ثبت کیا ہے۔

کتاب  کے موضوعات / عنوانات

علامہ ابن فارس نے اپنی کتاب میں سیرت کے درج ذیل موضوعات کا مختصر احاطہ کیا ہے:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا جناب عدنان تک نسب،آپ کی ولادت،والدین کی تزویج،والد گرامی کی وفات،رضاعت حلیمہ،والدہ محترمہ کی وفات،دادا محترم کی کفالت اور وفات،جناب ابو طالب کی کفالت،12 سال کی عمر میں شام کا سفر اور تیماء میں یہودی راہب بحیرہ سے ملاقات،حضرت خدیجہؓ سے شادی اور 15 سالہ رفاقت قبل نبوت،حضرت خدیجہؓ کی وفات کا ذکر،حضرت خدیجہ سے رسول اللہ ﷺ کے چھ اولادوں اور حضرت ماریہؓ سے ایک صاحبزادے کا ذکر،آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ  کا ذکر،چچاؤں اور پھوپھیوں کا ذکر،خاندان نبوت میں عواتک اور فواطم کا ذکر،آپ ﷺ کے موالیؓ،آزاد خدامؓ،کعبہ کی تعمیر اور حجر اسود کے قضیہ میں آپ ﷺ کا فیصلہ،چالیس سال کی عمرمیں بعثت ،تبلیغ، قریش کی مخالفت اور شعب ابی طالب کی محصوری کے بعد حضرت خدیجہؓ اور جناب ابوطالب کی وفات۔ جنات کا ایمان لانا،بیت المقدس کی طرف معراج،ہجرت،مواخات،رسول اللہ ﷺکے 23 غزوات کا ذکر اور تاریخیں،حجۃ الوداع،رسول اللہ ﷺ کی وفات،آپﷺ کے نجیب رفقاؓ،ضارب الاعناقؓ،پہرہ دارؓ،اسلحہ،سواریاں اور جانور،آپ ﷺ کا لباس اور متفرقات۔

کتاب میں مؤلف کا منہج :

مؤلف گرامی نے کتاب کی ابتدا میں کتاب کی وجہ تالیف اور اپنے مختصر منہج کا ذکر کیا ہے، جس کا ذکر ہم مقدمہ مؤلف میں کر چکے ہیں ۔ تاہم کتاب کے مطالعہ کے  دوران مندرجہ ذیل اہم نکات سامنے آئے ہیں:

عنوانات

علامہ ابن فارس نے کتاب کو فصول و ابواب  میں تقسیم نہیں کیا ، بلکہ  قدیم مصنفین کے  عمومی طرز تحریر  کی طرح  اسے جاری  نثری عبارت کی صورت میں لکھا ہے ۔   وہ عبارت کی سطر کے اندر ہی  لکھتے ہیں ، فاما ولده منها فستة ۔۔۔۔۔اما نساؤه ۔۔۔۔۔ واما  مواليه  فزيد بن حارثة و بركة ۔۔۔۔۔ و من النساء ام ايمن  ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس طرح سے عنوان کو تسلسل عبارت میں ذکر کر کے آگے اس عنوان کی مختصر تفصیل دیتے ہیں۔  کتاب کے موجودہ عنوانات متعدد مخطوطات میں  نساخین اور کاتبین نے حاشیہ کتاب پر اور موجودہ طباعت کے   محقق نے  موضوع کے سرنامہ پرقائم کیے ہیں۔

ترتیب مضامین

                مکی دور میں انہوں نے موضوعاتی ترتیب اختیار کی ہے جس میں اندرونی طور پر زمانی ترتیب کا خیال رکھا ہے، لیکن آپ ﷺ کی شادی کے ذکر کے فورا بعد اس ترتیب کو ترک کر کے متعلقات سیرت کی بہت سی فصول، جن میں ازواج مطہراتؓ، آپ کے چچاؤں اور پھوپھیوں ، موالی اور خدام کا ذکر کرنے کے بعد پھر اس ترتیب کی طرف لوٹے اور کعبہ کی تعمیر، بعثت کا ذکر کیا۔ اور پھر اسی ترتیب کو آگے ہجرت تک لے گئے۔ہجرت کے فورا بعد انہوں نے تین واقعات مواخات،حضرت عائشہؓ  کی رخصتی اور حضرت فاطمہؓ سے حضرت علیؓ کے نکاح کو زمانی ترتیب سے ہجرت سے مہینوں کے فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے بعد پھر موضوعی ترتیب اختیار کرلی اور مغازی النبویہ کے نام سے فصل قائم کرکے غزوات کا ذکر کیا ،جس میں اندرونی طور پر ترتیب زمانی کو قائم رکھا، ماسوائے ان کا غزوات کے جن کو ہم نے تفردات کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔اس کے بعد کتاب کے آخر تک انہوں نے موضوعاتی ترتیب کو ہی اختیار کیے رکھا۔

توقیت سیرت

ابن فارس نے واقعات کے زمانے کی تعین کے لیے بہت باریک بینی سے تاریخوں کا تعین کیا ہے اور اکثر و بیشتر سال مہینے اور دنوں کا بھی ذکر کیا ہے جس کے ماخذ کا ابھی تک علم نہیں لیکن یہ دلچسپ تاریخی بعد کے سیرت نگاروں نے بھی اختیار کی ہے۔ ابن فارس نے مکی دور میں ہجرت سے قبل کے واقعات کی توقیت کے لیے رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک کو بنیاد بنایا ہے اور ہر اہم واقعہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک سال مہینوں اور دن کی تحدیدکے ساتھ بیان کی ہے۔ ہجرت کے بعد واقعات کی توقیت کے لیے یا تو ہجرت کو بنیاد بنایا ہے یا کچھ واقعات میں اس واقعہ سے قبل وقوع پذیر ہونے والے اہم غزوہ مہینوں اور دنوں کے فرق کے ساتھ وقت کا تعین کیا ہے۔ کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن میں وقت کا تعین اور تحدید نہیں کی۔ اور صرف تین غزوات ایسے ہی جن میں دن اور مہینے ذکر نہیں کیے، بلکہ صرف سال بتایا ہے۔ ذیل میں ابن فارس کی توقیت واقعات سیرت کو ایک چارٹ کی صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے۔

ریمارکس

وقت کا تعین

عنوانات

عام الفیل آٹھ ربیع الاول پیر کا دن

ولادت رسول اللہ ﷺ

جب چلنے اور دوڑنے لگے

والدہ  ماجدہ کے پاس واپسی

چھ سال کی عمر میں

والدہ  ماجدہ کی وفات

تحدید دقیق

آٹھ سال دو ماہ دس دن

دادا  محترم  جناب عبد المطلب کی وفات

تحدید دقیق

بارہ سال دو ماہ دس دن

شام کا پہلا سفر

25سال دو ماہ دس دن

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی  عنھا سے شادی

15سال

نبوت سے قبل حضرت خدیجہؓ کی رفاقت

35سال

تعمیر کعبہ پر عمر

تحدید دقیق

چالیس سال ایک دن

بعثت شریف  پر عمر مبارک

49سال

شعب ابی طالب سے خروج کے وقت عمر

تحدید دقیق

49سال آٹھ ماہ گیارہ دن

جناب ابوطالب کی وفات پر عمر

تحدید دقیق

ابو طالب کی وفات کے تین دن بعد

یعنی 49 سال آٹھ ماہ 14 دن

حضرت خدیجہ ؓ کی وفات پر عمر

تحدید دقیق

پچاس سال تین ماہ

نصیبین کے جنوں کا اسلام

تحدید دقیق

51 سال 9ماہ

معراج

53 سال

مدینہ منورہ  کی طرف ہجرت

آٹھ ربیع الاول پیر کا دن

ہجرت کی تاریخ

یہاں تک رسول اللہ ﷺکی عمر کے حساب سے زمانے تحدید کی ہے،  آگے ہجرت سے شروع کردی ہے۔

ہجرت کے آٹھ ماہ بعد

مواخات کا قیام

ہجرت

ہجرت کے 9 ماہ دس دن بعد

حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی

ہجرت

ہجرت کے ایک سال ایک ماہ 22 دن بعد

حضرت فاطمہ ؓ کی حضرت علی ؓسے شادی

ہجرت

ہجرت کے ایک سال دو ماہ دس دن بعد

غزوہ ودان۔الأبواء

ہجرت

ہجرت کے ایک سال تین ماہ 13 دن بعد

امیہ بن خلف کے قافلے کے لئے غزوہ

ترتیب مختلف۔ غزوہ ماقبل

امیہ بن خلف کے قافلے کے بیس دن بعد

کرز بن جابر فہری کا  مدینہ کی چراگاہ پر حملہ

 

ہجرت کے ایک سال آٹھ ماہ سترہ دن بعد 17 رمضان المبارک (33یہ دراصل ہجرت کے سال کی یکم محرم الحرام سے حساب لگا رہے ہیں۔)

غزوہ بدر

وقت کی تحدید نہیں کی

غزوہ بنی قینقاع

وقت کی تحدید نہیں کی

غزوہ السویق

 ۔ وقت کی تحدید نہیں کی

غزوہ بنی سلیم۔کدر

وقت کی تحدید نہیں کی

غزوہ ذی امر،غطفان،انمار

ہجرت

ہجرت کے تیسرے سال میں

غزوہ احد

ہجرت

ہجرت کے دو سال 9ماہ دس دن بعد

غزوہ بنی النضیر

غزوہ ماقبل

اس کے دو ماہ بیس دن بعد

غزوہ  ذات الرقاع

غزوہ ماقبل

اس کے دو ماہ چار دن بعد

غزوہ دومۃ الجندل

غزوہ ماقبل

اس کے پانچ ماہ تین دن بعد

غزوہ بنی المصطلق

ہجرت

ہجرت کے چار سال دس ماہ پانچ دن بعد

غزوہ خندق

غزوہ ماقبل

اس کے 16 دن بعد

غزوہ بنی قریظہ

غزوہ ماقبل

اس کے تین مہینے بعد

غزوہ بنی لحیان

ہجرت

۶ ہجری میں

غزوہ الغابہ

ہجرت

۶ ہجری میں

عمرہ حدیبیہ

ہجرت

ہجرت کے 6 سال تین ماہ 21 دن بعد

غزوہ خیبر

غزوہ ماقبل

اس کے چھ ماہ دس دن بعد

عمرۃالقضاء

ہجرت

ہجرت کے سات سال آٹھ ماہ گیارہ دن بعد

فتح مکہ

غزوہ ماقبل

اس کے ایک دن بعد

غزوہ حنین

ہجرت

اسی سال

غزوہ طائف

ہجرت

ہجرت کے آٹھ سال چھ ماہ پانچ دن بعد

غزوہ تبوک

ہجرت

ہجرت کے نوسال گیارہ ماہ دس دن بعد

حجۃ الوداع

ہجرت

ہجرت کے دس سال دو ماہ بعد

وصال اطہر

۶۳ سال

وصال  مبارک کے وقت عمر شریف

قرآنی سیرت نگاری

علامہ ابن فارس نے قرآن حکیم اور سیرت کے تعلق پر اگرچہ بہت کم مواد فراہم کیا ہے اور اس طرح کے شدید مختصر میں قرآن حکیم کی آیات کو شامل کرنا ممکن بھی نہیں ہوتا، تاہم انہوں نے درج ذیل تین مقامات پر قرآن اور سیرت کے تعلق کی طرف اشارہ کیا ہے۔

سورۃ آل عمران آیت نمبر 123 (34ابن فارس، أوجز السير لخير البشر(تحقيق: محمد محمود حمدان)، محولہ بالا صفحہ نمبر 59)   (بدر کی فتح پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان یاد دلانا)

سورۃ مائدہ آیت نمبر 67  (35نفس مصدرصفحہ نمبر)( جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے حارس / پہرہ دار ترک کر دیئے)

سورۃ توبہ (36نفس مصدرصفحہ نمبر 70) (حج ابو بکر ؓ پر  حضرت علی ؓ کا سورہ توبہ کی تلاوت  و ابلاغ کرنا)

سلسلہ سند

علامہ ابن فارس نے ایک مقام پر اپنے سلسلہ سند کا ذکر کیا ہے اور جناب عبد المطلب کے دس بیٹے ہونے کی خبر دی ہے(37نفس مصدر صفحہ ۳۴) ۔  دوسری روایت حضرت زید  بن ارقم ؓ کی غزوات کی کل تعداد کے متعلق درج کی ہے(38نفس مصدر ، ص ۷۳) ۔

عواتک و فواطم کا ذکر

علامہ ابن فارس نے اپنی کتاب میں رسول اللہ ﷺ کی رشتہ قرابت میں آنے والی عاتکہ اور فاطمہ نامی خواتین کا ذکر کیا ہے۔

تفردات

علامہ ابن فارس کی مختصر سیرت میں اپنے حجم کے اعتبار سے تفردات کی کافی ساری تعداد موجود ہے ، جو انہیں دوسرے سیرت نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان میں کچھ تفردات معمولی نوعیت کے ہیں اور کچھ اہمیت کے حامل ہیں۔ ذیل میں ان کے تفردات کی تفصیل پیش ہے:

‌أ.              ابن فارس کا سب سے اہم تفرد ان کے واقعات کی تاریخ متعین کرنے کا طریقہ ہے۔ وہ سال ، دن اور مہینے کے حساب سے سیرت کے واقعات کی تاریخ متعین کرتے ہیں۔ یہ طرز تعیین و اخذ تواریخ ،خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی اور قبل نبوت کی زندگی میں کافی حد تک عدم ثبوت کا اشارہ کرتا اور عجیب دکھائی دیتا ہے۔ تاہم علامہ کا یہی تفرد سیرت نگاروں کے نزدیک معروف ہوا اور ان کے بعد کے اکثر سیرت نگاروں نے ان تاریخوں کو اختیار کیا اور انہیں اپنی کتب میں بغیر ثبوت کے جگہ دی ہے۔ مقالہ نگار ان تاریخوں کے مآخذ پر تحقیق کر رہا ہے، تاہم ابھی تک قابل قدر نتائج تک رسائی نہیں ہوئی ہے۔

‌ب.           ابن فارس نے واقعات کی ترتیب میں ایک تبدیلی یہ بھی کی ہے کہ غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ دومۃ الجندل کو غزوہ خندق سے پہلے لے آئے ہیں ۔اسی طرح غزوہ بنی مصطلق کوبھی غزوہ خندق سے پہلے ذکر کیا ہے۔ جمہور نے جو ترتیب غزوات کی اختیار کی ہے، یہ ترتیب اس کے خلاف ہے۔

‌ج.            علامہ ابن فارس نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادیوں میں حضرت فاطمہؓ کو سب سے بڑا ہونا بیان کیا ہےجو کسی بھی اور سیرت نگار کے نزدیک درست نہیں ہے۔

‌د.             ابن فارس نے حضرت عثمان ؓ سے حضرت ام کلثومؓ کی شادی کا ذکر پہلے کیا اور ان کے بعد حضرت رقیہ ؓ کی شادی کا ذکر کیا ہے، حالانکہ حضرت رقیہ ؓسے حضرت عثمانؓ کی شادی پہلے ہوئی تھی اور ان کی وفات کے بعد حضرت ام کلثومؓ سے ان کی شادی ہوئی۔ یہ ترتیب بھی اصولی اور صحیح ترتیب کے خلاف ہے۔ ممکن ہے یہ سہواً ہوا ہو۔

‌ه.             مختصر نگاروں کے یہاں عام طور پر ازواج مطہرات  ؓکے ذکر کی جو ترتیب اختیار کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانی ترتیب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا۔ یہ ترتیب مختصرات میں شیخ شرف الدین دمیاطیؒ اور ان کے استاد امام منذریؒ نے اختیار کی ہے اور اکثر مختصر نگاروں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ ابن فارس نے  حضرت زینب بنت خزیمؓہ کے بعد چھٹے نمبر پر حضرت ام حبیبہؓ کا ذکر کیا ہے ، حالانکہ ان کا ذکر نویں نمبر پر حضرت جویریہ ؓکے بعد اور حضرت صفیہؓ سے قبل آنا چاہیے تھا۔

‌و.            مختصر نگاروں کے نزدیک ایک فصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نجباء صحابہ کرام ؓ کی قائم کی جاتی ہے ۔ ابن فارس نے اس فصل میں 14 صحابہ کرامؓ کا ذکر کیا ہے،  جن میں حضرت عثمان ؓ کا ذکر نہیں کیا ۔  حالانکہ ان کے علاوہ جتنے سیرت نگاروں نے یہ فصل قائم کی ہے، وہ حضرت عثمان غنی ؓ کے ذکر خیر سے صرف نظر نہیں کر سکے۔

‌ز.            عام سیرت نگاروں نے بحیرا راہب کو  ایک عیسائی فرقے کا پیرو بتایا ہے ، اور رسول اللہ ﷺ سے اس کے ملنے کا مقام بصریٰ شام بتایا ہے۔ علامہ ابن فارس نے  تیماء کے مقام پر ایک یہودی راہب بحیرا سے ملنے کا ذکر کیا ہے، جو  مقام اور قوم کے لحاظ سے علامہ کا تفرد ہے۔ بصریٰ (شام) اور تیماء (سعودی عرب) کا فاصلہ گوگل میپ سے  آج بھی ۸۳۰ کلومیٹر  دیکھا جا سکتا ہے۔  بصریٰ میں بحیرا راھب کا دیر آج بھی موجود ہے اور تمام تاریخی و جغرافیائی معلومات اسے نصرانی راہب ظاہر کر رہی ہیں۔

‌ح.            مؤلف گرامی نے رسول اللہ ﷺ کے ۲۳ غزوات کا ذکر کیا ہے ، چار غزوات کا ذکر کرنا رہ گیا ہے۔  ان میں غزوہ ذو العشیرۃ، غزوہ  بنی سلیم بحران میں، غزوہ حمراء الاسد اور غزوہ بدر الموعد شامل ہیں۔تاہم  مؤلف نے حضرت  زید بن ارقم    ؓ کی روایت اپنی سند کے ساتھ ذکر کر کے غزوات کی کل تعداد انیس (۱۹)بتائی ہے۔

شدید اختصار

علامہ ابن فارس نے اپنی کتاب کو نہایت مختصر لکھا ہے اور اختصار اتنا شدید ہے کہ واقعات سیرت کو سمجھنا مشکل ہے ۔ کتاب میں صرف واقعات اور افراد کے نام بتا کر اس کی تاریخ بتا دی گئی ہے۔ مکی اور مدنی زندگی کے کافی اہم واقعات کا ذکر بھی نہیں کیا۔مثلا حبشہ کی ہجرت،طائف کا سفر،مواسم میں قبائل عرب کو تبلیغ،انصار کا قبول اسلام اور عقبہ کی دونوں بیعتیں جیسے  انتہائی اہم واقعات ہیں جن کو علامہ ابن فارس نے بالکل ذکر نہیں کیا۔

خلاصہ کلام :

مختصر نگاری کے رجحان میں آزاد رسالہ سیرت کے طور پر علامہ ابن فارس کی کتاب سب سے پہلی مختصر کتاب ہے۔ اگرچہ اس سے قبل علامہ یعقوبی مختصر نگاری کے اکثر موضوعات کو اپنی تاریخ کے باب سیرت میں شامل کر چکے ہیں۔ تاہم ایک آزاد رسالہ سیرت کے طور پر علامہ ابن فارس کی کتاب اس رجحان میں پہلی کتاب ہے۔ شدید اختصار اور واقعات کی تفصیل نہ ہونے کے باوجود بھی اس کی اپنی اہمیت ہے کہ علامہ ابن فارس نے سیرت کی بنیادی معلومات، جن میں واقعات اور افراد کے نام اور اس سے جڑی ہوئی تاریخیں شامل ہیں، چند صفحات میں پیش کر دی ہیں۔ یہ حفظ کے لئے اور فوری حوالہ دینے کے لیے اہم ہیں۔ اسی ترتیب کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعد کے مختصر نگاروں نے سیرت پر جامع مختصرات پیش کیے ہیں اور اکثر بیشتر نے علامہ ابن فارس کی تاریخوں سے استفادہ کیا ہے۔اس کتاب کی مقبولیت کے پیش نظر اس کی شروح  لکھی گئیں اور اسے نظم بھی کیا گیا۔

مقالہ کی اصل کا مطالعہ کرنے کے لیے کلک کریں

اوجز السير لخير البشر ۔ ابو الحسین احمد بن فارس بن زکریا بن محمد بن حبیب (۳۹۵ھ) کا مطالعہ کے لیے ذیل کے لنک کو کلک کیجئے

  • 1
    القفطي، جمال الدين أبو الحسن علي بن يوسف (646هـ)، إنباه الرواة على أنباه النحاة، (المكتبة العنصرية، بيروت)، ط: الأولى، 1424 هـ ، 130/ 1۔ و الذهبي ، شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد (748ه)، سير أعلام النبلاء(مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرناؤوط)،)مؤسسة الرسالة ، بيروت) ،ط: الثالثة ، 1405 هـ / 1985 م، 104۔105/ 17۔
  • 2
    عبد الرحمن بن محمد الأنباري الأنصاري نزهة الألباء في طبقات الأدباء ، تحقيق: محمد أبو الفضل إبراهيم، (دار الفكر العربي، القاهر)، 1418ه/ 1998م، 278
  • 3
    العاملي، محسن الأمين أعيان الشيعة (تحقيق: حسن الأمين)، (مؤسسة جواد للطباعة والتصوير، بيروت)، 1403/ 1983.ج۳ ص 60 ۔
  • 4
    القفطي ، إنباه الرواة على أنباه النحاة ج 1/ ص130
  • 5
    هلال ناجي، أحمد بن فارس: حياته- شعره- آثاره ، مطبعة المعارف، بغداد، 1970م۔ ص: 34_60
  • 6
    ياقوت الحموي ، شهاب الدين أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومي الحموي (ت ٦٢٦هـ)، معجم الأدباء ،(المحقق: إحسان عباس)، دار الغرب الإسلامي، بيروت، ط: الأولى، ١٤١٤ هـ / ١٩٩٣ م، ج۲ ص۷۔
  • 7
    احمد بن فارس ، اسماء الرسول و معانيها (تحقيق: ماجس حسن الذهبي)،مجله عالم الكتب، مج:8، ش : 3 ، محرم 1408ه ، ص 334 ۔ 345
  • 8
    بروكلمان نے اس كے قازان (سابق سوويت يونين ) ميں ايك نسخه كي خبر دی ہے۔كارل بروكلمان ، تاريخ الادب العربي ، الهيئة المصرية العامة ، 1993، القسم الاول 1۔2 ، ص597/2
  • 9
    کشف الظنون جلد نمبر 1279/2، هدية العارفين 68/1۔
  • 10
    السخاوي، شمس الدين محمد بن عبد الرحمن (ت ٩٠٢ هـ)، الإعلان بالتوبيخ لمن ذم أهل التوريخ ( تحقيق: سالم بن غتر بن سالم الظفيري)، دار الصميعي للنشر والتوزيع، الرياض ، ط: الأولى، ١٤٣٨ هـ – ٢٠١٧ م
  • 11
    کارل بروكلمان ، تاريخ الادب العربي ، الهيئة المصرية العامة ، 1993، القسم الاول 1۔2 ، ص597/2۔
  • 12
    كشاف المخطوطات الخزانة الحسينيه(تحقیق : عمر عمور)۔ منشورات الخزانة الحسينية، ص ۱۹۱
  • 13
    ملاحظات على كتب ومخطوطات السيرة النبوية- مسعد سويلم الشامان ،عالم الكتب المجلد الثالث، العدد الثالث ،ص 341۔
  • 14
    مجلّة المورد العراقية ، مج 2: ع 4 (1393 ه- 1973 م)، ص 143- 154. (تحقيق و تقديم: هلال ناجي )
  • 15
    کمال مصطفیٰ ، الاتباع و المزاوجة لابن فارس (مقدمه تحقيق) ، القاهرة ، 1947م، ص 26۔
  • 16
    د۔ شاکر الفحام، اللامات لابن فارس (فهارس ملحقة) ، مطبوعات مجمع اللغة العربيه ، دمشق، 1973، ص 44۔
  • 17
    ابن فارس، أحمد بن فارس بن زكريا الرازي، أوجز السير لخير البشر(تحقيق: محمد محمود حمدان)، دار الرشاد، القاهرة- مصر، الطبعة الاولیٰ: 141۳ /199۳ والطبعة الثانية 141۳ /199۳م ۔
  • 18
    التجيبي ,القاسم بن يوسف بن محمد البلنسي السبتي، برنامج )تحقيق: عبد الحفيظ منصور(،) الدار العربية للكتاب، ليبيا ، تونس(، 1981، ص ۱۳۵۔
  • 19
    لذهبي ، أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (ت ٧٤٨ هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (تحقيق : د بشار عوّاد معروف)،( دار الغرب الإسلامي ، بيروت)، ط: الأولى، ١٤٢٤ هـ – ٢٠٠٣ م، ج 1 ص 789
  • 20
    الطبري ،محب الدّين أحمد بن عبد اللّه بن محمّد بن أبي بكر بن إبراهيم ( 694 ھ)، خلاصة سير سيد البشر،(محقق: محمد بن انسان فرحات)، (دار المودة، مصر)، ط : الاولي، 2011 م۔
  • 21
    الشامي ، محمد بن يوسف الصالحي (٩٤٢هـ)، سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد وذكر فضائله وأعلام نبوته وأفعاله وأحواله في المبدأ والمعاد(تحقيق :عادل أحمد عبد الموجود و علي محمد معوض)، (دار الكتب العلمية ،بيروت) ، ط: الأولى، ١٤١٤ هـ ، ج ۲ ص 165
  • 22
    القسطلاني، أحمد بن محمد بن أبى بكر شهاب الدين (ت ٩٢٣هـ)، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية،( المكتبة التوفيقية، القاهرة)، ج۱ ص 162
  • 23
    نفس المصدر ، ج۱ ص ۴۷۹
  • 24
    نفس المصدر ، ج۲ ص ۱۳۹
  • 25
    الحلبي علي بن إبراهيم بن أحمد ،برهان الدين (ت ١٠٤٤هـ)، إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون ، (دار الكتب العلمية ، بيروت)، ط: الثانية ،١٤٢٧هـ، ج۱ ص ۲۰۱۔
  • 26
    الدمشقی، محمد بن عبد الله ،ابن ناصر الدین ، جامع الآثار فی السير ومولد المختار(تحقيق: ابی یعقوب نشآت کمال)، ( ادارہ العامہ للاوقاف ، قطر)، ۲۰۱۰، ج ۳ ص ۳۸۵
  • 27
    المنجد، صلاح الدين ،معجم ما ألّف عن رسول اللّه(ﷺ)،( دار الكتب الجديد، بيروت)، ط: الأولى، 1402 ھ/ 1982 م،  122. و أنظر: معجم اعلام الجزائر 27
  • 28
    الرفاعي، عبد الجبار، معجم ما کُتب عن الرسول و أهل البیت صلوات الله علیهم ،( وزارة فرهنك و ارشاد إسلامي، تهران)، 1371 (ج2 ص288 رقم 4701)
  • 29
    أبو القاسم سعد الله ،تاريخ الجزائر الثقافي، (دار الغرب الاسلامي، بيروت)، ط:الاولى، 1998م ، ج1 ص 62
  • 30
    الحلو،عبد الفتاح محمد، خزانة التراث – فهرس مخطوطات، (مطبعة مركز الملك فيصل للبحوث و الدراسات الإسلامية، الرياض)، رقم 99678
  • 31
    الفاسي ،محمد بن أحمد الفهري، مستعذب الأخبار بأطيب الأخيار )تحقيق: أحمد عبد الله باجور)، (دار الكتب العلمية، بيروت)، الطبعة الأولى: 1425 /2004
  • 32
    الكتاني ، محمد عَبْد الحَيّ بن عبد الكبير (ت ١٣٨٢هـ)، فهرس الفهارس والأثبات ومعجم المعاجم والمشيخات والمسلسلات (المحقق: إحسان عباس)،( دار الغرب الإسلامي ، بيروت)، ط:2، 1982 ، ج1 ص 498
  • 33
    یہ دراصل ہجرت کے سال کی یکم محرم الحرام سے حساب لگا رہے ہیں۔
  • 34
    ابن فارس، أوجز السير لخير البشر(تحقيق: محمد محمود حمدان)، محولہ بالا صفحہ نمبر 59
  • 35
    نفس مصدرصفحہ نمبر
  • 36
    نفس مصدرصفحہ نمبر 70
  • 37
    نفس مصدر صفحہ ۳۴
  • 38
    نفس مصدر ، ص ۷۳
Leave a Comment

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *