مقالہ # 7
1۔ تعارف
انسان مدنی الطبع ہے( 1 علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں :”أنّ الاجتماع الإنسانيّ ضروريّ ويعبّر الحكماء عن هذا بقولهم الإنسان مدنيّ بالطّبع ” ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد بن محمد ،ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر، ، المحقق: خليل شحادة،دار الفكر، بيروت،الطبعة: الثانية، 1408 هـ – 1988 م،( ج 1/ ص 54 ))۔ وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے۔ سب انسانوں کی ضروریات مشترکہ ہیں جو ایک دوسرے سے پوری ہوتی ہیں۔ دوسروں کی مدد سے ہی انسان بھوک ،بیماری، موسموں کی شدت ، خوف اور دشمنوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ اس کی انفرادی زندگی اجتماعیت کے ایک وسیع نظام کا حصہ ہے، جو حقوق و فرائض کے ضابطوں سے تشکیل پاتا ہے۔یہی ضابطے اس کے تحفظ، اس کی بقاء اور اس کی نسل کی ترقی کے ضامن ہیں۔ فرد کا حق، اجتماع کا فرض اور اجتماع کا حق، فرد کا فرض ہے۔ انسانی حیات کی بقاء و سلامتی اور اس کرہ ارض کا امن اس بات پر منحصر ہے کہ ایک انسان دوسروں کے حقوق کا خیال رکھےاور اپنے فرائض سے غفلت نہ برتے، اس کے بدلے لوگ اس کے حقوق کا خیال رکھیں اور یوں زندگی اپنے نظم سے مزین ہو ، جو حسن حیات کا مطلوب و مقصود ہے۔
2 ۔ انسانی اجتماع کے اسباب
انسانی اجتماع کسی بھی نوعیت کا ہو،نظم و ضبط کی بناء پر ہی قائم رہ کر اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ انفرادی سطح پر بھی مطلوب ہے، تاہم اس کی اصل قدر و قیمت انسانی اجتماع ہی کے حوالے سے ہے۔انسان کی اجتماع پسندی نے ہی نظم و ضبط کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے ،جس کے مختلف اسباب بیان کیے جاتےہیں ، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ دو طرح کے ہیں۔ داخلی۔۔۔خارجی۔۔۔ داخلی سے مراد اس کی جبلی خواہش کہ وہ د وسروں سے انس رکھتا ہے اور ان کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔اور خارجی سبب اس کی کمزوری ہےکہ وہ کائنات میں اپنی معاش اور حفاظت کے بارے میں اپنی تنہائی کو کمزور ی سمجھتا ہے( 2علوی، ڈاکٹر خالد ،اسلام کا معاشرتی نظام، ص ۳۴،الفیصل پبلشرز، لاہور س۔ن۔)۔مسلم مفکرین میں سے علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ تاریخ میں اور حضرت شاہ ولی اللہ نے اس مسئلہ پر اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ اور البدور البازغہ میں عمدہ گفتگو فرمائی ہے۔ شاہ صاحب انسان کی اجتماع پسندی کے بالعموم بیان کیے جانے والے دو اسباب یعنی ۔۔تحفظ جان اور بقائے نسل ۔۔۔ کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کی جماعت پسندی کی اصل وجہ اس کے اعلی انسانی جذبات کو قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے معروف نظریہ ارتفاقات کے ذریعے یہ بیان کیا ہے کہ انسان کی بالاتر چیزوں کی حاجت اور اعلی تمدن کے حصول کی فکری جمالیاتی خواہش ایک پیچیدہ تمدن کے وجود اور باآخر ایک ریاست کے قیام پر منتج ہوئی( 3شاه ولي الله, أحمد بن عبد الرحيم, حجة الله البالغة (المحقق: السيد سابق) ج1 ص 38 ،دار الجيل، بيروت،لطبعة: الأولى، 1426 هـ – 2005م)۔
انسان کی معاشرتی تنظیم کی ابتداء کے بارے میں نظریات کی اختلاف کے باوجود تعین سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ابتداء بہر حال خاندان سے ہوئی، قرآن پاک نے اس کا صراحت سے ذکر کیا ہے{وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً}۔۔ [النحل: 72]۔۔ نسل انسانی کو اللہ تعالی نے زمین میں آبادکیا اور اس کے لیے نسب و صھر کے رشتے بنائے { فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا} [الفرقان: 54]تاکہ وہ ایک وقت موعود تک زمین میں اللہ تعالی کی نعمتوں سے متمتع ہو۔ انسانی آبادی بڑھنے سے وہ مختلف شعوب و قبائل میں بٹ گئےاور علامہ ابن خلدون کے نزدیک معاشی ضروریات کے تحت بالکل ابتدائی بدوی تمدن اور قبائلی معاشرت وجود میں آئی، جس کے درمیان نقطہ اجتماع تعصب (Solidarity) ہے۔
3۔ نظم و ضبط کا مفہوم
نظم و ضبط دو الفاظ کا مجموعہ ہے ۔ نظم “ن ۔ظ۔م” سے اسم ہے۔القاموس المحیط میں ہے کہ “النظم:التأليفُ، وضَمُّ شيء إلى شيءٍ آخَرَ ( 4الفيروزآبادى، مجد الدين أبو طاهر محمد بن يعقوب ، القاموس المحيط ، تحت مادہ ں۔ظ،۔م۔،مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت – لبنان،الطبعة: الثامنة، 1426 هـ – 2005 م ) یعنی نظم سے مراد تالیف ہے اور اس سے مراد ایک چیز کو دوسری میں ضم کرنا’ اور کہا جاتا ہے، “نظّمہ: ألفہ وجمعہ فی سلک”یعنی اسے جوڑ دیا اور ایک لڑی میں پرو دیا اور اسی سے لفظ ہے” النظام” کل خیط ینظم بہ لولوء ونحوہ‘ یعنی ’نظام‘ ہر اس دھاگے کو بولیں گے جس کے ذریعہ موتی وغیرہ کو پرو دیا جائے۔ یہ لفظ پرونا، موتیوں کو تاگے میں پرونا، لڑی، سلک، انتظام، بندوبست، کلام موزوں، شعر کے معانی کا حامل ہے۔ نظم کا لفظ ام معبد الخزاعیہ نے سیرت نبوی ﷺ کے باب میں موتیوں کو تاگے میں پرونا کے معانی میں ہی استعمال کیا ہے(5 شَهِيُّ الْمَنْطِقِ فَصْلٌ لَا فُضُولٌ وَلَا هَذْرَمَةٌ إِذَا تَكَلَّمَ نَظْمُ الدَّرِّ وَالْمَرْجَانِ لَا نَزْرَ وَلَا نُقْصَانَ،( ابن أبي عاصم ، أحمد بن عمرو بن الضحاك ، الآحاد والمثاني(المحقق: د. باسم فيصل أحمد الجوابرة)ج6 ص 253،دار الراية – الرياض،الطبعة: الأولى، 1411 – 1991. )۔ اس لغوی تشریح سے یہ بات صاف ہے کہ ”نظام“ اجتماع اور تالیف و ترتیب کا مفہوم رکھتا ہے۔ ۔
جبکہ “الضبط” بھی اسم ہے ۔ لسان العرب میں ہے:لزوم الشيء وحَبْسُه،ضبط الشيءِ: حفظُه بالحزم. وقال الليث: الضبط لزومُ شيء لا يفارقه في كل شيء( 6ابن منظور,محمد بن مكرم الأفريقي،لسان العرب، تحت مادہ ض۔ب۔ط،دار صادر – بيروت،الطبعة الأولى، 1420 ھ)۔ یعنی کسی چیز کو اس طرح اختیار کرنا کہ اسے کبھی ترک نہ کیا جائے۔اس کے معانی میں تحمل، برداشت، صبر،اور انتظام، نظم و نسق، بندوست کے کا مفہوم بھی شامل ہے۔
4۔ اصطلاحی معنی اور دائرہ کار
نظم و ضبط‘‘ کے دونوں الفاظ جب اکٹھے استعمال ہوتے ہیں تو دوانگریزی مترادفات ’’ڈسپلن (Discipline)‘‘ اور Law یا قانون کے معانی میں بھی استعمال ہوتے ہیں،اوراس کا معنی مقررہ قواعد و ضوابط کی پابندی بھی ہوتا ہے۔ Disciplineجس کا ماخذ لاطینی لفظ Disciplinaہے جس کے معنی ’’تدریس‘‘ کے ہیں۔اور اس کا فرنسیسی مترادف descepline سزا کے معانی میں استعمال ہوتا ہے( 7http://www.dictionary.com/browse/discipline ) ۔ نظم و ضبط اپنے معانی کی وسعت کے اعتبار سے اپنے مفہوم کےکئی دائرے رکھتا ہے۔ اپنے عاملین کے اعتبار سے یہ انفرادی اور اجتماعی دائرہ کار کا حامل ہے۔ اس کے معنی کا انفرادی دائرہ داخلی اور خارجی جہت پر مشتمل ہے۔ داخلی جہت میں فرد کے خیالات یا اس کے الفاظ کی اس طرح ترتیب و تنظیم کا مفہوم ہے کہ وہ ایک مربوط اور واضح شکل میں سامنے آ سکیں۔خارجی جہت میں انسان کے افعال ، اعمال اور عادات کا اس سلیقے سے ترتیب پانا اور ظاہر ہونا ہے کہ وہ اس کی شخصیت کے اعلی مذاق، عمدہ کردار اور مناسب تربیت پر دلالت کر سکیں۔
نظم و ضبط کا بیرونی دائرہ فرد اور اجتماع کے باہمی تعلقات کی تہذیب و تنقیح پر مشتمل ہے۔ اس کا انگریزی مترادف Discipline بیک وقت اخلاقی اور قانونی تاثر رکھتا ہے۔ بعض جگہوں پر مثلا افواج اور سلامتی کے اداروں میں ڈسپلن کا لفظ قانون اور Law کے ہم معنی بھی ہے اور تہذ یب نفس Self Discipline کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے۔جب ہم فرد اور ریاست کے تعلقات میں نظم و ضبط کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں تو بالعموم اس کی قانونی جہت کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ تاہم قانون کا لفظ خود اپنی ذات میں کچھ ایسے پہلو سموئے ہوتا ہے جس پر عرف عام میں اخلاقی اصول، معاشرتی ضابطے ، شرعی حکم جیسے لفظ کا اطلاق ہوتا ہےیعنی ان معاملات میں قانون کی حاکمانہ قوت کا اظہار نہیں ہوتا اور عدالتیں ان معاملات میں خود سے مداخلت نہیں کرتیں بلکہ معاشرہ اپنے عرف ،رواج اور ماہرین کی آراء کی روشنی میں اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کسی شخص کا کوئی خاص عمل نظم و ضبط کے مطابق ہے یا نہیں۔ مختصرا یہ کہ اجتماعی سطح پر نظم و ضبط سے، ایک طرف ایسےقوانین، قواعد اور اصول مراد ہیں، جو افراد اور گروہوں میں حقوق و فرائض کے توازن سے،مشترکہ معاملات کی تنظیم و تنسیق کا کام کرتے ہیں تو دوسری طرف اس سے معاشرے یا ریاست میں ان قوانین و ضوابط پر عملدرآمد کا درجہ یا سطح مراد ہے۔
5۔ نظم و ضبط کی اقسام
نظم و ضبط کی بہت ساری اقسام ہیں،جو اپنے اپنے دائرہ کار کے احوال کی ترتیب و تنسیق میں معاون ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے اصول ہیں جنہیں وحی ربانی،انسانی ضمیر، یونیورسل اخلاقیات، مذہبی تعلیمات،قومی فکریات اور سماجی و ادارہ جاتی تجربہ طے کرتا ہے اور ان میں سے بعض ،بعض سے ماخوذ ہوتی ہیں اور کہیں تداخل(Overlapping)بھی پایا جاتا ہے۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
شخصی نظم و ضبط۔عائلی نظم و ضبط،اخلاقی نظم و ضبط،معاشرتی نظم و ضبط،معاشی نظم و ضبط،سیاسی نظم و ضبط،ریاستی نظم و ضبط، ماحولیاتی نظم و ضبط اور ادارہ جاتی نظم و ضبط وغیرہ۔
6۔ نظم و ضبط کی اہمیت
اللہ تعالی نے اس کائنات کی بناء نظم و ضبط پر رکھی ہے اور یہ اس وقت تک قائم ہے جب تک اس کا نظم و ضبط برقرار ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر کائنات کے نظم و ضبط کا ذکر فرمایا ہے اور ہر چیز کے ایک قدر معلوم کے مطابق ہونے کا ذکر کیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:{قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا } [الطلاق: 3]۔۔۔۔{الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ} [الرحمن: 5]۔۔۔۔{ نہ تو سورج کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات دن سے آگے بڑھ کر پہلے آسکتی ہے اور سب ایک ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں } [يس: 40] { اے مخاطب تو رحمان کی تخلیق میں کوئی خلل نہیں دیکھے گا، سو تو پھر نظر ڈال کر دیکھ لے کیا تجھے کوئی خلل نظر آتا ہے } [الملك: 3]
۔اس جیسی سینکڑوں آیات کائنات میں موجود ترتیب و تنظیم کی خبر دیتی ہیں،حتی کہ اللہ تعا لی نے کائنات کے نظم و ضبط کو اپنی وحدانیت کی بہت بڑی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:{لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا} [الأنبياء: 22]۔۔۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر کسی جگہ نظم و ضبط نہ پایا جائے تو وہ فساد کے وجود کی علامت ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے فساد کی مذمت میں نازل شدہ بہت سی آیات نظم و ضبط کی اہمیت پر دال ہیں۔
عقلی طور پر نظم و ضبط کی ضرورت اس لیے ہے کہ انسانی طبائع مختلف ہیں ۔ قرآن حکیم میں ہے: {قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ } [الإسراء: 84]۔ لیکن اس کی اصل ایک ہے، اس کا مقدر ایک سا ہے، اس کی سلامتی سانجھی اور تباہی بھی ایک، اس کا مسکن اور وسائل بھی مشترکہ ہیں ۔ قرآن اس کی یوں وضاحت فرماتا ہے:{ لوگو ! بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے مختلف خاندان اور قبیلے بنا دئیے تاکہ آپس میں شناخت کرسکو} [الحجرات: 13] { ہر جان موت چکھنے والی ہے } [آل عمران: 185]
فرمان نبوی ﷺ ہے (أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ)(8ابن حنبل، أبو عبد الله أحمد بن محمد،المسند (المحقق: شعيب الأرنؤوط )، حدیث نمبر 23489 ،ج 38،ص 477 ،مؤسسة الرسالة،الطبعة: الأولى، 1421 هـ – 2001 م ) یعنی خبردار تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔
انسانوں کی تخلیق اور تقدیر کا یہ اشتراک ان سے مشترک سوچ اور مشترک لائحہ عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم اختلاف طبائع کی بناء پر ان میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔ قدرت نے اس اختلاف پر قابو پاکر ایک دوسرے کو تسلیم کرنے اور ایک مشترکہ نصب العین کے تحت زندگی کو منظم کرنے کے لیے عقل سلیم عطا کی۔ انسان کو اللہ تعالی نےکائنات میں غور و فکر کی دعوت دی ہے {وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ (20) وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ } [الذاريات: 20، 21]یہی غور و فکر اسے کائنات کی ہر شے اور خود اس کی ذات میں نظم و ضبط کی موجودگی کی خبر دیتی ہے
تاریخی طور پر انسان کو نظم و ضبط کی اہمیت کا احساس کرہ ارض پر حضرت آدم علیہ السلام کے ورود مسعود کے جلد ہی بعد ہو گیا تھا۔ ۔۔ کہا جاتا ہے کہ زمین پر انسانی آبادی کے بڑھنے ، وسائل کی قلت کے احساس اور اندرونی و بیرونی خطرات کے خوف نے انسان کی مدنی طبیعت میں نظم و ضبط کی ضرورت کا احساس پیدا کیا ۔۔۔۔خیال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل نے نظم و ضبط کی ضرورت کو زیادہ شدت سے اجاگر کیا ہو گا۔ بہر حال انسانوں نے باہمی رضامندی سے اپنے لیے مشترکہ ضابطے تشکیل دینے اور ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے کسی ایک مقتدر قوت کی ضرورت کو تسلیم کیا۔۔۔۔یوں ایک ایسے باہمی معاہدے کی راہ ہم وار ہوئی جسے تاریخی طور پر معاہدہ عمرانی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے( 9(ہابز ، لاک اور روسو نے اس نظریہ پر قابل قدر گفتگو کی ہیں ،البتہ اس تصورکی حقیقت پر علماء نے شک ہی کیا ہے لیکن بقول کانت KANT اس نظریہ کو فی الحقیقت کسی ریاست کا ماخذ کرنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے سیاسی تصور کا ایک فلسفیانہ بیان A Philosophical Explanation مانا جائے. نثار احمد، ڈاکٹر، عہد نبوی میں ریاست کا نشو و ارتقا، نشریات، لاہور، 2008 ، ص 214))۔ہم اپنی روز مرہ زندگی کے حالیہ اور تاریخی تجربات کی روشنی میں واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ جن معاشروں میں “ایک خاص سطح کا نظم و ضبط ( 10نظم و ضبط جب زیادہ ہو جائے تو بھی معاشرے کی نمو رک جاتی ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے ، اقبال کا خطبہ ششم۔ The Principle of Movement in the Structure of Islam)”موجود ہوتا ہے وہاں امن، ترقی اور خوشحالی پائی جاتی ہے اور اسکے برعکس غیر منظم معاشرے اور کمزور نظم قومیں اور ریاستیں انارکی، بد امنی اور تنزل کا سامنا کرتی ہیں۔ انسان بالفعل اس کائنات پر اللہ تعالی کا نائب اور خلیفہ ہے اور اس کے فرائض منصبی میں یہ شامل ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ضبط آشنا کرے کیونکہ نظم و ضبط کی ضرورت و اہمیت علمی، عقلی اور تاریخی طور پر ثابت ہے۔
7۔ اسلام اور نظم و ضبط
معاشرہ اور ریاست کی بنیاد کسی معاہدہ عمرانی کو تسلیم کیا جائے یا انسانی تمدن کے فطری ارتقائی عمل کو ۔۔۔ یہ بات بہر حال بدیہی ہے کہ نظم و ضبط کے بغیر معاشرہ اور اجتماعیت کے کسی بھی ادارے کا وجود محال ہے۔ اسلام نے اپنی بنیادی تعلیمات میں اس بنیادی نکتہ پر بہت زور دیا ہے، جس کا اظہار اس بات سے بھی ہو تا ہے کہ معاشرہ کی چھوٹی سے چھوٹی اکائیوں کو بھی تنظیم کے بغیر نہیں چھوڑا۔ مثلا معاشرہ کی سب سے چھوٹی اکائی یعنی خاندان کو بھی نظم میں پرونے کے لیے ایک فرد کو ذمہ دار قرار دیا ۔ قرآن مجید میں ہے: {الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ} [النساء: 34]، اس سے بھی آگے بڑھ کر اس بات کا بھی اہتمام کیا کہ جہاں اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کو ماننے والے کوئی دو افراد ، اگرچہ عارضی طور پر ہی، اکٹھے ہوں تو ان کو بھی ہدایت ہے کہ ان میں سے ایک امیر ہو گا۔ بلکہ اس سے بھی مزید آگے یہاں تک اہتمام کیا گیا کہ ہر فرد نوع انسانی کو مسئولیت کا اہل قرار دیتے ہوئے اسے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا:
(أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُ، وَالعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)( 11الترمذي ،محمد بن عيسى،أبو عيسى،سنن الترمذي(المحقق: بشار عواد معروف)، باب ما جاء فی الامام ،رقم 1705 ،ج3ص260،دار الغرب الإسلامي – بيروت،1998 م). خبردار تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر کسی سے اس کی نگہبانی کا سوال کیا جائے گا۔ حکمران لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا ، آدمی اپنے گھر والوں پر نگہبان ہے اور وہ اس کا جوابدہ ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور وہ اس کی جواب دہ ہے۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جوابدہ ہے۔ پس خبردار رہو کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر کسی سے اس کی نگہبانی کا سوال کیا جائے گا۔
مسئولیت کا یہ نظام اور احساس ایک ایسے نظم وضبط کی نشاندہی کرتا ہے ، جو کس بھی حال اور جگہ پر ،کسی فرد نوع انسانی کو اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو کر رہنے کی اجازت نہیں دیتا اور اس کے اپنے شعور ہی کو اس کا نگران بنا کر اسے ہمہ وقت چوکس رہنے کے ترغیب دیتا ہے۔یہی مثالی نظم و ضبط ہے ۔
8۔ پاکستان میں لا قانونیت ( عدم نظم و ضبط ) کی مروجہ صورتیں
جب ہم ریاست میں نظم و ضبط کے حوالے سے پاکستان کو دیکھتے ہیں تو ہمیں صورت حال میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش نظر آتی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی اور عدم برداشت کے کلچر کا سامنا ہے۔ کرپشن ایک ناسور کی طرح ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ جرائم کی شرح کافی زیادہ ہے ،جس میں قتل، ڈکیتی ، چوری، اغواء، زنا، فراڈ سے لوگوں کی جائدادیں ہتھیانا جیسے جرائم شامل ہیں۔ اسی طرح ریاست کے خلاف جاسوسی، دھماکے، بڑے پیمانے کی دہشت گردی سمیت انسانی سمگلنگ، منشیات فروشی، جعلی ادویات بنانے اور دیگر اشیاء میں ملاوٹ کرنے،گاڑیاں اور موٹرسائیکل چھیننےجیسے جرائم بھی کافی تعداد میں ہو رہے ہیں۔ بجلی چوری، ٹیکس چوری، رشوت ستانی، فرائض سے لاپرواہی جیسی لاقانونیت عام ہے۔ معاشرتی سطح پر ہم بے حسی، عدم برداشت، دھوکہ دہی، جھوٹ ،منافقت، مطلب پرستی، مادہ پرستی اوروعدہ خلافی جیسے رویے ظاہر کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہمسایوں سے ، بھا ئیوں سے، والدین سےاور دیگر ساتھی انسانوں سے ہمارہ رویہ ہرگز وہ نہیں جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ گلیوں بازاروں میں گندگی پھینکنے ، ماحول کو خراب کرنے اور اجتماعی کاموں کے لیے شدید عدم دلچسپی جیسے رویے ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ غرض ہمارے یہاں نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں کے لا تعداد طریقے اور شکلیں پائی جاتی ہیں ۔ جرائم کا پایا جانا اصل مسئلہ نہیں بلکہ معاشرے میں ان جرائم کے خلاف قوت کا عدم اور ایک خاموش قسم کی مفاہمت و سمجھوتہ بندی کا وجود اصل مسئلہ ہے۔
9۔ لاقانونیت ( عدم نظم و ضبط ) کی وجوہات
نظم وضبط کے حصول میں ناکامی کی بڑی وجوہات میں جہالت، غربت، عدم مساوات، عدل کا فقدان، طبقاتی بالادستی،قیادت پر عدم یقین ، قوت نافذہ کی نااہلی،تربیت کا فقدان اور سوسائٹی کے احوال کی عدم معرفت شامل ہیں۔
10۔ لاقانونیت کے نفسیاتی عوامل
ریاست میں نظم و ضبط کے وجود اور عدم کا دائرہ انفرادی وعائلی زندگی سے لے کر معاشرتی و سماجی زندگی تک پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر فرد جو بھی عمل کرتا ہے ،وہ اس کی شخصیت کا پرتو ہوتا ہے،وہ اس کی فکر اور سوچ کو ظاہر کرتا ہے، لہذا جب ہم کسی فرد کے عمل کو احاطہ ضبط میں لانا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ اس کی سوچ کو ضابطے میں لایا جائے۔ انسانی سوچ اور اسکی فکر ، اس کے حالات اور معاشرے کے ماحول کی عکاس ہوتی ہے۔ جو ماحول میں ہو رہا ہو ، فرد سے اسی کی توقع کی جاتی ہے اور عوام سے تو اس سے بڑھ کر کسی چیز کی توقع کی بھی نہیں جا سکتی۔ غیر معمولی افراد اور ابطال سے بہر حال کسی تبدیلی کی امید ہوتی ہے۔ زیر تحریر مقالہ چونکہ عوام الناس کے نظم و ضبط کے متعلق ہے ، اس لیے ہمیں ان عوامل کا تجزیہ ضرور کرنا چاہیے ، جو کسی فرد کے مزاج ،اسکے کردار اور اس کے عمومی رویہ کی تشکیل میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ افراد کی معاشی صورت حال ان کے کردار میں بہت زیادہ دخیل پائی گئی ہے۔ بعض اوقات کسی فرد کی غربت اسے خود کشی ، قتل، ڈکیٹی ، چوری، غبن ، ضمیر فروشی، عصمت فروشی کی طرف اور حتی کہ اسے ایمان سے محرومی کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ اس بات کا لحاظ شریعت نے بھی کیا ہے۔ اسی طرح جرم کے اسباب میں دولت کی فراوانی کا بھی کبھی عمل دخل ہوتا ہے۔ وسائل اور نعمتوں کی بہتات سے تکبر پیدا ہونے ، دولت کی حرص بڑھنےاور بدکاری کا شوق پیدا ہونے،اور حتی کہ انکار معاد جیسے واقعات بھی پیش آنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اسی طرح اگر کسی معاشرہ میں ناجائز دولت کمانے کے ذرائع موجود ہوں توبھی اسراف سے لے کر زنا اور فحاشی جیسے جرائم کے ارتکاب تک کے وسیع امکانات پیدا ہو جاتے ہیں اوراسی سے اولادوں کے بگڑنے کے مظاہر ہم روز دیکھتے ہیں۔ کسی مرد یا عورت کو بچپن سے ہی اگر ایسا ماحول ملا ہو جہاں اخلاقی جرائم اور فحاشی زیادہ معیوب نہ ہو تو ایسے فرد سے اعلی کردار کی توقع بے جا ہی تصور ہوگی۔ اسی طرح جس بچے کو تعلیم یا اچھی تربیت نہ ملی ہو اس میں اعلی سماجی شعور پیدا ہونا عموما ناممکن ہوتا ہے۔ بعض سرکاری محکموں میں اچھے افراد بھی رشوت لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ ادارے کا ماحول یا وہاں کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ 29 اپریل 2016 کو روزنامہ جنگ میں کالم نگار محمد بلال غوری نے کچھ سوال اٹھائے ہیں جو ایسی ہی صورت حال کی عکاسی کر رہے ہیں، لکھتے ہیں:
اس میں شک نہیں کہ پولیس میں دیگر اداروں جیسا پروفیشنل ازم نہیں، یہاں ڈسپلن کی کمی ہے،یہ بھی درست کہ 99 فی صد اہلکاروں کی وجہ سے باقی ایک فی صد بھی بدنام ہوتے ہیں، رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا ، مگر میں تصویر کا دوسرا رخ دکھانا چاہتا ہوں۔ اگر ان اداروں کو پولیس تھانوں اور دیگر دفاتر کے باہر بورڈ آویزاں کرنے کے لیے کسی ٹوتھ پیسٹ کمپنی سے اشتراک کرنا پڑے، اگر ان کے اہلکار بھی دفتر پہنچنے اور چھٹی کے بعد گھر جانے کے لیے سڑکوں پر لفٹ مانگتے دکھائی دیں، اگر انہیں بھی ضمنی لکھنے کے لیے محکمے سے اسٹیشنری میسر نہ آئے اور اس سرکاری کام کے لیے مدعی یا ملزم کی جیب کاٹنا پڑے ۔۔اگر ان کو بھی یہ خدشہ لاحق ہو کہ کب کوئی ایم پی اے، ایم این اے یا کوئی اور با اثر شخصیت جا کر ان کا تبادلہ کروا دے گا تو کیا ان کی کارکردگی کا معیار وہی رہے گا۔۔ اگر پولیس ، رینجرز یا فوج کے جوانوں کی گاڑی کا پٹرول ملزم کا پیچھا کرتے ہوئے ختم ہو جائے یا زنگ آلود بندوق عین وقت پر ٹھس ہو جائے۔۔۔ تو کیا تب ان کی کارکردگی اور پروفیشنل ازم پر فرق نہیں پڑے گا(12روزنامہ جنگ 29 اپریل 2016, ص 6 ، http://e.jang.com.pk/04-29-2016/lahore/pic.asp?picname=09_07.gif )”
کوئی شخص اس ساری صورت حال کے جاری رہنے کا جواز فراہم نہیں کر سکتا لیکن وجوہات کا ادراک کیے بغیر لا قانونیت کا خاتمہ بھی نہیں ہو سکتا۔ جس معاشرے میں ذرائع ابلاغ اور انٹر نیٹ پر ہر طرح کا متاثر کن غیر اخلاقی موادموجود ہو، اور وہاں مخلوط طرز تعلیم رائج ہو ، وہاں کی نوجوان نسل سے کسی اعلی علمی و اخلاقی سرگرمی کی توقع عبث ہو گی۔ اسی طرح ٹیکس چوری، گیس چوری، بجلی چوری، کام چوری، رشوت ستانی اور غبن کے ماحول میں ایک دلیر مگر کمزور ایمان آدمی سے شرافت کی امید رکھنا بے معنی ہے۔نبی اکرم ﷺ نے ماحول کے انسان پر اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے متعلق فرمایا:
(مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، وَيُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ)( 13البخاري ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع الصحيح المختصر،تحقيق : د. مصطفى ديب البغا ، بابإِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ ،ج 2 ص 95،دار ابن كثير ، اليمامة – بيروت،الطباعة الثالثة ، 1407 – 1987)ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ،نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔
اسی طرح فرد کا ماحول اور بعض اوقات مجبوریاں اس سے وہ کام کروا دیتی ہیں جو عام حالات میں اس فرد سے صادر نہیں ہوتے، اس طرح کے کیسز کو پرکھنے (Identify) کی ضرورت ہے۔
11۔ اضطرار کا اصول
قرآن حکیم نے {فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ} [الأنعام: 145] کہ کر حالت اضطرار میں حرام کو بھی قابل قبول قبول قرار دیا ہے۔ اور حضرت عمار بن یاسر ؓ کی حدیث سے ہمیں حالت اضطرار میں کلمہ کفر کہنے پر بھی مؤاخذہ نہ ہونے کا پتہ چلتا ہے( 14ابن كثير،إسماعيل بن عمر ،تفسير القرآن العظيم)المحقق: محمد حسين شمس الدين(،درآیت ” إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمانِ “دار الكتب العلمية،بيروت،الطبعة: الأولى – 1419 هـ)۔ نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ سے قبل حضرت حاطب بن ابی بلتعۃ ؓ کے اہل مکہ کو خط لکھنے کے واقعہ میں بھی جرم کے نفسیاتی اسباب کے تجزیے کے اصول کو پیش نظر رکھا اور اضطرار کے قاعدہ کی روشنی میں انہیں معاف فرما دیا۔ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی کے معاملہ میں بھی اسی اصول کے تحت درگزر کرنے کی استدعا کی تھی( 15البخاري ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع الصحيح ،محوله بالا ،باب عیادۃ المریض راکبا و ماشیا ,ج 7 ص 119۔)۔ اسی طرح دیگر بہت سی مثالیں تعلیمات نبوی ﷺ میں اس اصول کے استعمال پر دلالت کرتی ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ان اصولوں کا لحاظ کرنا چاہیے۔ یہ قاعدہ تقاضا کرتا ہے ہے کہ کوئی ایسا قانون یا ضابطہ نہ بنایا جائے جو لوگوں کی امنگوں کے خلاف ہو یا اس سے ان کے مشقت میں پڑنے کا خدشہ ہو۔ اور یہ بھی کہ اگر ایسا کوئی ضابطہ موجود ہو تو اس پر عمل درآمد کے سلسلہ میں لوگوں کی مجبوریاں کو اس قاعدہ کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔
12۔ نظم و ضبط کی پابندی کروانےکے اساسی اصول
الف ۔ حقوق و فرائض کا توازن اور خیر خواہی
نظم و ضبط کی عوام کی سطح پر پابندی کا اصو ل حقوق و فرائض کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔ سب کے بنیادی حقوق محفوظ ہونے چاہییں اور اسی طرح کسی سے بھی اس کی ذہنی ، جسمانی اور مالی استطاعت سے بڑھ کر فرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام “الدین النصیحۃ” کے ذریعہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان دوسرے ساتھی انسانوں کے بارے میں خیر خواہی کی سوچ رکھے ، جس کا پیمانہ یہ ہے کہ انسان اپنے لیے جو بھلائی چاہتا ہے وہ دوسروں کے لیے بھی چاہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ایک فرمان اس اصول کو مزید وضاحت سے مؤکد کرتا ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے:
عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : ( لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه)(16 البخاري ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع الصحيح ، محوله بالا ،کتاب الایمان ج 1 ص 14۔ )تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
یہی وہ سنہری اصول ہے جو ایک باوقار اور منظم اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے قاعدہ اساسی اور حقوق فرائض کے درمیان توازن کے لیے نقطہ اتصال (Pivot)کی حیثیت رکھتا ہے، جسے انسان عقلی طور پر بھی بخوبی پہچانتا ہے۔ اسلامی تعلیمات ہرحال میں خیر خواہی کا حکم دیتی ہے حتی کہ آپ ﷺ نے ظالم کو ظلم سے روک کر اس سے بھی خیر خواہی کا حکم فرمایا۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
(«انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا، أَفَرَأَيْتَ إِذَا كَانَ ظَالِمًا كَيْفَ أَنْصُرُهُ؟ قَالَ: «تَحْجُزُهُ، أَوْ تَمْنَعُهُ، مِنَ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ)( 17البخاري ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع الصحيح ، محوله بالا ، ج 9 ص 22 ، رقم 6952) اپنے بھائی کی مدد کرو اگرچہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ پس ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ تعالی کے رسول ﷺ جب وہ مظلوم ہوتب تو میں اس مدد کروں ، بھلا جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی کیسے مدد کروں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم اسے ظلم سے روکو یا منع کرو تو یہی اس کی مدد کرنا ہے۔
ب ۔ قانونی مساوات
قرآن حکیم نے جس فسادی رویے کی بنا پر قوم شعیب علیہ السلام کو تباہی سے دو چار کیا اور تمام انسانوں کے لیے “ویل” کا ذکر فرمایا ہے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پیمانے اپنے اور پرا ئےکے بارے میں مختلف تھے۔ قرآن مجید میں ہے: {وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ} [المطففين: 1 – 3]۔آج یہ رویہ ہماری قومی حیات کے ہر طبقہ اور ہر گروہ کا وطیرہ بن چکا ہے۔یہی رویہ ہم نے قانون ، انصاف اور نظم و ضبط کے شعبہ میں اختیار کیا ہوا ہے۔ ہم میں سے ہر صاحب حیثیت شخص اپنا حق سمجھتا ہے کہ قانون دوسروں کے لیے ہے اور اس کے لیے تو بس استثناء ہے۔ خود کو قانون سے ماوراء سمجھنے کا یہ رویہ ہمارے یہاں نظم و ضبط کی پابندی کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے اس میدان میں بھی ہمارے لیے نہایت شاندار مثالیں چھوڑی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے خود کو بھی قصاص کے لیے پیش فرمایا ۔کتب سیرت میں ہے کہ غزوہ بدر میں عین جنگ شروع ہونے سے پہلے آپ ﷺ صفیں درست کروا رہے تھے ، دست مبارک میں ایک تیر تھا کہ اس سے ایک صحابی حضرت سواد ؓبن غزیہ، جو صف سے آگے نکلے ہوئے تھے، کے پیٹ پر دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا، سواد برابر ہو جاؤ۔ سواد نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، بدلہ دیجئے۔ آپ ﷺ نے ان کے مطالبہ پر بدلہ دینے کے لیے خو دکو پیش فرمادیا( 18الواقدي ،محمد بن عمر بن واقد ، المغازي(تحقيق: مارسدن جونس)ج 1ص 56، دار الأعلمي ,بيروت،الطبعة: الثالثة ,4091/1989.)۔آگے ایک دلچسپ صورتحال پیش آئی، تاہم اس واقعہ سے جو سبق ہم آپ کے سامنے لانا چاہتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کس طرح خود کو انصاف کے لیے پیش فرماتے ہیں۔ ایک اور اہم واقعہ ، جسے تمام معتبر کتب حدیث نے نقل کیا ہے ، یوں ہے کہ غزوہ فتح کے موقع پر قریش کے ایک معزز گھر کی ایک عورت نے چوری کرلی، قریش نے سفارش کے لیے رسول مکرم ﷺ کےمحبوب اسامہ بن زید ؓ کو چنا۔ سفارش سن کر آپ ﷺ نےحالت غضب میں فرمایا کہ تم اللہ کی حدوں میں سفارش کرتے ہو؟؟ پھر ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا (وَإِنِّي وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا )( 19القشيري ،مسلم بن الحجاج، المسند الصحيح المختصر (المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي) ج۳ حدیث نمبر ۱۱۵۳ دار إحياء التراث العربي – بيروت)مجھے اپنی جان کے مالک کی قسم ، اگر فاطمہ ؓ بنت محمد(ﷺ) بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ حق یہ ہے کہ اگر قانون کی نظر میں اپنے اور پرائے کا تصور موجود ہو، یا وہ امیر و غریب میں ، کمزور و ناتواں میں، حاکم و محکوم میں فرق کرے تو انصاف اور عدل کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے، اور اگر عدل قائم نہ ہو تو نظم و ضبط قائم نہیں ہو سکتا۔
پ ۔ قیام عدل ۔ اجتماعی ذمہ داری
نظم و ضبط کے قائم کرنے کا ایک اہم قاعدہ “عدل ” کا قیام ہے۔ اس پر ہم قدرے سابقہ عنوان کے تحت بھی لکھ چکے ہیں تاہم یہاں تفصیل سے گفتگو کی جاتی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں عدل کے قیام کے متعلق خصوصی احکام دیے ہیں۔ فرمان باری تعالی ہے : {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ} [النحل: 90] ۔۔۔اور۔۔۔ {وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ} [النساء: 58]۔ قرآن حکیم نے ایک بہت عمدہ تشبیہ سے عدل کی اہمیت کو سمجھایا ہے، ارشاد باری ہے: { اور اللہ ایک اور مثال دیتا ہے کہ دو آدمی ہیں ان میں سے ایک گونگا ہے جو کوئی کام نہیں کرسکتا، اور اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، وہ اسے جہاں کہیں بھیجتا ہے، وہ کوئی ڈھنگ کا کام کر کے نہیں لاتا، کیا ایسا شخص اس دوسرے آدمی کے برابر ہوسکتا ہے جو دوسروں کو بھی عدل کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھے راستے پر قائم ہے ؟
} [النحل: 76]یہی تشبیہ افراد سے آگے بڑھ کر معاشروں اور ریاستوں پر بھی اسی طرح لاگو ہوتی ہے۔ جو معاشرے عدل قائم کرنے سے عاری و قاصر ہوتے ہیں ان کے لیے قرآن کا یہی فیصلہ ہے(أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ)۔ نبی پاک ﷺنے اپنی ساری دعوت اور جد و جہد کے دوران عدل کے قیام کو تمام معاشرتی سرگرمیوں پر مقدم رکھا، حتی کہ میدان حرب میں بھی۔۔ اوپر نقل کیا گیا ہے کہ کس طرح آپ ﷺ نےمیدان جنگ میں بھی جنگی تیاری روک کرعدل قائم کرنے کا اہتمام کیا( 20الواقدي ،محمد بن عمر بن واقد ، المغازي، محوله بالا،)۔سیرت طیبہ سے ہمیں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں تاہم یہاں اختصار مطلوب ہے اس لیے صرف میثاق مدینہ کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ میثاق مدینہ کی ساری عبارت پڑھی جائے تو قاری دیکھ لیتا ہے کہ عدل کے معاملات کا غیر معمولی اہتمام کیا گیا ہے، بلکہ اس میثاق کا مقصدہی ایسے خطوط کی تعیین ہے، جس سے ریاست کے معاملات میں ذمہ داریوں کی تقسیم کار کے اصول واضح کیے جاسکیں۔ اسی لیے اسے دنیا کا پہلا تحریری آئین کہا گیا ہے۔انصاف کے حصول کے طریقہ کار اور عدالت مرافعہ کے قیام جیسے اہم معاملات طے فرماتے ہوئے ، آپ ﷺ نے نہایت ہی بصیرت افروز طریقے سے عدل کو اجتماعی ذمہ داری بنا دیا اور صرف اسی پر اکتفاء نہیں فرمایا ،بلکہ انصاف کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو بھی دور کر دیا۔ ابن ہشام نے منشور مدینہ کا جو متن دیا ہے ، اس میں لکھا ہے:
(وَإِنَّ الْمُؤْمِنِينَ الْمُتَّقِينَ عَلَى مَنْ بَغَى مِنْهُمْ، أَوْ ابْتَغَى دَسِيعَةَ ظُلْمٍ، أَوْ إثْمٍ، أَوْ عُدْوَانٍ، أَوْ فَسَادٍ بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ، وَإِنَّ أَيْدِيَهُمْ عَلَيْهِ جَمِيعًا وَلَوْ كَانَ وَلَدَ أَحَدِهِمْ)( 21ابن هشام،عبد الملك بن هشام بن أيوب، السيرة النبوية ج1ص502(تحقيق: مصطفى السقا)شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده ،بمصر،الطبعة: الثانية، 1375هـ – 1955 م). اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو ان میں سرکشی کرے گا یا استحصال بالجبر کرے گا یا گناہ یا تعدی کا ارتکاب کرے یا ایمان والوں میں فساد پھیلانا چاہے اور ان سب کے ہاتھ مل کر ایسے شخص کے خلاف اٹھیں گے خواہ وہ ان مین سے کسی کا بیٹا ہے کیوں نہ ہو۔
یعنی عدل کے معاملے میں کوئی شخص نہ صرف یہ کہ حائل نہیں ہو سکتا ،بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ بھی انصاف کی حمایت کرے ، اگرچہ وہ اس کے بیٹے ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ قرآن نے بھی{وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ} [النساء: 135] کہ کر یہی حکم دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ جب عدل ہی نظم و ضبط کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور ہم اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو جانتے بھی ہیں تو پھر ناکامی کیوں ہے؟ اس سوال کا ایک جواب بہت سادہ سا ہے کہ ہمارے یہاں انصاف اپنا اپنا ہے۔ Pick & Choose کے انصاف سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا (أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ)( 22القشيري ،مسلم بن الحجاج، المسند الصحيح المختصر ، محوله بالا، رقم3197 ،ج 9ص54)۔ اما بعد ! بے شک تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہو گئیں کہ جب ان میں کوئی طاقتور سرقہ(جرم )کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور ایسا کرتا تو وہ اسے سزا دیتے۔
یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو سماجی ، قومی اور عالمی فساد کا اصل سبب ہے۔ عوام الناس کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لیے صرف اسی بات کا اہتمام کر لینا کافی ہے کہ جو قانون اور ضابطہ ان کے کمزوروں پر لاگو ہو رہا ہے وہ ان کے طاقتور لوگوں پر بھی لاگو ہو۔
ت ۔ رجحان سازی میں طبقہ امرا کا کردار
اجتماع کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ لوگ اپنے حکمرانوں اور امراء کی پیروی کرتے ہیں یعنی اصطلاح جدید میں یہ رجحان ساز(trend Setter )ہوتے ہیں۔ عربی میں ایک مشہور مقولہ ہے:” النَّاسَ عَلَى دِينِ مُلُوكِهِمْ” یعنی لوگ اپنے حکمرانوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اس بات کی تائید قرآن پاک کی آیات سے بھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ } [هود: 116] ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: {وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا} [الإسراء: 16] اور فرمایا {وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ} [سبأ: 34] اسی طرح فرمایا : { وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا} [الأنعام: 123]۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح کی قوم ہوتی ہے ، ان کے حکمران بھی ویسے ہی ہوتے ہیں تاہم عوام کی مزاج سازی میں حکمرانوں اور مقتدر لوگوں کا وافر حصہ ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک حکمران نہ بدلیں قوم نہیں بدل سکتی۔ ہمارے حکمران لا قانونیت میں عوام سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں لہذا اگر قوم کو نظم و ضبط کا پابند بنانا مقصود ہے تو حکمرانوں اور اشرافیہ پر محنت کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ عوام ٹیکس چوری کرنے میں اپنے آپ مجرم نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کا ضمیر ان کو ملامت کرتا ہے۔ اس کی وجہ عوام الناس یہ بتاتے ہیں ، اور ظاہر ہے اس کی تائید نہیں کی جا سکتی ،تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کے سامنے ان کے حکمران اپنی جائدادوں پر اور کاروباروں پر بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اور طرح طرح کے ہیر پھیر سے ٹیکس بچاتے ہیں۔ اس کی تائید میں کسی کا نام لینے اور حوالے پیش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ابلاغ حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے۔ اسی طرح سابقہ اور موجودہ حکمرانوں پر ہر دور میں اپنے اثاثے غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں، جن کی خاطر خواہ صفاٰئی دینا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ عوام الناس میں یہ خیال پختہ ہے کہ ان کے ٹیکسز کو خاموشی سے بیرون ملک منتقل کر کے انہیں لوٹا جا رہا ہے۔ اس طرح کے حالات میں عوام سے یہ توقع کہ وہ دیانت داری سے ٹیکس ادا کریں گے، کوئی مثبت نتیجہ نہیں لا سکتی۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنے آپ کو ہمیشہ مشکل فیصلوں میں بطور مثال پیش فرمایا ہے۔ روایات میں ہے کہ سود کی حرمت کے اعلان کے وقت حجۃ الوداع میں آپﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس ؓ کا واجب الاداء سود معاف فرمایا اور جاہلیت کے خون بہا باطل کرنے کے لیے خاندان بنو ہاشم میں ربیعہ بن حارث کا خون معاف فرمایا( 23القشيري ،مسلم بن الحجاج، المسند الصحيح المختصر ، محوله بالا، باب حجة النبی، ج2حدیث نمبر 1218 ۔)۔ اسی طرح بنو ہوازن نے جب بعد از تقسیم غنیمت آپﷺ سے قیدیوں کی رہائی کی درخواست کی تو آپ نے ان کی سفارش کرنے کے لیے خاندان بنو عبد المطلب کے قیدیوں کو رہا فرمایا، اور مسلمانوں سےان کے قیدیوں کی رہائی کی سفارش فرمائی تو مہاجرین و انصار نے آپ ﷺ کی پیروی میں ہوازن کے قیدیوں کو رہا کر دیا( 24ابن هشام ،عبد الملك، السيرة النبوية،(المحقق : طه عبد الرءوف سعد)ج5 ص163 دار الجيل – بيروت,الطبعة : الأولى ، 1411)۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں سیرت طیبہ میں موجود ہیں ، جن سے ہمارے ارباب اختیار کو سبق لینا چاہیے۔
ج۔ عزم و اعتماد
نظم و ضبط اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتا جب تک فکری طور پر عوام کو اس کی ضرورت کا قائل نہیں کر لیا جاتا ۔ انہیں اس کا پابند بنانے سے قبل دو باتوں کا اہتمام ضروری ہے۔ اول یہ کہ قانون نافذ کرنے والے قانون شناس ہوں اور ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہو یعنی ان میں قانون اور عوام کے حالات جاننے کی اہلیت ہو ، دوم یہ کہ وہ قانون کے نفاذ پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہوں جو کہ اس وقت تک نہیں آ سکتا ،جب تک قانون ان کے لباسوں اور وردیوں کے اندر ان کے جسموں پر لاگو نہ ہو جائے۔ایک حدیث بیان کی جاتی ، جس کے ضعف کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے: (عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال سيد القوم خادمهم)( 25الحلبي،علي بن برهان الدين، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون،ج1 ص109 دار المعرفة، بيروت ،1400) حکمت سے پر یہ روایت ہمارے مدعا کا بہتر ابلاغ کرتی ہے ۔جب ہم ان قوموں کو دیکھتے ہیں جو ترقی یافتہ ہیں اوران میں قانون کا احترام پایا جاتا ہے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ ان کے حکمران، ان کے ادارے، ان کی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں قوم اور عوام کی خدمت کے جذبہ سے سر شار ہیں۔بات کی وضاحت کے لیے میں ایک خبر کا سہارا لوں گا ، جو 24 اپریل 2016 کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوئی۔لکھا ہے:
اوسلو۔ایف سولہ طیارے نے ناروے میں 280میل کا سفر صرف 25منٹ میں طے کر کے میڈیکل کا خصوصی سازو سامان پہنچا کر مریض کی زندگی بچا لی ۔تفصیلات کے مطابق ناروے کے شہر بوڈو میں نجی ہسپتال میں مریض کو انتہائی تشویشناک حالت میں لا یا گیالیکن ہسپتال کے پاس علا ج کیلئے ’ای سی ایم او ‘نامی مخصوص مشین موجود نہیں تھی جوکہ دل اور پھیپھڑوں کو مدد فراہم کرتی ہے ،جس کے بغیر مریض کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق تھا ۔ہسپتال کے ڈاکٹرز کو سب سے قریب ترین جس ہسپتال کا علم تھا وہ تقریبا 280میل دور جنوب میں ٹرون ڈھیم شہر میں تھا اور وہاں سڑک کے ذریعے جانے میں تقریبا 10گھنٹے کا وقت درکار تھا اور یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ اس دوران مریض دم نہ توڑ جائے ۔تاہم ڈاکٹروں نے ناروے کے شہر ٹرون ڈھیم میں قریبی ایئر فورس کی بیس سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ ’کیا ایسا ممکن ہو سکتاہے کہ کسی طریقے سے خصوصی مشین بوڈو پہنچائی جا سکے جس سے مریض کی جان کو بچایا جا سکے ،جس کی حالت انتہائی تشویشناک ہے ‘۔ 338سکواڈرن کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل گیف کلپ نے جواب دیا کہ ’ایسی امید تو ہے کیونکہ ہماری بوڈو کے قریبی علاقے موس میں دو تربیتی پروازیں ہیں ،جس پر ایک جہاز کو وہیں رکنے کیلئے کہا گیااور ساری جگہیں دیکھی گئیں،جہاں پر مشین کو رکھ کرلے جانا ممکن ہو‘۔انہوں نے کہا کہ عمومی طور پر ہم یہ سفر 35منٹ میں طے کرتے ہیں لیکن اس خصوصی سامان کی وجہ سے پائلٹ کو ذراجلدی پہنچنے کی ہدایت کی گئی جس پر پائلٹ نے یہ سفر 25منٹ میں طے کیا ۔کال کے موصول ہونے کے چالیس منٹ کے بعد وہ خصوصی مشین بوڈو کے ہستپال میں پہنچا دی گئی تھی ۔ان کا کہناتھا کہ انہیں یہ مدد فراہم کرنے پر انتہائی خوشی محسوس ہور ہی ہے اور زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ ہماری کوشش سے کسی کی زندگی بچ گئی ہے( 26 روزنامہ پاکستان، 28 ۱پریل، 2016، http://dailypakistan.com.pk/daily-bites/24-Apr-2016/370207)۔
یہ خبر خود اپنی وضاحت کے لیے کافی ہے۔ہمارے یہاں اس طرح کی روایات بالکل موجود نہیں ہیں بلکہ ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ جو” حسن سلوک ” ہو رہا ہے اس کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کا فی ہیں۔ بطور مثال صرف ایک ہی حالیہ خبر پیش کی جاتی ہے جبکہ ہمارے اردگرد ایسی بہت سی مثالیں بکھری پڑی ہیں۔ روزنامہ دنیا لاہورنے اپنی 3 جنوری 2017 ء کی اشاعت میں ایک تصویر اور خبر شائع کی ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
یکم جنوری کو علی الصبح 3بجے ضلع قصور کی ساٹھ سالہ زہرہ بی بی کو دل کی تکلیف کے باعث پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال لایا گیا،ڈاکٹروں نے مریضہ کے گردوں کی خرابی کا کہہ کر لواحقین کو سروسز ہسپتال لیجانے کی تجویز دی،سروسز ہسپتال میں مریضہ کو ایمرجنسی سے ہی جناح ہسپتال لیجانے کا کہہ دیا گیا جس پر مریضہ کے لواحقین اسے جناح ہسپتال لے آئے جہاں ایمرجنسی میڈیکل ون میں داخل کیا گیا۔ابتدائی طبی امداد کے بعد مریضہ کو داخلے کے لیے میڈیکل یونٹ ون کے وارڈ میں بھجوایا گیاجہاں بیڈ دستیاب نہ ہونے کے باعث مریضہ کو وارڈ کے ٹھنڈے فرش پر ہی لٹا کر ڈرپ لگا دی گئی اسی دوران زہرہ بی بی خود بھی ’ٹھنڈی‘ ہو گئی(27http://www.dunya.com.pk/index.php/pakistan/2017-01-03/941469#.WHDDyHu2F30) –
اقوام مغرب میں دیگر عیوب اپنی جگہ موجودہوں گے مگر ان کے معاشروں میں اپنے شہریوں کی نگہداشت کی شاندار روایت موجود ہے۔ہمیں بھی ان سے اچھی چیزیں اخذ کرنے کے لیے “خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا كَدِرَ” کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔
فورسز میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے “Spirit De Corps”،یہ ایک پیمانہ ہےجس سےکسی جمعیت کے افراد کے اپنی جمعیت سے جذباتی لگاؤ کے مقیاس سے اس وحدت کی قوت کا اندازہ کیا جاتا ہے۔اس کا سب سے واضح اظہار اس جمعیت کے افراد کا اپنے قائدین پر اعتماد کے درجے اور پیمانے سے ہوتا ہے۔ ۔قوموں میں بھی یہ جذبہ ان کی اندرونی و بیرونی دباؤ سے حفاظت کے کام آتا ہے لیکن اگر عوام کا اپنے ذمہ داروں پر اعتماد نہ ہو تو مشکل وقتوں میں قوم انتشار کا شکار ہو سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ عوام میں قوم کی محبت کا جذبہ پیدا کیا جائے جو یقینا ٹھوس اقدامات سے ہی پیدا ہو سکتا ہے، ایسے اقدامات جس سے عوام کو یہ احساس ہو کہ وطن اور قوم ان کی” ماں” ہے۔نبی اکرم ﷺ کا ایک فرمان ریاست کے فرائض کی بہتر وضاحت کرتا ہے۔ آ پ ﷺ نے فرمایا:(فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا، فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلاَهُ )( 28البخاري ، محمد بن إسماعيل ،الجامع الصحيح المختصر، محوله بالا ،بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى مَنْ تَرَكَ دَيْنًا، رقم 2399 ،ج 3 ص118 ۔)۔ چنانچہ جو مومن مر جائے اور مال چھوڑے، تو اس کے عصبہ اس کے وارث ہوں گے، جو بھی موجود ہوں اور جس نے کوئی دین یا اہل و عیال چھوڑا، تو وہ میرے پاس آئے میں اس کا مولیٰ (ذمہ دار) ہوں۔
اسی طرح فرمایا ( فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ)(29أبو داود،سليمان بن الأشعث السجستاني۔سنن أبي داود،،ج2 ص229 ،دار الكتاب العربي ـ بيروت، س۔ن۔ )۔ ان احادیث سے ریاست اور قوم کی ذمہ داریوں کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
چ۔ حق بحق حقدار رسید
نظم و ضبط ایک جذبے کا نام ہے جو تربیت سے پیدا ہوتا، عدل سے پروان چڑھتا اور یقین سے قائم رہتا ہے۔ جو یقین نظم و ضبط کو قائم رکھتا ہے، وہ شفافیت سے پیدا ہوتا ہے اور شفافیت کی پہلی منزل امانتوں کا اسکے اہل کو سپرد کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
} بیشک اللہ تمہیں حکم فرماتا ہے کہ امانت والوں کو امانتیں دے دیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلے کرو } [النساء: 58[۔ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرنے کا مفہوم وسیع ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عہدے اور ذمہ داریاں نیز ووٹ اس کے اصل حقدار کو دیا جائے۔ اگر کوئی دردمند قوم کو نظم ضبط کا پابند بنانے میں مخلص ہے تو اسے لازما عوام کو ووٹ کے صحیح استعمال کی ترغیب دینے پر محنت کرنا چاہیے اور حکمرانوں پر اس سلسلے میں دباؤ بڑھانے کے لیے عوام الناس کو ہی متحرک (Mobilize)کرنا چاہیے کہ وہ اپنے وزیر، مشیر اور حکومتی عہدہ دار ان افراد کو رکھیں جو قوم اور عوام سے مخلص ہوں۔ عوام کے نظم و ضبط کی کنجی, گڈ گورننس(Good Governance) میں ہے، اور اچھی حکمرانی کی چابی اہل عہدیداروں کے چناؤ میں ہے۔ لہذا ہمیں عوام کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لیے خود اپنے آپ کو ان قاعدوں کا پابند بنانا چاہیے جو قرآن و سنت کی تعلیمات اور وسیع تر تاریخی تجربات کا نتیجہ ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ ، قرآن پاک کی محولہ بالا آیت کی بہتر تشریح کرتی ہے، جسے صحاح ستہ کی تقریبا تمام کتب نے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے کسی نے قیامت کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (قَالَ فَإِذَا ضُيِّعَتْ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ قَالَ كَيْفَ إِضَاعَتُهَا قَالَ إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ.)( 30البخاري ، محمد بن إسماعيل ،الجامع الصحيح المختصر محوله بالا ،بَابُ مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَ مُشْتَغِلٌ فِي حَدِيثِهِ، رقم 59 ،ج 1 ص21۔) جس وقت امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا، اس نے پوچھا کہ امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہوگا؟ آپ نے فرمایا جب کام نااہل (لوگوں) کے سپرد کیا جائے، تو تو قیامت کا انتظار کرنا۔
ہم جب اپنے احوال پر غور کرتے ہیں تو خود کو قیامت کا منتظر پاتے ہیں۔ اللھم ارحم
ح۔ اجتماعی نفسیات کا لحاظ
نظم قومی ہو، ادارہ جاتی قواعد ہوں ، والدین اور خیر خواہ کی نصیحت ہو یا سب سے بڑھ کر دین کی دعوت ہی کیوں نہ ہو، جب تک مخاطب کی نفسیات کا لحاظ نہ کیا جائے، اثر نہیں کرتی۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اور درد مند اہل نظر کو کامیابی کے حصول کی لیے سوسائٹی کے مزاج کو سمجھنا چاہیے۔معاشرے میں تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔اول: شریف النفس اور قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے، دوم:تربیت یا ماحول کی خرابی کے سبب بے نظمی یا معمولی جرائم کا ارتکاب کرنے والے، اور تیسری قسم عادی مجرموں کی ہوتی ہے جو کسی بھی طور پر جرائم سے باز نہیں آتے۔ جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے تو انہیں صرف قانون کے ابلاغ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے انہیں تربیت دی جانی چاہیے۔ یہاں قانون سے مراد ہر طرح کا نظم و ضبط ہے۔ ان میں سے اکثریت ضوابط پر عمل کرنے میں مخلص ہے تاہم معاشرتی نظم قائم ہونے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ مثلا، قطار بنانا، باری کا انتظارکرنا، مخالف کو بات کرنے کا موقع دینا،ماحول کی صفائی کا خیال رکھنا، وغیرہ تدریجا ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے تعلیم کو عام کرنےاورسماجی تعلیمات کو نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا گروہ حالات کے جبر یا کسی وقتی جذبہ کے تحت نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ان سے معاملہ اغماض برتنے کا ہونا چاہیے۔ایسی مثالیں سیرت طیبہ میں موجود ہیں کہ کسی نے جرم کیا اور اللہ کے احسان اورضمیر کی خلش نے انہیں خود بخود اعتراف کے لیے دربار نبوی ﷺ میں لا کھڑا کیا ، تو آپ ﷺ نے چہرہ انور پھیر لیا اور چشم پوشی سے کام لیا۔ لیکن جب جرم ثابت ہو گیا تو پھر سزا نافذ کرنے میں بھی کوتاہی نہیں کی ،کیونکہ معاملہ اللہ کی حدوں کا ہے۔ایساہی توازن آج بھی مطلوب ہے۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو عادی مجرم ہیں۔ ان سے سختی سے نپٹنا ہی شریعت کا منشاء ہے۔ عرینہ کے ڈاکوؤں سے ریاست مدینہ کا طرز عمل اس کی مثال ہے جہاں قصاص عادل سے کام لیا گیا۔ اس سے معاشرے میں جرم کی بیخ کنی اور نظم و ضبط کو تر نوالہ سمجھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
خ۔ شفافیت اور رفق
لوگوں کی ساتھ حکومتی اہلکاروں کا انصاف سے پیش آنا انہیں نطم و ضبط کا پابند بناتا ہے اور ناانصافی لوگوں کو جرائم کی طرف مائل کرتی اور ریاست کا باغی بناتی ہے۔ پاکستان میں ہم ناانصافی سے جنم لینے والے جرائم کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ قانون کا احترام اسی وقت ہوتا ہے جب قانون بنانے اور نافذ کرنے والے لوگوں کے نزدیک محترم ہوں۔ اور لوگوں میں احترام اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں، خوشیاں بانٹی جائیں، خوف دور کیے جائیں،ان کا اکرام کیا جائے، ان سے سختیاں دور کی جائیں۔قرآن حکیم میں رسول ﷺ آمد کی غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا {وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ} [الأعراف: 157]: نبی اکرم ﷺ نے بھی بشارتیں دینے اور آسانیاں پیدا کرنے کا حکم دیا ہے، روایت ہے: (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا وَأَبَا مُوسَى إِلَى الْيَمَنِ قَالَ يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا.( 31البخاري ، محمد بن إسماعيل ،الجامع الصحيح المختصر محوله بالا ، بابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ، رقم 3038 ،ج 4 ص65 ۔)۔ نبي اكرم ﷺ نے حضرت معاذ ؓ اور ابو موسی ؓ کو یمن بھیجا تو فرمایا کہ آسانی پیدا کرنا ، تنگی نہ بنانا اور خوشخبریاں دینا، نفرت نہ دلانا۔
بشارتوں اور خوش خبریوں، درگزر اور چشم پوشیوں اور عنایتوں اور انعامات سے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسا انصاف جو نظر آئے اور خود بولتا ہو، وہ دشمنوں کو بھی قریب لے آتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن رواحہ خیبر کی پیداوار کی بٹائی پر مامور کیے گئے تو ان کے انصاف کو دیکھ کر یہودی کہ اٹھے: (قَالُوا هَذَا الْحَقُّ وَبِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ (32أبو داود،سليمان بن الأشعث السجستاني۔سنن أبي داود، محوله بالا ،رقم3412 ،ج3 ص273 ۔ )۔ وہ بول اٹھے یہ انصاف ہے جس پر زمین و آسمان قائم ہیں ۔
د۔ تربیت کا اہم کردار
معاشرے میں نظم و ضبط کی تعلیم کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنانے کے لیے تعلیم اور تربیت کے پورے نظام کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ نبی اکرم ﷺ اپنے ہر عمل سے لوگوں کی تربیت فرماتے تھے۔ مجلس میں خیر کا کام دائیں طرف سے شروع کرنا اگرچہ معمولی سی بات دکھائی دیتا ہے تاہم اس سےمجلسی نظم و ضبط کی تربیت کے زبردست نظام کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ جہاں تک تعلیم کا معاملہ ہے تو قرآن حکیم نے اس پر بہت زور دیا ہے۔ اندھے اور بصیر کے استعارے ، جاہل اور اہل علم کے فرق کو واضح کرتے ہیں۔ اسی طرح تربیت کا معاملہ ہے جس کی اہمیت سےنہ تو از روئے شرع اور نہ ہی عقل انکار ہو سکتا ہے۔ تربیت ہی تعلیم کے درخت کو ثمر بار کرتی ہے۔ قرآن حکیم میں وظیفہ نبوت کے لیے جو “یزکیھم”کی اصطلاح بار بار استعمال ہوئی ہے ، یہ تربیت ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہے۔ لہذا عوام الناس کی تعلیم اور ہمہ گیر تربیت سے ہی مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔
ذ۔ تدریج
نظم و ضبط کی پابندی کا ایک اور اہم قاعدہ تدریج ہے ۔ یہ اصول ہر اس جگہ مفید ہوتا ہے جہاں کسی کا کسی پر کوئی حق یا مطالبہ موجود ہو۔ تدریجا ہی لوگوں کو نظم و ضبط کا پابند کیا جاسکتا ہے۔ جن ملکوں یا معاشروں کے لوگ منظم زندگی گزار رہے ہیں، انہوں نے یہ سفر صدیوں میں طے کیا ہے۔ ہم بھی اگر اپنے یہاں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو تدریج کا اصول اختیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ سنت سے ثابت ہے۔ حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا:
“تم اہل کتاب قوم کی جانب جارہے ہو، سو پہلی بات جس کی دعوت دی جائے وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو۔اگر وہ اس بات میں تمہاری فرمانبرداری اختیار کرلیں تو ان کو سکھایا جائے کہ اللہ نے ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔پھر جب وہ اس بات میں تمہاری فرمانبرداری کریں تو ان کو سکھایا جائے کہ ان کی دولت سے زکوٰۃ لی جائے اور ان کے غریبوں کو دی جائے۔ پھر جب وہ اس میں تمہاری فرمانبرداری کر لیں تو اُن کی دولت کا بہترین حصہ نہ لیا جائے۔مظلوم کی بد دعا سے ڈرتے رہنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں(33القشيري ،مسلم بن الحجاج، المسند الصحيح المختصر ، محوله بالا ، حدیث نمبر 19 ج1 ص35 )۔”
دین کی تبلیغ ،دعوت کی ادائیگی اور نظم کے قیام میں تدریج پر دلالت کرنے والی بہت سی آیات اور احادیث ہیں ، جن سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
ر۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضہ کے قیام کی عدم موجودگی میں صرف حکومتی اہلکاروں کی وساطت سے معاشرے میں نظم ضبط پیدا کرنے کا طریقہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک بہت بڑی اجتماعی ذمہ داری ہے جس کا تعلق مسئولیت کے شدید احساس سے جڑاہوا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے : {وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ} [الذاريات: 55]۔ وعظ و نصیحت ،جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کا ابتدائی اہم ترین مرحلہ ہے، اس کے بہت فوائد ہیں۔ ۔۔۔۔جبکہ اصل ذمہ داری صرف وعظ سے کہیں زیادہ ہے۔ اسلامی تعلیمات معاشرے کو فرد کی ان سرگرمیوں کا نگران بناتی ہیں، جن سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہو۔اس اجتماعی فرض کی ادائیگی پر قرآن و سنت میں بہت زور دیا گیا ہے۔ اور عدم ادائیگی کی صورت میں برے نتائج و عواقب سے ڈرایا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“حدودالہی کو قائم کرنے اور ان میں سستی برتنے والوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک قوم کشتی پر سوار ہوئی اور کشتی کے اوپر اور نیچے والے حصہ کو باہم تقسیم کرلیا بعض کو اوپر والا اور بعض کو نیچے والا حصہ نچلے والے اوپر والے حصے میں جا کر پانی لاتے ہیں تو وہ پانی اوپر والوں پر گرنے لگا پس اوپر والوں نے کہا ہم تمہیں اوپر نہیں آنے دیں گے کیونکہ تم ہمیں تکلیف دیتے ہو اس پر نچلے والے کہنے لگے کہ اگر ایسا ہے تو ہم نچلے حصے میں سوراخ کر کے دریا سے پانی حاصل کریں گے اب اگر اوپر والے ان کو اس حرکت سے باز رکھیں تو سب محفوظ رہیں گے اور اگر نہ روکیں تو سب کے سب غرق ہوجائیں گے (34الترمذي ،محمد بن عيسى،أبو عيسى،سنن الترمذي(المحقق: بشار عواد معروف)، باب ما جاء فی الامام ،رقم 2173 ،ج4ص40،دار الغرب الإسلامي – بيروت،1998 م )”
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام نہایت احتیاط اور تدبر کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ اس کی آڑ لے کر بعض عناصر معاشرے کو اپنی فہم کے مطابق ڈھالنے اور لوگوں کی شخصی آزادیوں میں مخل ہونے اور ان کے پوشیدہ عیوب کو ظاہر کرنے کا نا پسندیدہ فعل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات چشم پوشی،تدریج،حکمت اور لوگوں کی جائز آزادیوں کے تحفظ کا درس دیتی ہیں۔
13۔حاصل کلام
اسلامی ریاست میں عوام الناس کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کا عمل ایک کثیر الجہت سرگرمی ہے جس کے بہت سے پہلو گہرے غوروخوض اور مسلسل عمل کے متقاضی ہیں۔ سطور بالا میں اختصار کے ساتھ اس مسئلہ کے کچھ اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ جن کا ماحصل یہ ہے کہ یہ خواہش، فرد سے زیادہ ،اجتماع اور اس کے ارباب اختیار سے ،اپنی کی ذمہ داریاں ادا کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کی اجتماعیت کو فروغ دیا جائے اور پوری سوسائٹی اور حکومتوں پر فرد کے اعتماد کو بحال کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ ان میں غربت اور ناانصافی کے خاتمے کی کوششیں کرنا بھی شامل ہے۔ نظم و ضبط کی کمی کی ایک اہم وجہ جہالت کی زیادتی اور تربیت کا فقدان بھی ہے۔ ہم میں سے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کریں اوران کی سماجی تربیت پر زوردیں۔نصاب تعلیم میں اسلام کے سماجی علوم کے نئے اسباق شامل کرنے مفید ہوں گے او ر مسجد و منبر کو بھی اسلامی سماجی تعلیمات کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
14۔تجاویز و سفارشات
۱۔ موضوع بہت اہم ہے، موجودہ مقالہ اس کے لیے ناکافی ہے۔ اس موضوع پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے مقالے کی ضرورت ہے۔
۲۔اسلامی معاشروں میں نظم و ضبط کے فقدا ن کا جائزہ لینے کے لیے علوم اسلامیہ، نفسیات اور پبلک ایڈمنسٹریشن کے کچھ لائق لوگوں کے ایک گروپ کو ریسرچ کرنے کا کام حکومتی سطح پر کروایا جانا چاہیے۔ اس کے لیے مستقل تھنک ٹینک بنانے پر بھی توجہ دی جانا مفید ہے۔
۳۔ملک کے نصاب میں سماجی نظم و ضبط اور قانون کی پابندی کے متعلق مواد شامل کیا جانا چاہیے۔
۴۔ اسلام کے اعلی سماجی اصولوں پر مشتمل ایک کتابچہ مرتب کر کے پاکستان بھر کے خطباء و علماء میں تقسیم کیا جائے، جس میں سماجی و معاشرتی اخلاقیات پر خطبات شامل ہوں۔
۵۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی رہنمائی کے لیے جدید طریقہائے تفتیش اور اسلامی تفتیشی اصولوں کےانضمام( integration ) پر مشتمل ایک تحقیق کروائی جانی چاہیے۔جسے پولیس میں تقسیم بھی کیا جا سکتا ہے۔
۶۔ ملک کے طاقتور سیاستدانوں، اعلی بیوروکریٹس، بڑے تاجروں اور معروف صحافیوں کو اسلامی طرز زندگی کی دعوت دی جائے اور ان پر محنت کی جائے۔ اس کے لیے حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی طرز پر مراسلات اور جدید میڈیا کے ذرائع کو استعمال کیا جانا چاہیے۔
۷۔ عدلیہ، تعلیم اور پولیس کے بجٹ کو زیادہ کرنے کی سفارش کی جائے۔ اور پولیس کو سیاسی اثرات سے پاک کرنے کی مہم کو قومی بیانیہ کا حصہ بنایا جائے۔اسکے علاوہ پولیس کے تفتیش کاروں کی تعداد اور ان کی پیشہ ورانہ تربیت کو بڑھانے کے اقدامات کی سفارش کی جائے۔
۸۔ انصاف کی جلد فراہمی کے لیے عدلیہ اور تفتیشی نظام کو تیز اور شفاف کرنے کے ٹھوس اقدامات ملک میں نظم و ضبط کے معیار کو بڑھانے اور لاقانونیت کے خاتمے میں معاون ہوں گے۔
حواله جات
- 1علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں :”أنّ الاجتماع الإنسانيّ ضروريّ ويعبّر الحكماء عن هذا بقولهم الإنسان مدنيّ بالطّبع ” ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد بن محمد ،ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر، ، المحقق: خليل شحادة،دار الفكر، بيروت،الطبعة: الثانية، 1408 هـ – 1988 م،( ج 1/ ص 54 )
- 2علوی، ڈاکٹر خالد ،اسلام کا معاشرتی نظام، ص ۳۴،الفیصل پبلشرز، لاہور س۔ن۔
- 3شاه ولي الله, أحمد بن عبد الرحيم, حجة الله البالغة (المحقق: السيد سابق) ج1 ص 38 ،دار الجيل، بيروت،لطبعة: الأولى، 1426 هـ – 2005م
- 4الفيروزآبادى، مجد الدين أبو طاهر محمد بن يعقوب ، القاموس المحيط ، تحت مادہ ں۔ظ،۔م۔،مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت – لبنان،الطبعة: الثامنة، 1426 هـ – 2005 م
- 5شَهِيُّ الْمَنْطِقِ فَصْلٌ لَا فُضُولٌ وَلَا هَذْرَمَةٌ إِذَا تَكَلَّمَ نَظْمُ الدَّرِّ وَالْمَرْجَانِ لَا نَزْرَ وَلَا نُقْصَانَ،( ابن أبي عاصم ، أحمد بن عمرو بن الضحاك ، الآحاد والمثاني(المحقق: د. باسم فيصل أحمد الجوابرة)ج6 ص 253،دار الراية – الرياض،الطبعة: الأولى، 1411 – 1991.
- 6ابن منظور,محمد بن مكرم الأفريقي،لسان العرب، تحت مادہ ض۔ب۔ط،دار صادر – بيروت،الطبعة الأولى، 1420 ھ
- 7http://www.dictionary.com/browse/discipline
- 8ابن حنبل، أبو عبد الله أحمد بن محمد،المسند (المحقق: شعيب الأرنؤوط )، حدیث نمبر 23489 ،ج 38،ص 477 ،مؤسسة الرسالة،الطبعة: الأولى، 1421 هـ – 2001 م
- 9(ہابز ، لاک اور روسو نے اس نظریہ پر قابل قدر گفتگو کی ہیں ،البتہ اس تصورکی حقیقت پر علماء نے شک ہی کیا ہے لیکن بقول کانت KANT اس نظریہ کو فی الحقیقت کسی ریاست کا ماخذ کرنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے سیاسی تصور کا ایک فلسفیانہ بیان A Philosophical Explanation مانا جائے. نثار احمد، ڈاکٹر، عہد نبوی میں ریاست کا نشو و ارتقا، نشریات، لاہور، 2008 ، ص 214)
- 10نظم و ضبط جب زیادہ ہو جائے تو بھی معاشرے کی نمو رک جاتی ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے ، اقبال کا خطبہ ششم۔ The Principle of Movement in the Structure of Islam
- 11الترمذي ،محمد بن عيسى،أبو عيسى،سنن الترمذي(المحقق: بشار عواد معروف)، باب ما جاء فی الامام ،رقم 1705 ،ج3ص260،دار الغرب الإسلامي – بيروت،1998 م
- 12روزنامہ جنگ 29 اپریل 2016, ص 6 ، http://e.jang.com.pk/04-29-2016/lahore/pic.asp?picname=09_07.gif
- 13البخاري ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع الصحيح المختصر،تحقيق : د. مصطفى ديب البغا ، بابإِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ ،ج 2 ص 95،دار ابن كثير ، اليمامة – بيروت،الطباعة الثالثة ، 1407 – 1987
- 14ابن كثير،إسماعيل بن عمر ،تفسير القرآن العظيم)المحقق: محمد حسين شمس الدين(،درآیت ” إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمانِ “دار الكتب العلمية،بيروت،الطبعة: الأولى – 1419 هـ
- 15البخاري ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع الصحيح ،محوله بالا ،باب عیادۃ المریض راکبا و ماشیا ,ج 7 ص 119۔
- 16البخاري ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع الصحيح ، محوله بالا ،کتاب الایمان ج 1 ص 14۔
- 17البخاري ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع الصحيح ، محوله بالا ، ج 9 ص 22 ، رقم 6952
- 18الواقدي ،محمد بن عمر بن واقد ، المغازي(تحقيق: مارسدن جونس)ج 1ص 56، دار الأعلمي ,بيروت،الطبعة: الثالثة ,4091/1989.
- 19القشيري ،مسلم بن الحجاج، المسند الصحيح المختصر (المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي) ج۳ حدیث نمبر ۱۱۵۳ دار إحياء التراث العربي – بيروت
- 20الواقدي ،محمد بن عمر بن واقد ، المغازي، محوله بالا،
- 21ابن هشام،عبد الملك بن هشام بن أيوب، السيرة النبوية ج1ص502(تحقيق: مصطفى السقا)شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده ،بمصر،الطبعة: الثانية، 1375هـ – 1955 م
- 22القشيري ،مسلم بن الحجاج، المسند الصحيح المختصر ، محوله بالا، رقم3197 ،ج 9ص54
- 23القشيري ،مسلم بن الحجاج، المسند الصحيح المختصر ، محوله بالا، باب حجة النبی، ج2حدیث نمبر 1218 ۔
- 24ابن هشام ،عبد الملك، السيرة النبوية،(المحقق : طه عبد الرءوف سعد)ج5 ص163 دار الجيل – بيروت,الطبعة : الأولى ، 1411
- 25الحلبي،علي بن برهان الدين، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون،ج1 ص109 دار المعرفة، بيروت ،1400
- 26روزنامہ پاکستان، 28 ۱پریل، 2016، http://dailypakistan.com.pk/daily-bites/24-Apr-2016/370207
- 27http://www.dunya.com.pk/index.php/pakistan/2017-01-03/941469#.WHDDyHu2F30
- 28البخاري ، محمد بن إسماعيل ،الجامع الصحيح المختصر، محوله بالا ،بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى مَنْ تَرَكَ دَيْنًا، رقم 2399 ،ج 3 ص118 ۔
- 29أبو داود،سليمان بن الأشعث السجستاني۔سنن أبي داود،،ج2 ص229 ،دار الكتاب العربي ـ بيروت، س۔ن۔
- 30البخاري ، محمد بن إسماعيل ،الجامع الصحيح المختصر محوله بالا ،بَابُ مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَ مُشْتَغِلٌ فِي حَدِيثِهِ، رقم 59 ،ج 1 ص21۔
- 31البخاري ، محمد بن إسماعيل ،الجامع الصحيح المختصر محوله بالا ، بابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ، رقم 3038 ،ج 4 ص65 ۔
- 32أبو داود،سليمان بن الأشعث السجستاني۔سنن أبي داود، محوله بالا ،رقم3412 ،ج3 ص273 ۔
- 33القشيري ،مسلم بن الحجاج، المسند الصحيح المختصر ، محوله بالا ، حدیث نمبر 19 ج1 ص35
- 34الترمذي ،محمد بن عيسى،أبو عيسى،سنن الترمذي(المحقق: بشار عواد معروف)، باب ما جاء فی الامام ،رقم 2173 ،ج4ص40،دار الغرب الإسلامي – بيروت،1998 م